Updated: September 29, 2025, 9:57 PM IST
| Jerusalem
فلسطین میں چرچ کے امور کی اعلیٰ صدارتی کمیٹی نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل کی نوآبادیاتی پالیسیوں، بمباری اور جبری نقل مکانی نے مقدس سرزمین میں عیسائیوں کی تاریخی موجودگی کو ختم کر دیا ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں گرجا گھروں اور عیسائی برادری کو منظم حملوں کا سامنا ہے۔
فلسطین کے ایک سرکاری ادارے نے کہا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین میں عیسائیوں کی موجودگی کو تباہ اور ختم کر دیا ہے اور غزہ میں جاری قتل عام کے دوران گرجا گھروں اور ان کے اداروں پر بمباری کی ہے۔ ۲۰۰۲ء کے مغربی کنارے پر حملے کے دوران چرچ آف دی نیٹی وٹی کے باہر اسرائیلی ٹینک کی تصویر کے ساتھ جاری ایک بیان میں، چرچ کے امور کی اعلیٰ صدارتی کمیٹی نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کی تقریر کا جواب دیا۔ نیتن یاہو نے دعویٰ کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل واحد عیسائی ریاست ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تقریباً خالی ہال میں جنگی مجرم اور آئی سی سی کے مفرور نیتن یاہو نے ایک بار پھر فلسطینی عیسائیوں کے بارے میں جھوٹ پھیلایا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’نسلی تطہیر، نسل پرستی اور نسل کشی پر مبنی اسرائیل کی نوآبادیاتی پالیسیوں نے فلسطین میں عیسائیوں کی موجودگی کو تباہ کر دیا ہے۔‘‘
کمیٹی نے یاد دلایا کہ ۱۹۴۸ء کے نکبہ کے وقت فلسطینی عیسائی تاریخی فلسطین کی آبادی کا ۵ء۱۲؍ فیصد تھے، جبکہ آج یہ شرح صرف ۲ء۱؍ فیصد رہ گئی ہے اور ۱۹۶۷ء میں زیر قبضہ علاقوں میں صرف ایک فیصد۔ یہ کمی براہ راست ’’نسلی تطہیر، جبری نقل مکانی، زمینوں پر قبضے اور منظم جبر‘‘ کا نتیجہ قرار دی گئی۔ کمیٹی نے مثالیں پیش کیں، جن میں نکبہ کے دوران ۹۰؍ ہزار عیسائیوں کی نقل مکانی، ۳۰؍ کے قریب گرجا گھروں کی زبردستی بندش، ۱۹۴۸ء میں یروشلم میں بمباری میں ۲۵؍ عیسائیوں کی ہلاکت اور ایلابون گاؤں میں ۱۲؍ عیسائیوں کی پھانسی شامل ہیں۔ مزید کہا گیا کہ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری غزہ جنگ میں اسرائیل نے سینٹ پورفیریس چرچ، ہولی فیملی چرچ، العہلی عرب اسپتال اور دیگر مسیحی اداروں کو نشانہ بنایا۔ غزہ میں اب تک ۴۴؍ فلسطینی عیسائی ہلاک ہو چکے ہیں، براہ راست بمباری یا انسانی بحران کی وجہ سے۔
یہ بھی پڑھئے:شہرومضافات میں پھرموسلادھاربارش، سڑکیں زیرآب
مغربی کنارے میں طیبہ جیسے عیسائی گاؤں پر بھی آباد کار گروپوں کے بار بار حملوں کی اطلاع ملی۔ بیان میں کہا گیا کہ ’’فلسطین بھر میں گرجا گھر ایک غیر معمولی حملے کا سامنا کر رہے ہیں جس سے ان کی تاریخی موجودگی اور مقدس سرزمین میں جاری مشن خطرے میں ہے۔‘‘ اسرائیل پر یروشلم میں آرتھوڈوکس پیٹریارکیٹ اکاؤنٹس کو منجمد کرنے، چرچ کی جائیدادوں پر غیر قانونی ٹیکس عائد کرنے اور آرمینیائی چرچ کی زمین پر قبضے کا الزام بھی لگایا گیا۔ کمیٹی نے کہا کہ بیت لحم میں غیر قانونی بستیاں، فوجی چوکیاں اور علاحدگی کی دیوار شہر کو گھیرے میں لے چکی ہیں اور عیسائی زمینوں پر قبضے جاری ہیں۔ بیان کے اختتام میں کہا گیا ہے کہ ’’اسرائیل نے مقدس سرزمین میں عیسائیوں کی موجودگی کو ختم کر دیا ہے۔ نیتن یاہو کے جھوٹ نہ تاریخ بدل سکتے ہیں نہ ہی فلسطینی عیسائی و مسلمان زندگی کی حقیقت کو مٹا سکتے ہیں۔‘‘ کمیٹی نے زور دیا کہ ’’فلسطین میں عیسائیوں کی موجودگی کا دفاع ایک عالمی انسانی، اخلاقی اور قانونی مقصد ہے۔‘‘