• Fri, 12 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سپریم کورٹ کا ہائی کورٹ کو یو اے پی اے مقدمات میں تاخیر کی جانچ کا حکم

Updated: December 12, 2025, 11:58 AM IST | New Delhi

سپریم کورٹ نے یو اے پی اے مقدمات میں ’’پروسیچرل انجسٹس‘‘ کی تنبیہ کی، ساتھ ہی ہائی کورٹ کو مقدمات میں تاخیر اور خصوصی عدالتوں کی جانچ کا حکم دیا، اور ہدایت دی کہ وہ زیر التوا ٹرائل کی صورت حال کا جائزہ لیں، خاص طور پر ان قوانین کے تحت جہاں ملزم پر ثبوت کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔

Supreme Court of India. Photo: INN
سپریم کورٹ آف انڈیا۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ نے جمعرات کو تمام ہائی کورٹ کو ہدایات جاری کی کہ وہ زیر التوا ٹرائلز کی صورت حال کا جائزہ لیں، خاص طور پر ان قوانین کے تحت جہاں ملزم پر ثبوت کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے، جیسے کہ یو اے پی اے ایکٹ (یو اے پی اے)۔عدالت عظمٰی نے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ان جرائم کی سماعت کے لیے مختص خصوصی عدالتوں کی تعداد اور خصوصی استغاثہ  کی تعیناتی کا تعین کریں۔ دریں اثناء سپریم کورٹ نے پانچ سال سے زیادہ عرصے سے زیر التوا مقدمات کو خصوصی توجہ دینے کا حکم دیا ہے اور ان میں یومیہ بنیاد پر سماعت کا انتظام کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: عمر خالد کو مقامی عدالت سے۱۴؍ دن کی عبوری ضمانت

لیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس سنجے کارول اور جسٹس این کوٹسور سنگھ پر مشتمل بینچ نے۲۰۱۰؍ کے گیانیشوری ایکسپریس ڈیریلمنٹ کیس میں کلکتہ ہائی کورٹ کی طرف سے دی گئی ضمانت کو چیلنج کرتے ہوئے سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کی طرف سے دائر اپیلوں پر فیصلہ سنایا۔دریں اثناءسپریم کورٹ نے کہا کہ جب قانون ثبوت کا الٹا بوجھ عائد کرتا ہے، تو ریاست کو یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ ٹرائل میں تیزی لائی جائے۔عدالت نے کہاکہ ’’آئینی جمہوریت بوجھ صرف اعلان کرکے انہیں جائز نہیں ٹھہراتی ،اسے یہ یقینی بنانا چاہیے کہ جن پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے وہ اسے اٹھانے کے لیے ضروری وسائل سے لیس ہوں، چاہے وہ بدترین جرائم کے ملزم ہی کیوں نہ ہوں۔
کورٹ نے مزید کہا کہ’’ اگر ریاست اپنی ساری طاقت کے باوجود قصور وار ٹھہراتی ہے، تو ریاست ایسے راستے بنائے جن کے ذریعے ملزم اپنی بے گناہی ثابت کر سکیں۔‘‘عدالت نے آگے کہا،’’تاخیر ہندوستانی فوجداری نظام انصاف کی ایک ناقابل نظر انداز حقیقت ہے جو خود ہی اہم مسائل کھڑے کرتی ہے، لیکن جب یہ تاخیر یو اے پی اے جیسے مقدمات میں ہوتی ہے، جہاں ثبوت کا الٹا بوجھ ہوتا ہے، تو یہ ایک معیاری طور پر مختلف اور زیادہ گھناؤنا کردار اختیار کر لیتی ہے۔‘‘ عدالتیں، قانون سازی کے ارادے اور قانونی زبان سے پابند ہوکر، ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ہی ملزم سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ ابتدائی طور پر یہ ثابت کریں کہ وہ اپنے خلاف مفروضے کی تردید کر سکیں گے۔ یہ نظریاتی الٹ پلٹ پروسیجرل تاخیروں کی وجہ سے اور زیادہ نقصان دہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا، انصاف کے اداروں کو غیر فعال مبصرین کی بجائے انصاف کے فعال ضامن کے طور پر کام کرنا چاہیے، جیسے وکلا تک رسائی یقینی بنانا، دفاع کی مؤثر تیاری ممکن بنانا، اور ٹرائل ختم ہونے سے بہت پہلے مفروضے کو ناقابل واپسی فیصلے میں بدلنے سے روکنا۔ 

یہ بھی پڑھئے: مدراس ہائی کورٹ کے جج پر جانبداری کے الزامات، انڈیا بلاک کا صدر و چیف جسٹس کو خط

عدالت نے مزید کہا کہ ’’کیونکہ اگر نظام غیر معمولی بوجھ عائد کرتا ہے لیکن اسے اٹھانے کے اوزاروں سے محروم رکھتا ہے، تو آئین کی بالادستی کا وعدہ محض علامت بن کر رہ جاتا ہے۔ بالآخر، کسی جمہوریت کا فیصلہ اس بات سے نہیں ہوتا کہ وہ بلا شک و شبہ بے گناہوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے، بلکہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ ان مشتبہ افراد کے حقوق کا تحفظ کیسے کرتی ہے۔ اس اخلاقی توازن میں، انصاف کے نظام کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ الٹے بوجھ کے نظام کے تحت بھی ملزم کو مفروضہ جرم کے بوجھ کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ سچ اور انصاف کی تلاش میں اس کی حمایت کی جائے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK