وینس کے مطابق، ٹرمپ، پوتن اور زیلنسکی کے درمیان سہ فریقی ملاقات کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس سے قبل، ٹرمپ اور پوتن ۱۵ آگست کو الاسکا میں یوکرین جنگ پر گفتگو کیلئے ملاقات کریں گے۔
EPAPER
Updated: August 11, 2025, 4:28 PM IST | Washington
وینس کے مطابق، ٹرمپ، پوتن اور زیلنسکی کے درمیان سہ فریقی ملاقات کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس سے قبل، ٹرمپ اور پوتن ۱۵ آگست کو الاسکا میں یوکرین جنگ پر گفتگو کیلئے ملاقات کریں گے۔
امریکی انتظامیہ، صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کے درمیان براہ راست مذاکرات کیلئے زور دے رہی ہے لیکن امریکی نائب صدر کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان کسی بھی امن معاہدے سے دونوں فریق پوری طرح مطمئن نہیں ہوگے۔ اتوار کو فاکس نیوز پر گفتگو کے دوران جے ڈی وینس نے کہا کہ ”آخر میں، شاید دونوں، روس اور یوکرین، اس معاہدے سے ناخوش ہوگے۔“ انہوں نے زور دیا کہ مقصد ان مذاکرات کا مقصد “کسی تصفیے تک پہنچنا ہے... تاکہ قتل و غارت رک جائے۔”
وینس نے مزید کہا کہ ایک بڑی سفارتی رکاوٹ پہلے ہی دور ہو چکی ہے اور پوتن، یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی سے ملنے کیلئے راضی ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”سب سے اہم رکاوٹوں میں سے ایک یہ تھی کہ پوتن نے کہا تھا کہ وہ کبھی زیلنسکی کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ لیکن صدر اب اس کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔“ وینس کے مطابق، ٹرمپ، پوتن اور زیلنسکی کے درمیان سہ فریقی ملاقات کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس سے قبل، ٹرمپ اور پوتن ۱۵ آگست کو الاسکا میں یوکرین جنگ پر گفتگو کیلئے ملاقات کریں گے۔
یہ بھی پڑھئے: ۱۵؍ اگست کو الاسکا میں ڈونالڈ ٹرمپ کی پوتن سے ملاقات
جب وینس سے پوچھا گیا کہ کیا پوتن اور زیلنسکی کی ٹرمپ کے ساتھ گفتگو سے پہلے ملاقات ہونی چاہئے، تو وینس نے کہا کہ یہ “فائدہ مند” نہیں ہوگا۔ انہوں نے دلیل دی کہ دونوں لیڈران کو ساتھ لانے میں امریکی صدر کو مرکزی کردار ادا کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ پوتن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ سہ فریقی ملاقات کیلئے تیار ہیں لیکن انہوں نے زور دیا کہ پہلے “ضروری شرائط” کو پورا کیا جانا چاہئے۔ این بی سی نیوز نے رپورٹ کیا کہ وائٹ ہاؤس زیلنسکی کو بھی مذاکرات کیلئے الاسکا مدعو کر سکتا ہے۔
امریکہ، چین پر پابندیوں کے حوالے سے محتاط
امریکہ نے حال ہی میں روس سے تیل کی خریداری جاری رکھنے پر ہندوستان کے خلاف پابندیاں عائد کی ہیں لیکن وہ چین کے خلاف ایسے اقدامات کرنے کے حوالے سے محتاط رویہ اپنا رہا ہے۔ واضح رہے کہ چین بھی سستے روسی تیل کا بڑا خریدار ہے۔ جب وینس سے پوچھا گیا کہ کیا ٹرمپ چین کے خلاف بھی وہی پالیسی اپنائیں گے، تو وینس نے بتایا کہ ”صدر نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں سوچ رہے ہیں، لیکن انہوں نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔“ وینس نے بتایا کہ امریکہ-چین تعلقات “زیادہ پیچیدہ” ہیں کیونکہ ان میں روس-یوکرین جنگ سے غیر متعلق کئی مسائل شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کے سابق مشیر نے ہندوستان پر۵۰؍ فیصد ٹیرف کو عظیم غلطی قرار دیا
واضح رہے کہ جولائی میں، وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا تھا کہ امریکہ روسی تیل کی درآمدات پر چین کے موقف پر اعتراض نہیں کرے گا۔ انہوں نے اس معاملے پر بیجنگ کے مضبوط موقف کو تسلیم کیا۔ گزشتہ ماہ، ٹرمپ نے ہندوستان پر ابتدائی طور پر ۲۵ فیصد ٹیرف لگانے کے بعد اسے بڑھا کر ۵۰ فیصد کر دیا تھا اور نئی دہلی پر رعایت پر ملنے والے روسی تیل سے منافع کمانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جو ممالک یوکرین کے تنازع کے حل کے بغیر روس کے ساتھ تجارت جاری رکھیں گے انہیں ۱۰۰ تک کے ثانوی ٹیرف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔