جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سک یول کو دوسری بار گرفتار کر لیا گیا ہے اور دسمبر میں مارشل لا نافذ کرنے کی ناکام کوشش کے سلسلے میں دوبارہ قید میں رکھا گیا ہے۔ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول کی ایک عدالت نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا۔
EPAPER
Updated: July 10, 2025, 7:00 PM IST | Seoul
جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سک یول کو دوسری بار گرفتار کر لیا گیا ہے اور دسمبر میں مارشل لا نافذ کرنے کی ناکام کوشش کے سلسلے میں دوبارہ قید میں رکھا گیا ہے۔ جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول کی ایک عدالت نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا۔
جنوبی کوریا کے سابق صدر یون سک یول کو دوسری بار گرفتار کر لیا گیا ہے اور دسمبر میں مارشل لا نافذ کرنے کی ناکام کوشش کے سلسلے میں دوبارہ قید میں رکھا گیا ہے۔ یون کی حراست اُس وقت عمل میں آئی جب جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول کی ایک عدالت نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا، گرفتاری کا حکم اس خدشے کے تحت دیا گیا کہ سابق صدر شواہد کو ضائع کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ۶۴؍ سالہ سیاستداں اس وقت بغاوت کے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں، ان کو سیئول ڈٹینشن سینٹر میں رکھا گیا ہے، جہاں وہ سال کے آغاز میں ۵۲؍ دن قید رہ چکے ہیں، چار ماہ قبل انہیں تکنیکی بنیادوں پر رہا کر دیا گیا تھا۔ یون نے۳؍ دسمبر کو سویلین حکومت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مسلح فوجی پارلیمنٹ بھیج دیئے تھے تاکہ ارکانِ پارلیمنٹ کو مارشل لا کے اعلان کو مسترد کرنے سے روکا جا سکے جس سے جنوبی کوریا ایک سیاسی بحران میں داخل ہو گیا۔
یہ بھی پڑھئے: حماس نے غزہ جنگ بندی مذاکرات میں یرغمالوں کی جزوی رہائی پر رضامندی ظاہر کی
وہ جنوبی کوریا کے پہلے موجودہ صدر بنے جنہیں حراست میں لیا گیا، جنوری میں علی الصبح چھاپے کے دوران انہیں گرفتار کیا گیا، اس سے قبل وہ کئی ہفتوں تک گرفتاری سے بچتے رہے اور صدارتی سیکوریٹی ٹیم کو تفتیش کاروں کو روکنے کیلئے استعمال کرتے رہے۔ مارچ میں انہیں طریقہ کار کی بنیاد پر رہا کر دیا گیا، جنوبی کوریا کی آئینی عدالت نے اپریل میں یون کو صدارت سے برطرف کر دیا جس کے بعد جون میں فوری انتخابات منعقد ہوئے۔ ملک کے نئے صدر لی جے میونگ، نے قانون سازی کی منظوری دی جس کے تحت یون کی مارشل لا نافذ کرنے کی کوششوں اور ان کی حکومت اور اہلیہ سے منسلک مختلف مجرمانہ الزامات کی بڑے پیمانے پر تفتیش شروع کی گئی۔ اسی ماہ کے آغاز میں خصوصی تفتیش کاروں نے یون سے جنوری میں گرفتاری کی ناکام کوشش کے دوران مزاحمت کے بارے میں سوالات کئے اور ان الزامات پر بھی تفتیش کی کہ آیا انہوں نے مارشل لا کے جواز کے طور پر پیانگ یانگ کی جانب ڈرون پروازوں کی منظوری دی تھی۔