Updated: December 19, 2025, 5:03 PM IST
| Jerusalem
ایک فلسطینی اہلکار کے مطابق جمعرات کو ۳۸۰؍ سے زائد غیر قانونی اسرائیلی آبادکاروں نے یہودی تہوارہنوکا کی مناسبت سے مقبوضہ مشرقی یروشلم میں واقع مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں داخلہ کیا۔ یروشلم کے اسلامک انڈومنٹس ڈائریکٹوریٹ کے مطابق آبادکار پولیس کی نگرانی میں گروپوں کی صورت میں صبح اور دوپہر کے اوقات میں داخل ہوئے اور تلمودی رسومات ادا کیں۔
ایک فلسطینی اہلکار نے بتایا ہے کہ جمعرات کے روز ۳۸۰؍ سے زائد غیر قانونی اسرائیلی آبادکار مقبوضہ مشرقی یروشلم میں واقع مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوئے، جہاں انہوں نے یہودی تہوار ہنوکا کی مناسبت سے مذہبی سرگرمیاں انجام دیں۔ یہ داخلہ اسرائیلی پولیس کی مکمل نگرانی میں ہوا، جس پر فلسطینی عوام اور مذہبی اداروں کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یروشلم کے اسلامک انڈومنٹس ڈائریکٹوریٹ (اسلامی اوقاف) کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے انادولو کو بتایا کہ آبادکاروں نے صبح اور دوپہر کے اوقات میں مختلف گروپوں کی صورت میں مسجدِ اقصیٰ کے کمپلیکس پر دھاوا بولا۔ اہلکار کے مطابق ان افراد نے احاطے کے اندر تلمودی رسومات بھی ادا کیں، جو مسجدِ اقصیٰ کے موجودہ مذہبی اور تاریخی اسٹیٹس کے منافی سمجھی جاتی ہیں۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اتوار کو شروع ہونے والی ہنوکا کی آٹھ روزہ تعطیلات کے دوران مسجدِ اقصیٰ میں غیر قانونی اسرائیلی آبادکاروں کی دراندازی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق یہ اضافہ ایک منظم رجحان کی شکل اختیار کر چکا ہے، جو ہر سال مذہبی تہواروں کے دوران شدت اختیار کر لیتا ہے۔ اسلامی اوقاف کے مطابق ۲۰۰۳ء میں اسرائیلی پولیس نے یکطرفہ طور پر غیر قانونی اسرائیلی آبادکاروں کو مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت دینا شروع کی۔ اس فیصلے کے بعد سے، فلسطینیوں کی مخالفت اور اسلامی اوقاف کی جانب سے بارہا پابندی کے مطالبات کے باوجود، ایسے داخلوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ فلسطینی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات مسجدِ اقصیٰ کے تاریخی اور قانونی اسٹیٹس کو تبدیل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: یو این نے سابق عراقی صدر برہم صالح کو نیا ہائی کمشنر برائے مہاجرین منتخب کیا
مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کے لیے دنیا کی تیسری مقدس ترین عبادت گاہ ہے، جہاں ہر سال لاکھوں مسلمان عبادت کے لیے آتے ہیں۔ یہودی اس مقام کو ’’ٹیمپل ماؤنٹ‘‘ کہتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ قدیم زمانے میں یہاں دو یہودی مندروں کی موجودگی تھی۔ تاہم، موجودہ بین الاقوامی معاہدوں اور طے شدہ انتظامات کے تحت یہ مقام اسلامی اوقاف کے زیرِ انتظام ہے اور یہاں غیر مسلم عبادات پر پابندی عائد ہے۔
اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا، جہاں مسجدِ اقصیٰ واقع ہے۔ بعد ازاں ۱۹۸۰ء میں اسرائیل نے پورے یروشلم کو یکطرفہ طور پر اپنا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے الحاق کا اعلان کیا، لیکن یہ اقدام آج تک عالمی برادری کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ اور متعدد بین الاقوامی ادارے مشرقی یروشلم کو مقبوضہ علاقہ قرار دیتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں غیر قانونی آبادکاروں کی بڑھتی ہوئی موجودگی نے خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ فلسطینی عوام اور مذہبی رہنما اس صورتحال کو مذہبی آزادی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مقدس مقامات کے تحفظ اور موجودہ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔