Inquilab Logo Happiest Places to Work

پنجاب پولیس نے جارج فلائیڈ واقعہ کی اے آئی تصویر جاری کی، سوشل میڈیا پر تنقید

Updated: July 21, 2025, 10:03 PM IST | Chandigarh

پنجاب پولیس نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اے آئی سے بنی ایک متنازع تصویر پوسٹ کی جو جارج فلائیڈ کے واقعے سے مشابہ تھی جسے بعد میں ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ واقعے پر شدید عوامی ردعمل آیا جبکہ پولیس نے ممکنہ ہیکنگ کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

Punjab Police shared this photo on its X account. Photo: X.
پنجاب پولیس اپنے ایکس اکاؤنٹ پر یہ تصویر شیئر کی تھی۔ تصویر: ایکس۔

پنجاب پولیس نے اے آئی سے تیار کردہ ایک تصویر اپنے سرکاری’ایکس‘‘اکاؤنٹ پر پوسٹ کرکے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا۔ اس تصویر میں ایک ہندوستانی پولیس اہلکار، جس کا چہرہ ہندوستانی ترنگے سے ڈھکا ہوا ہے، ایک ایسے شخص کو گھٹنوں سے دبائے ہوئے دکھایا گیا ہے جو پاکستانی جھنڈے میں لپٹا ہوا ہے۔ تصویر کے ساتھ یہ پیغام دیا گیا:’’اگر آپ کے پاس یہ جھنڈا پایا گیا، تو نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہیں۔ ‘‘یہ تصویر امریکہ میں مئی۲۰۲۰ء میں پیش آنے والےجارج فلائیڈ کے قتل سے کافی مشابہت رکھتی تھی۔ پیر کی صبح ایک صارف نے بتایا کہ اسے ایکس کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں کہا گیا کہ ’’شفافیت کے مفاد میں ہم آپ کو اطلاع دے رہے ہیں کہ ایکس کو پنجاب پولیس کی جانب سے آپ کے ایکس اکاؤنٹ @Joydas کے خلاف ایک شکایت موصول ہوئی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آپ کا مواد ہندوستان کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ‘‘
یہ نوٹیفکیشن اُس وقت آیا جب مذکورہ صارف نے پنجاب پولیس کی اس پوسٹ کو عوامی طور پر تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کے ارادے پر سوال اٹھایا۔ اصل پوسٹ پنجاب پولیس کے ایکس اکاؤنٹ پر۱۷؍ اور۱۸؍ جولائی کی درمیانی شب کو دیکھی گئی۔ اس میں جارج فلائیڈ کے قتل سے مشابہ اے آئی جنریٹڈتصویر کا استعمال کیا گیا جسے کئی صارفین نے نہایت بد ذوق اور حساسیت سے عاری قرار دیا۔ 

تنقید اور ردعمل
پوسٹ کو سب سے پہلے نشانہ بنانے والے صارف نے ایکس پر لکھا:’’یہ ہندوستان کی پنجاب پولیس کا اصلی ٹویٹ ہے۔ انہوں نے وہ تصویر چنی جو امریکی تاریخ میں بدترین نسل پرستی اور پولیس کے ظلم کی نمائندہ بنی تھی – تاکہ ایک سیاسی نکتہ حاصل کیا جا سکے۔ یہ تصویر دنیا بھر میں پولیس کی بربریت کی علامت بنی لیکن پنجاب پولیس نے یہی تصویر اپنی نمائندگی کیلئے منتخب کی؟‘‘
ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے براہ راست پنجاب پولیس کو مخاطب کیا:’’پنجاب پولیس انڈیا، – اگرچہ آپ نے پوسٹ ڈیلیٹ کر دی لیکن ہماری عقل کی توہین نہ کریں کہ یہ تصویر جعلی ہے (کئی اسکرین شاٹس موجود ہیں اور آپ نے ریپلائیز بھی ڈیلیٹ نہیں کیں ) یا یہ نہ کہیں کہ اکاؤنٹ ہیک ہو گیا یا کسی انٹرن نے یہ کیا (تصویر بنائی گئی، منظور کی گئی اور پھر پوسٹ کی گئی)۔ ‘‘سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے بھی اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے’’ناقابل قبول‘‘ قرار دیا اور پنجاب پولیس و ڈی جی پی کو ٹیگ کیا۔ 

پنجاب پولیس کا مؤقف: ممکنہ ہیکنگ
اسی شام پنجاب پولیس نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر ایک بیان جاری کیا:’’یہ ہمارے علم میں آیا ہے کہ ایک متنازع پوسٹ مختصر وقت کیلئے پنجاب پولیس کے سرکاری ایکس اکاؤنٹ پر موجود تھی جسے بعد ازاں حذف کر دیا گیا۔ ابتدائی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ پوسٹ میں استعمال کی گئی تصویر اے آئی جنریٹڈ تھی۔ ہم اس بات کی بھی تفتیش کر رہے ہیں کہ آیا یہ پوسٹ کسی غیر مجاز رسائی کا نتیجہ تھی۔ ہماری تکنیکی ٹیمیں اس واقعے کی مکمل چھان بین کر رہی ہیں جس میں سائبر سیکوریٹی کی ممکنہ خلاف ورزی بھی شامل ہے۔ ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ غیر مصدقہ معلومات کو پھیلانے سے گریز کریں اور صرف ہمارے تصدیق شدہ سرکاری ذرائع پر اعتماد کریں۔ آپ کا اعتماد اور سلامتی ہماری اولین ترجیح ہے۔ پنجاب پولیس اس قسم کے مواد کی کسی بھی شکل میں تائید نہیں کرتی۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: یوپی آئی لین دین کو تیزکرنے کیلئےاین پی سی آئی کا نئےقوانین کے نفاذ کا منصوبہ

جارج فلائیڈ کی تصویر کے اثرات
جارج فلائیڈ، ۴۶؍ سالہ سیاہ فام امریکی شہری، ۲۵؍ مئی۲۰۲۰ء کو منی ایپولس میں اُس وقت مارا گیا جب پولیس افسر ڈیریک شاوِن نے اس کی گردن پر ۹؍ منٹ سے زائد گھٹنا رکھا۔ یہ واقعہ نسلی امتیاز اور پولیس تشدد کی عالمی علامت بن گیا جس نے ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ (Black Lives Matter) تحریک کو جنم دیا۔ اب یہ جانچ کی جا رہی ہے کہ پنجاب پولیس کی متنازع پوسٹ ہیکنگ کا نتیجہ تھی یا کسی داخلی فیصلے کا۔ دریں اثنا، جس ایکس صارف نے اس معاملے کو اٹھایا تھا اسے بھی قانونی نوٹس موصول ہوا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK