مہدوی کو ۱۴ اپریل کو شہریت کے انٹرویو کے دوران گرفتار کرلیا گیا تھا۔ دو ہفتوں بعد ایک جج نے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ مہدوی پر کوئی جرم عائد نہیں کیا گیا لیکن حکام نے دلیل دی کہ ان کی سرگرمیاں امریکی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
EPAPER
Updated: May 20, 2025, 8:09 PM IST | Inquilab News Network | New York
مہدوی کو ۱۴ اپریل کو شہریت کے انٹرویو کے دوران گرفتار کرلیا گیا تھا۔ دو ہفتوں بعد ایک جج نے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ مہدوی پر کوئی جرم عائد نہیں کیا گیا لیکن حکام نے دلیل دی کہ ان کی سرگرمیاں امریکی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
فلسطین حامی کارکن محسن مہدوی نے امریکی ایجنسی، امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کی حراست سے رہائی کے صرف تین ہفتوں بعد پیر کو نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، جہاں ان کے ہم جماعتوں نے ان کا شاندار خیرمقدم کیا۔ ۳۴ سالہ مہدوی نے فلسطینی شناخت کی علامت کوفیہ پہن کر فخر کے ساتھ اسٹیج پر قدم رکھا اور گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ وہ بعد میں کیمپس کے باہر ایک دعائیہ تقریب میں شریک ہوئے، جہاں انہوں نے اپنے ہم جماعت محمود خلیل کی تصویر اٹھائی، جو اب بھی وفاقی حراست میں ہیں۔ مہدوی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، "اس موقع پر میرے جذبات ملے جلے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے مجھے جیل میں ڈال کر اس لمحے تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کی۔"
یاد رہے کہ مہدوی، جو امریکہ کے قانونی رہائشی ہیں، کو ۱۴ اپریل کو ورمونٹ میں شہریت کے انٹرویو کے دوران گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ان کی حراست فلسطین حامی کارکنوں کے خلاف امریکی صدر ٹرمپ کی قیادت میں وفاقی انتظامیہ کے وسیع تر کریک ڈاؤن کا حصہ تھی۔ دو ہفتوں بعد ایک جج نے ان کی رہائی کا حکم دیا اور انتظامیہ کے اقدامات کا موازنہ میک کارتھی دور کے ظلم و ستم سے کیا۔ مہدوی پر کوئی جرم عائد نہیں کیا گیا لیکن حکام نے دلیل دی کہ ان کی سرگرمیاں امریکی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: ۲۲؍ ممالک کا غزہ میں امداد کی مکمل بحالی کا مطالبہ
مہدوی نے کولمبیا یونیورسٹی کے اسکول آف جنرل اسٹڈیز سے فلسفہ سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ تاہم، مہدوی نے کولمبیا یونیورسٹی کے رویہ پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ یونیورسٹی نے ان کی یا ان کے ہم جماعت خلیل کی گرفتاری کے وقت ان کی حفاظت یا حمایت نہیں کی۔ انہوں نے سیاسی دباؤ کے سامنے جھکنے کیلئے یونیورسٹی پر تنقید کی جس نے ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبہ پر مشرق وسطیٰ کے مطالعاتی شعبے میں تبدیلیاں کیں۔ مہدوی نے حراست کے دوران اپنے وکیل کی مدد کی درخواست کا جواب نہ دینے پر بھی یونیورسٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
مغربی کنارے کے ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہونے والے مہدوی ۲۰۱۴ء میں امریکہ منتقل ہوئے۔ کولمبیا میں، انہوں نے مشترکہ طور پر فلسطینی اسٹوڈنٹ یونین کی بنیاد رکھی، ایک بدھسٹ گروپ کی قیادت کی اور یونیورسٹی کیمپس میں اسرائیل کے ذریعے غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کو منظم کیا۔ ان کے ہم جماعت خلیل کو اس ہفتہ بین الاقوامی مطالعہ میں ماسٹر کی ڈگری ملنی تھی لیکن وہ اب بھی لوزیانا میں زیر حراست ہیں اور رہائی کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔
اگرچہ مہدوی کو کولمبیا میں امن و تنازع حل کے مطالعہ کیلئے ماسٹرز پروگرام میں داخلہ مل گیا لیکن انہوں نے مالی امداد سے انکار کے بعد اپنے اختیارات پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیلنجز کے باوجود، مہدوی نے کہا کہ وہ انصاف اور فلسطینی مقصد کیلئے لڑتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا، "جب میں نے اسٹیج پر قدم رکھا، تو تالیاں صرف میرے لئے نہیں تھیں، بلکہ انصاف، امن، اور انسانیت کیلئے تھیں۔ کوئی بھی انتظامیہ، چاہے وہ ٹرمپ کے تحت ہو یا کولمبیا کا ہو، انہیں روک نہیں سکتا۔"