اکولہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ’’ ہمیں بی جے پی کی بی ٹیم کہنے والے اب کہاں ہیں؟‘‘
EPAPER
Updated: February 20, 2024, 7:23 PM IST | Ali Imran | Akola
اکولہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ’’ ہمیں بی جے پی کی بی ٹیم کہنے والے اب کہاں ہیں؟‘‘
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ مہاراشٹر سے ۴؍ امیدواروں کو منتخب کرکے پارلیمنٹ بھیجیں۔ اویسی اکولہ میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ’’ ہمیں بی جے پی کی بی ٹیم کہنے والے اب کہاں ہیں؟‘‘
اکولہ شہر کے شاہ ذوالفقار میدان میں منعقدہ جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے اویسی نے کہا’’ ملک کے ۱۷؍ کروڑ مسلمانوں کو مناسب نمائندگی نہیں ملی ہے۔ معاشرے سے ایسی قیادت پیدا کی جائے جو صرف ووٹ دینے والی نہیں بلکہ ووٹ لینے والی بھی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ ان حالات کو دور کرنے کیلئے دلت اور مسلمانوں کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ اویسی نے شکایت کی کہ ’’اجلاس میں تقریر سننے کے لئے تو ہزاروں لوگ آتے ہیں لیکن عمل کوئی نہیں کرتا۔ ہماری کمیوں اور خامیوں کی وجہ سے ہم دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔ ہٹلر کے زمانے میں یہودی جو محسوس کرتے کچھ ویسا ہی آج ہندوستانی مسلمان محسوس کر رہے ہیں۔ اویسی نے ملک کے وزیر اعظم سے سوال کیا کہ’’ ایک طرف آپ خواجہ معین الدین چشتیؒ کی مزار پر چادر چڑھا رہیں ہیں لیکن دوسری طرف ملک کی بیٹیوں کے حجاب چھین رہے ہیں۔ یہ کونسی محبت ہے ؟ یہ کون سی محبت ہے کہ بلقیس بانو کے خاطیوں کو آپ چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ کون سی محبت ہے کہ آج مساجد کو ہم سے چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ کون سی محبت ہے کہ دلی جو ملک کی دارالحکومت ہے وہاں ۵؍ سو سالہ مسجدوں کو منہدم کردیا گیا، اس کے ساتھ لگے قبرستان کو بھی شہید کردیا گیا۔
اس موقع پر اسد الدین اویسی نے مسلمانوں کی سیاسی حیثیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنے کی حقیقی ضرورت ہے۔ بی جے پی کو روکنا نہ صرف ۱۷؍کروڑ مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ذمہ دار شہریوں کے ہر گروہ سے ہے۔ انہوں نے کہامسلمان سیاست کا شکار ہو رہے ہیں۔ جہاں مسلمانوں کی آبادی ۱۴؍ فیصد ہے، وہیں لوک سبھا میں ۵؍ فیصد بھی اراکین بھی مسلمان نہیں ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی میں ۵۰؍ تا ۶۰؍ مسلم اراکین اسمبلی کی ضرورت ہے۔ تاہم، اس کے بارے میں سوچیں کہ اسمبلی میں ہمارے نمائندے کیوں نہیں ہوتے ہیں ؟ کیونکہ سیاست میں صرف مسلمانوں کے ووٹوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔
ایم آئی ایم کو بی جے پی کی بی ٹیم کہنے والوں کو نشانہ بناتے ہوئے اسدالدین اویسی نے ’’ ہم پر بی جے پی کی `بی ٹیم ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن الزام لگانے والے آج بی جے پی کے ساتھ چائے پی رہے ہیں، اشوک چوان بی جے پی میں شامل ہو گئے، اجیت پوار آج کہاں ہیں ؟ اویسی نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ’’ اب آپ لوگ بتائیے کہ بی جے پی کی بی ٹیم کون سی ہے؟ ‘‘انہوں نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں سے بچ کر اور متحد ہوکر ایم آئی ایم کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اب مہاراشٹر میں کوئی سیکولر نہیں رہا۔ انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ پڑھو لکھو باصلاحیت بنو تاکہ نڈر ہو کر سماج دشمنوں کا مقابلہ کر سکو۔ پان، گٹکا، سگریٹ پی کر کوئی لیڈر نہیں بنتا وہ گیدڑ بنتا ہے۔