یہاں کے تعلقہ اکل کوا کے کیل کھاڈی علاقے میں ندی کے اوپر پل نہ ہونے کے سبب قریب کے ڈونگرپاڑہ کے طلبہ ہر دن رسی باندھ کر تناور درخت سے بنائے گئے پل پر اپنا توازن سنبھالتے ہوئے خطرناک طریقے سے ندی پار کرکے دوسری جانب واقع ضلع پریشد اسکول جانے پر مجبور ہیں۔
اسکولی بچےروزانہ اس طرح جان جوکھم میں ڈال کر ندی پارکرتے ہیں۔ تصویر: آئی این این
یہاں کے تعلقہ اکل کوا کے کیل کھاڈی علاقے میں ندی کے اوپر پل نہ ہونے کے سبب قریب کے ڈونگرپاڑہ کے طلبہ ہر دن رسی باندھ کر تناور درخت سے بنائے گئے پل پر اپنا توازن سنبھالتے ہوئے خطرناک طریقے سے ندی پار کرکے دوسری جانب واقع ضلع پریشد اسکول جانے پر مجبور ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک یہاں راستہ نہیں بنایا گیا ہے۔ دو برس قبل گاؤں کی سطح پر راستہ اور پل کے معاملے میں پیش رفت ہوئی تھی لیکن انتظامیہ کی جانب سے اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ ایسے حالات میں ہم اپنے مسائل کس زبان میں بتائیں۔ یہ سوال اسکولی بچوں نے حکومت سے کیاہے۔
۴۰۰؍ لوگ روزانہ ندی پار کرنے کی تکلیف سے گزرتے ہیں، ۲۰؍ طلبہ کی جان ہرروزخطرے میں رہتی ہے، جس کیل کھاڈی ندی کو پار کیا جاتا ہے ، وہ ۲۰؍ فٹ گہری ہے اوراس کے اوپر سے گزرنے کیلئے تناوردرخت بچھاکر جو راستہ بنایا گیا ہے، وہ ۲۴؍ فٹ طویل ہے۔
لوک مت کی خبر کے مطابق اس گاؤں کے شنکر پاڈوی نامی شخص نے بتایا کہ ’’ہمیں پاڑہ تک جانے کیلئے اچھا راستہ نہیں ہے۔ دوسری طرف کیلی پاڑہ جانے کیلئے ندی پر پل نہیں ہے۔ ایسے میں زندہ رہنے کیلئے روزانہ ورزش کرنی ہوتی ہے۔ راستہ اور پل کا ۲؍ برس سے انتظامیہ سے مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن اب تک کوئی کارروائی نہیں ہے۔‘‘
طلبہ اورگاؤں والوں کی پریشانی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کیل کھاڈی گاؤں میں آنے کیلئے انہیں آدھی پہاڑی اترکرندی کنارے آنا پڑتا ہے جس کے بعد انہیں اپنا جان جوکھم میں ڈال کر ندی پار کرنی پڑتی ہے۔ حکومت کی جانب سے عدم توجہی پر ان میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔