نیپال میں سوشل میڈیا پر حکومتی پابندی اور کرپشن کے خلاف نوجوانوں کی قیادت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے بھڑک اٹھے، جنہوں نے کٹھمنڈو کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پولیس کی فائرنگ اور جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔
EPAPER
Updated: September 08, 2025, 6:00 PM IST | Kathmandu
نیپال میں سوشل میڈیا پر حکومتی پابندی اور کرپشن کے خلاف نوجوانوں کی قیادت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے بھڑک اٹھے، جنہوں نے کٹھمنڈو کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پولیس کی فائرنگ اور جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔
نیپال میں شدید ہلچل مچی ہوئی ہے کیونکہ کٹھمنڈو میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ ہزاروں نوجوان کرپشن اور حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لگائی گئی وسیع پابندی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ کا گھیراؤ کیا اور وزیر اعظم کے پی شرما اولی کی حکومت پر آزادیِ اظہارِ رائے کو دبانے اور عوامی خدشات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔ کم از کم ایک شخص ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے جب پولیس نے پیر کو نیپال کی وفاقی پارلیمنٹ کے باہر مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ربڑ کی گولیاں چلائیں اور ہوا میں فائرنگ کی۔ زخمیوں میں تین صحافی بھی شامل ہیں۔ مظاہرے، جو نوجوانوں کی قیادت میں کرپشن اور سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف تھے، کٹھمنڈو میں شدت اختیار کر گئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس وقت فائرنگ کی جب مظاہرین نے پارلیمنٹ کے مرکزی دروازے کو توڑ کر احاطے پر دھاوا بول دیا اور داخلی دروازے کو آگ لگا دی۔ کشیدگی بڑھنے کے بعد حکومت نے بنشور، لینچور اور دیگر حساس علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا کیونکہ ابتدائی طور پر ’’پرامن‘‘ احتجاج پرتشدد جھڑپوں میں بدل گیا تھا۔ بے چینی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب سابق بادشاہ گیانندرا نے شاذ و نادر ہی ہونے والا عوامی خطاب کیا جس نے اُن حلقوں کو حوصلہ دیا جو بادشاہت کی بحالی اور حتیٰ کہ ہندو راشٹر کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ٹیرف کے بعد ہندوستانی آئی ٹی کمپنیاں بھی ٹرمپ کے نشانے پر!
مظاہروں کی وجہ کیا بنی؟
بحران اس وقت بھڑکا جب حکومت نے۲۶؍ بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، بشمول فیس بک، انسٹاگرام، وہاٹس ایپ، ایکس، لنکڈ اِن اور سگنل پر پابندی عائد کر دی۔ حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ کمپنیاں نیپال کے نئے سوشل میڈیا قوانین کے تحت رجسٹریشن کرانے میں ناکام رہیں۔ وزارتِ مواصلات و انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کہا کہ کمپنیوں کو سات دن کی مہلت دی گئی تھی لیکن ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد حکومت نے مکمل پابندی لگا دی۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں اور کاروباری حلقوں نے اس اقدام کو جمہوریت اور معاشی آزادی پر حملہ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ : فلسطین ایکشن کے حق میں پُرزور احتجاج،۹۰۰؍گرفتار
وزیر اعظم اولی کا ردعمل
وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے۲۶؍ بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی کے حکومتی فیصلے کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ اقدام قومی قانون اور خودمختاری کو برقرار رکھنے کیلئےہے، نہ کہ عوامی آوازوں کو دبانے کیلئے۔ کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یونائیٹڈ مارکسسٹ-لیننسٹ) کے کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے اولی نے کہا کہ حکومت سوشل میڈیا کے خلاف نہیں ہے، بلکہ ان کمپنیوں کے خلاف ہے جو نیپال میں منافع کما رہی ہیں مگر قوانین کی پابندی نہیں کر رہیں۔ انہوں نے قومی وقار اور آئینی احترام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی خودمختاری اُن ملازمتوں سے زیادہ اہم ہے جو اس بندش سے ختم ہو سکتی ہیں۔ ان کا سوال تھا:’’قانون کو نظر انداز کرنا اور خودمختاری کو نقصان پہنچانا کیسے قابلِ قبول ہو سکتا ہے؟‘‘