Inquilab Logo Happiest Places to Work

فلسطینیوں کو’’فلسطینی ہونے کیلئے قتل‘‘ کیا جارہا ہے: یو این میں فلسطینی سفیر

Updated: July 17, 2025, 10:09 PM IST | New York

گزشتہ دن اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر مجید بامیہ نے جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اب اسرائیلی جارحیت پر خاموش ہوچکی ہے۔ یہ تشویشناک ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ ’’رشین رولیٹ‘‘ کھیلا جارہا ہے۔ اگلے دن وہ زندہ رہیں گے یا نہیں۔ انہیں نہیں معلوم۔

Majed Bamieh speaking at the United Nations. Photo: X
مجید بامیہ اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے۔ تصویر: ایکس

اقوام متحدہ میں فلسطینی ایلچی مجید بامیہ نے گزشتہ دن خبردار کیا کہ غزہ پٹی میں فلسطینیوں کو روزانہ زندگی اور موت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے، اور یہ انتخاب بھی ان کے بس میں نہیں ہے۔ اس صورتحال کو انہوں نے ’’رشین رولیٹ‘‘ قرار دیا۔ خیال رہے کہ رشین رولیٹ ایک قسم کا روسی گیم ہے جس میں بندوق کے ۶؍ چیمبر میں سے صرف ایک میں گولی ڈالی جاتی ہے، اور شوٹ کیا جاتا ہے۔ اس میں جینے کا امکان ۵؍ اور مرنے کا ایک ہوتا ہے۔ ہر بار ٹریگر دبانے پر زندگی ختم ہونے کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔ بامیہ نے غزہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس کے دوران کہا کہ ’’۲۰؍ لاکھ سے زیادہ فلسطینی جن میں سے نصف بچے ہیں، ۶۵۰؍  سے زائد دنوں سے یہ جانے بغیر بیدار ہورہے ہیں کہ وہ یہ دن گزار سکیں گے یا نہیں اور یہ جانے بغیر کہ وہ صبح اٹھیں گے یا نہیں؟ ہر دن اُن کیلئے سانحات کا ٹوکرا لے کر آتا ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمیں اس بات کا زیادہ خوف ہے کہ دنیا ان چیزوں کی عادی ہوتی جارہی ہے، اور اسے اب فرق نہیں پڑ رہا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: آئی سی سی نے نیتن یاہو، گیلنٹ کے گرفتاری وارنٹ منسوخی کی اسرائیلی درخواست رد کی

اپنی جذباتی تقریر میں بامیہ نے کہا کہ ’’غزہ میں تمام راستے موت کی طرف لے جاتے ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کو موت اور نقل مکانی کے درمیان انتخاب کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مگر درحقیقت وہ چاہتا ہے کہ تمام فلسطینی راستے ہی سے ’’ہٹ‘‘ جائیں۔ وہ چاہتا ہے کہ غزہ اسرائیلیوں کیلئے صاف ہوجائے۔ پہلے دن سے اس کا مقصد یہی ہے۔‘‘ بامیہ نے زور دے کر کہا کہ اسرائیل یہ کہنا چاہتا ہے کہ ’’ہم (فلسطینیوں) نے وہاں سے نکلنے کا انتخاب کیا، ہم نے اس طریقے سے جینے کا انتخاب کیا، ہم نے مظلوم ہونے کا انتخاب کیا۔ یہ ہمیشہ ہماری غلطی ہے۔ اسرائیل یہ کہہ رہا ہے کہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے ہم حقدار اور ذمہ دار ہیں۔ اور دنیا اسرائیل کی بات خاموشی سے سن رہی ہے۔‘‘
غزہ میں امداد کے بحران پر بامیہ نے کہا کہ ’’خطے میں بڑے پیمانے پر امداد داخل ہونی چاہئے۔ یہ وقت بات چیت اور سیاسی بحث کرنے کا نہیں ہے۔‘‘ اپنی تقریر میں انہوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ روزانہ ۹۰؍ سے ۱۳۰؍ فلسطینیوں کو صرف ’’فلسطینی ہونے کی وجہ سے‘‘ قتل کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد سے اسرائیل نے ہر دن ’’بچوں سے بھرے ایک کلاس روم‘‘ کا قتل کیا ہے: یو این

انہوں نے اسرائیل کے اقدامات کو شہریوں کے خلاف جرائم قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ کسی گروہ یا حکومت کی کارروائیوں کی بنیاد پر کسی بے گناہ کو سزا یا اس کا قتل نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہ انسانیت سے گری حرکت ہے۔ بامیہ نے اس دوران بین الاقوامی قانون کی پامالی اور مجرموں کا احتساب کرنے میں ناکامی کی بھی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ کون سی دنیا ہے جہاں بین الاقوامی قانون کا دفاع کرنے والوں کو مجرم سمجھا جاتا ہے اور مجرموں سے کبھی حساب نہیں لیا جا تا؟ یہ کون سی دنیا ہے جہاں اسرائیل ہی پراسیکیوٹر، جج اور جلاد ہے؟ کیا وہ چاہتا ہے کہ اس دنیا میں اپنے جرائم کی وہ خود تفتیش کرے؟‘‘ وسیع تر مضمرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے، انہوں نے کونسل پر زور دیا کہ ’’غزہ کو بچائیں، ورنہ ہم سب برباد ہو جائیں گے۔ غزہ کو بچائیں، تاکہ غزہ ہم سب کو بچا لے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK