انالینا بیئربک ستمبر ۲۰۲۵ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر کا عہدہ سنبھالنے والی ہیں جو موجودہ فلیمون یانگ کی جگہ لیں گی ،صدارت کی مدت ایک سال ہوگی۔
EPAPER
Updated: June 05, 2025, 12:11 PM IST | Agency | New York
انالینا بیئربک ستمبر ۲۰۲۵ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر کا عہدہ سنبھالنے والی ہیں جو موجودہ فلیمون یانگ کی جگہ لیں گی ،صدارت کی مدت ایک سال ہوگی۔
متنازع سابق جرمن وزیر خارجہ انا لینا بیئربک جو اپنے صہیونی موقف اور فلسطین میں اسرائیل کے اقدامات کی بھرپور حمایت کے لیے جانی جاتی ہیں ، گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے۸۰؍ویں اجلاس کی صدر منتخب ہوئیں ، جو اقوام متحدہ کے لیے نمائندہ ادارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ روس کی درخواست پر خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہونے والے انتخاب میں بیئربک کو ۱۶۷؍اورہیلگا شمڈ کو محض۷؍ ووٹ ملے، جبکہ۱۴؍ ممالک نے ووٹنگ سے پرہیز کیا۔ انالینا بیئربک ستمبر ۲۰۲۵ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر کا عہدہ سنبھالنے والی ہیں جو موجودہ فلیمون یانگ کی جگہ لیں گی، جن کی صدارت کی مدت ایک سال ہوگی۔ صدارت عالمی ادارے کے پانچ علاقائی گروپوں کے درمیان گھومتی ہے۔ بیئر بک کی تقرری ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب مغربی یوروپ پر مشتمل علاقائی گروپ سربراہی میں آنے کے لیے اپنی باری لے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مغربی یورپ کی پہلی اوریو این جی اے کی قیادت کرنے والی مجموعی طور پر پانچویں خاتون بن گئی ہیں ۔ جرمنی کے وزیر خارجہ کے طور پر بیئر بک نے صہیونی نواز پالیسی پر عمل کیا اور فلسطین میں اسرائیل کی جاری نسل کشی کی حمایت جاری رکھی۔ اکتوبر۲۰۲۴ء میں اس نے غزہ پٹی میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے یوروپی یونین کے وزراء کے اعلامیہ کو روک دیا۔
یہ بھی پڑھئے:امدادی مراکز پر پھر بمباری، ۱۰۰؍فلسطینی شہید، ۴۴۰؍ زخمی
بہت سے لوگوں نے جنرل اسمبلی کے رہنما کے طور پر بیئر بک کے انتخاب کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ کریگ ایکس موکی نامی صارف نے لکھا ’’اقوام متحدہ جرمن جنگی مجرمین کی مخالفت میں پیدا ہوا تھا۔ آج اس نے ایک جرمن جنگی مجرم کو اس کے تیزی سے خاتمے کی نگرانی کے لیے منتخب کیا ہے۔ ۸۰؍ سال بعد ریخ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر کے طور پر انالینا بیئربک سے اس کا بدلہ لیا ہے، ایک نسل کشی کے درمیان جو اس کو پرجوش طریقے سے فروغ دیا گیا ہے۔‘‘ یو این جی اے کو عام طور پر ایک ایسے ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو جوابدہی کو برقرار رکھنے اور پیچیدہ بحرانوں پر بین الاقوامی توجہ مرکوز کرنے کے لیے ضروری ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی جانب سے ویٹو کیے جانے والے کسی بھی فیصلے پر ضروری طور پر جنرل اسمبلی میں ترجیحی بنیادوں پر بحث ہوتی ہے۔
چونکہ امریکہ غزہ کے حق میں سلامتی کونسل کے تمام فیصلوں کو ویٹو کرتا ہے، اس لیے یو این جی اے فلسطینی عوام کی نسل کشی سے متعلق معاملات پر بحث کرنے کے لیے ایک اہم ادارہ بن جاتا ہے، جو کہ آنے والے صدر کی پالیسی کی وجہ سے اب خطرے میں ہے۔ فلسطینی نسل کشی سے متعلق ان کی پالیسی پر تنقید کے علاوہ، ان پر اقوام متحدہ میں روسی نمائندوں کی طرف سے’روس مخالف‘ پالیسی کو فروغ دینے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔