Updated: December 17, 2025, 6:30 PM IST
| Madrid
اسپین اور پانچ دیگر یورپی ممالک نے یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ اور بڑے پیمانے پر فراہمی یقینی بنائے۔ ہسپانوی وزیر خارجہ کے مطابق جنگ بندی کمزور ہے اور امداد کی راہ میں رکاوٹیں برقرار ہیں، جبکہ غزہ میں انسانی بحران بدستور شدید ہے۔
ایک شخص بچوں کو کھانے کی اشیا دے رہا ہے۔ تصویر: آئی این این
اسپین نے یورپی یونین کے پانچ دیگر رکن ممالک کے ساتھ مل کر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کالس پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ پٹی میں انسانی امداد کی بڑے پیمانے پر اور بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے تمام ممکنہ اقدامات کریں۔ یہ اپیل ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں انسانی صورتحال بدستور انتہائی سنگین بنی ہوئی ہے۔ پیر کو برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ہسپانوی وزیر خارجہ جوزے مینوئل الباریس نے تصدیق کی کہ کاجا کالس کو ایک مشترکہ خط ارسال کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق، اس خط میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے فراہم کی جانے والی تمام انسانی امداد کو یقینی طور پر غزہ میں بڑے پیمانے پر داخل ہونے دیا جائے اور اس مقصد کیلئے دستیاب تمام سفارتی اور عملی ذرائع استعمال کئے جائیں۔
یہ بھی پڑھئے: سلامتی کونسل میں امریکہ کا مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد کی مذمت کرنے سے انکار
الباریس نے کہا کہ اسپین کے ساتھ اس خط پر آئرلینڈ، لکسمبرگ، بلجیم، سلووینیا اور پرتگال نے بھی دستخط کئےہیں۔ ان ممالک کا مشترکہ مؤقف ہے کہ غزہ میں خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات کی شدید قلت انسانی بحران کو مزید گہرا کر رہی ہے، جس کے فوری تدارک کی ضرورت ہے۔ ہسپانوی وزیر خارجہ نے غزہ کی موجودہ صورتحال کو ’’انتہائی نازک‘‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگرچہ جنگ بندی نافذ ہے، مگر وہ بہت کمزور ہے اور اس کی بار بار خلاف ورزیاں رپورٹ ہو رہی ہیں۔ ان کے بقول، جنگ بندی کو مؤثر بنانے اور انسانی امداد کی فراہمی سے جوڑنے کیلئے اسے فوری طور پر مضبوط کیا جانا چاہئے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ: مغربی حصے میں ایک ہی خاندان کے ۳۰؍ افراد کی لاشیں ملبے سے برآمد
الباریس نے اس موقع پر یہ بھی بتایا کہ اجلاس کے دوران وہ امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد اور سابق مشیر جیرڈ کشنر سے بھی رابطہ کریں گے۔ انہوں نے کشنر کے پیش کردہ امن تصور کو ایک ’’انتہائی ابتدائی امن منصوبہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ فلسطینی عوام، خصوصاً غزہ کے باشندوں کیلئے امید کی ایک کرن تو ہے، تاہم اسے ابھی مزید تقویت اور وضاحت کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ اگرچہ ۱۰؍ اکتوبر کو جنگ بندی نافذ ہوئی، تاہم زمینی حقائق میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔ اسرائیل پر الزام ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے انسانی پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امدادی ٹرکوں کے داخلے پر سخت پابندیاں برقرار رکھے ہوئے ہے، جس کے باعث لاکھوں افراد شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
یاد رہے کہ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک ۷۰؍ ہزار ۷۰۰؍ سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جبکہ ایک لاکھ ۷۱؍ ہزار سے زائد افراد زخمی چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق، جنگ بندی کے باوجود یہ بحران مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔