سعودی عرب نے یمن پر محدود حملوں کے بعد قومی سلامتی کو ’’ ریڈ لائن ‘‘ قرار دیا، یمن کی مکلا بندرگاہ پر حملے کے بعد سعودی عرب نے الزام عائد کیا کہ بیرونی حمایت یافتہ بحری جہاز جنوبی علاحدگی پسندوں کو ہتھیار پہنچا رہے تھے۔
EPAPER
Updated: December 30, 2025, 10:09 PM IST | Riyadh
سعودی عرب نے یمن پر محدود حملوں کے بعد قومی سلامتی کو ’’ ریڈ لائن ‘‘ قرار دیا، یمن کی مکلا بندرگاہ پر حملے کے بعد سعودی عرب نے الزام عائد کیا کہ بیرونی حمایت یافتہ بحری جہاز جنوبی علاحدگی پسندوں کو ہتھیار پہنچا رہے تھے۔
سعودی عرب نے کہا ہے کہ اس کی قومی سلامتی ایک ’ریڈ لائن‘ ہے جس کا وہ دفاع کرے گا۔ یہ بیان اس اتحاد کے حملے کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا جس کی قیادت سعودی عرب کر رہا ہے اور جس نے یمن میں گاڑیوں اور کارگو کو نشانہ بنایا، جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ایک بیرونی فوج کی جانب سے ملک کے جنوبی حصے میں علاحدگی پسندوں کو فراہم کی گئی تھیں۔یمن کی مکلا بندرگاہ پر اتحاد کی ’محدود فوجی کارروائی‘ سے کچھ دن قبل ہی اس نے علاحدگی پسند سدرن ٹرانزیشنل کونسل (STC) کو حضرموت صوبے میں فوجی کارروائی کرنے سے خبردار کیا تھا۔
یمن کی سعودی حمایت یافتہ صدارتی کونسل نے متحدہ عرب امارات پر الزام عائد کیا ہے جس نے علاحدگی پسندوں کو وہ امداد فراہم کی تھی جو اتحاد کے حملے کا نشانہ بنی۔سعودی وزارت خارجہ نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ وہ امید کرتی ہے کہ متحدہ عرب امارات خلیجی عرب ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی نے کہا کہ دو بحری جہاز سنیچر اور اتوار کو مکلا بندرگاہ پر بغیر اتحاد کے اجازت کے داخل ہوئے، انہوں نے اپنے ٹریکنگ سسٹمز کو غیر فعال کر دیا، اور بڑی مقدار میں ہتھیاروں اور جنگی گاڑیاں یس ٹی سی کوفراہم کیں۔
یہ بھی پڑھئے: پوتن کی رہائش گاہ پر حملے کا دعویٰ، ٹرمپ کا اظہارِ تشویش، یوکرین کی تردید
دریں اثناء سعودی حمایت یافتہ یمن کی صدارتی کونسل کے سربراہ رشاد العلیمی نے منگل کو فضائی حملے کے بعد کہا کہ متحدہ عرب امارات کی تمام افواج کو ۲۴؍گھنٹوں کے اندر یمن چھوڑنا ہوگا۔ایک ٹیلی ویژن خطاب میں، العلیمی نے اس اقدام کوناگزیر قرار دیا اور سعودی عرب اور اتحاد کی حمایت پر اپنی تعریف دہرائی۔ تاہم یمنی لیڈر نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدہ بھی منسوخ کر دیا،۷۲؍ گھنٹے کی فضائی، زمینی اور بحری ناکہ بندی کا اعلان کیا، اور۹۰؍ دن کے لیے ہنگامی حالت کا اعلان کیا۔بعد ازاں سرکاری سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے خبر دی کہ ان ہتھیاروں سے پیدا ہونے والے خطرے اور شدت کو دیکھتے ہوئے، اتحاد کی فضائی افواج نے آج صبح ایک محدود فوجی کارروائی کی جس میں ان ہتھیاروں اور جنگی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا جو دو بحری جہازوں سے المکلا بندرگاہ پر اتارے گئے تھے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: پوتن کی رہائش گاہ پر حملے کا دعویٰ، ٹرمپ کا اظہارِ تشویش، یوکرین کی تردید
تاہم دو ذرائع نے رائٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا کہ حملے میں خاص طور پر اس گودام کو نشانہ بنایا گیا جہاں یہ ساز و سامان اتارا گیا تھا۔ اتحاد نے ایک بیان میں کہا کہ اس کارروائی میں کوئی جانی نقصان یا ضمنی نقصان نہیں ہوا اور اس بات پر زور دیا کہ آپریشن بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے مطابق کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ یہ حملہ اس ماہ کے شروع میںایس ٹی سی کی جانب سے اتحاد کی حمایت یافتہ یمنی فوجی دستوں کے خلاف کارروائی کے بعد بڑھے ہوئے تناؤ کے درمیان سامنے آیا ہے۔سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان آل سعود نے ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر لکھا کہ’’ایس ٹی سی فوجیوں کو دو صوبائی علاقے کو پرامن طور پر حکومت کے حوالے کرنا چاہیے۔ اسی دوران، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سفارتکاری کا مطالبہ کیا، جس کا مقصد ایک پائیدار حل تک پہنچنا ہے۔
یہ یاد رہے کہ ایس ٹی سی ابتدائی طور پر سعودی اتحاد کا حصہ تھی جس نے۲۰۱۵ء میں یمن میں حوثیوں کے خلاف مداخلت کی تھی، لیکن بعد میں اس گروپ نے جنوبی یمن میں خود حکمرانی کی کوشش کی۔ ۲۰۲۲ء سے،ایس ٹی سی جسے پہلے متحدہ عرب امارات کی مدد حاصلتھی ، نے ایک سعودی حمایت یافتہ طاقت کے اشتراک سے حوثی علاقوں سے باہر جنوبی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔تاہم، حالیہ ہفتوں میں یہ ملک کے بڑے حصوں میں پھیل گئی ہے، دیگر حکومتی افواج اور ان کے اتحادیوں کو بے دخل کر دیا ہے۔