Inquilab Logo Happiest Places to Work

شام: شمالی صوبہ ادلب میں عمارت کی تعمیر کیلئے کھدائی کے دوران ۱۵۰۰؍ سال قدیم بازنطینی مقبرہ دریافت

Updated: June 09, 2025, 9:01 PM IST | Damascus

آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس مقام پر صلیب کی موجودگی اور مٹی کے برتنوں اور شیشے کے ٹکڑوں کی دریافت کی بنیاد پر، یہ مقبرہ بازنطینی دور سے تعلق رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ بازنطینی سلطنت کا آغاز چوتھی صدی عیسوی میں ہوا تھا۔ یہ رومی سلطنت کی توسیع تھی جس کا دارالحکومت قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) تھا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

شمالی شام میں ایک تباہ شدہ گھر کے ملبے کو صاف کرنے کے بعد زمین کھودنے کے دوران ایک زیر زمین بازنطینی مقبرہ کمپلیکس کے باقیات دریافت ہوئے ہیں۔ اس مقبرے کے متعلق اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یہ ۱۵۰۰ سال پرانا ہوسکتا ہے۔ یہ دریافت گزشتہ ماہ، صوبہ ادلب کے قصبہ معرۃ النعمان میں ہوئی جو حلب اور دمشق کے درمیان واقع ہے۔ یہ علاقہ تقریباً ۱۴ سالہ شامی خانہ جنگی میں ایک اہم اسٹریٹجک مرکز بن گیا تھا، جو گزشتہ سال دسمبر میں باغیوں کے برق رفتار حملے کے بعد سابق صدر بشار الاسد کی معزولی کے ساتھ ختم ہوئی۔ اسد فورسیز نے ۲۰۲۰ء میں اس علاقے کو اپوزیشن کے کنٹرول سے واپس لے لیا اور گھروں کو لوٹا اور مسمار کیا تھا۔ علاقے کی فضائی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے گھر اب بھی کھڑے ہیں لیکن ان کی چھتیں غائب ہیں۔

اسد حکومت کے خاتمہ کے بعد اب اس علاقے کے رہائشی واپس لوٹ رہے ہیں اور اپنے گھروں کی دوبارہ تعمیر شروع کر رہے ہیں۔ ایک تعمیراتی منصوبے کے دوران، پتھر کے کھلے راستوں کا انکشاف ہوا جو قدیم قبروں کی موجودگی کی نشاندہی کرتے تھے۔ رہائشیوں نے محکمہ آثار قدیمہ کو مطلع کیا جس نے مقام کا معائنہ کرنے اور اسے محفوظ کرنے کیلئے ایک خصوصی ٹیم بھیجی۔ زمین کے اوپر، یہ ایک رہائشی محلہ ہے جہاں کنکریٹ کی عمارتوں کی قطاریں ہیں۔ ان میں بہت سی عمارتیں جنگ میں تباہ ہوئی ہیں۔ ایسی ہی ایک عمارت کے ساتھ، ایک گڑھا دو تدفینی کمروں کے کھلے راستوں کی طرف جاتا ہے۔ ہر ایک کمرے میں پتھر کی ۶ قبریں بنی ہوئی ہیں اور پتھر کے ایک ستون کے اوپر صلیب کا نشان کندہ ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی حملوں میں شدت، غزہ کے کئی علاقوں میں انخلاء کی نئی ہدایات جاری

بازنطینی سلطنت کی میراث

ادلب میں آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر حسان الاسماعیل نے بتایا کہ اس مقام پر صلیب کی موجودگی اور مٹی کے برتنوں اور شیشے کے ٹکڑوں کی دریافت کی بنیاد پر، یہ مقبرہ بازنطینی دور سے تعلق رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ بازنطینی سلطنت کا آغاز چوتھی صدی عیسوی میں ہوا تھا۔ یہ مغرب کی رومی سلطنت کی مشرق میں توسیع تھی جس کا دارالحکومت قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) تھا۔ اس کا سرکاری مذہب عیسائیت تھا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ یہ دریافت علاقے میں پہلے سے موجود آثار قدیمہ کے مقامات کے مجموعے میں اضافہ کرتی ہے۔ 

اسماعیل کا کہنا ہے کہ ادلب میں شام کے ایک تہائی آثار قدیمہ موجود ہیں، جن میں ایک قدیم شہر کے علاوہ ۸۰۰ سے زائد مقامات شامل ہیں۔ شمال مغربی شام میں پتھریلی پہاڑیوں اور میدانوں میں پھیلے ہوئے ترک کردہ بازنطینی دور کی بستیوں کو "ڈیڈ سٹیز" (مردہ شہر) کہا جاتا ہے۔ چونے کے پتھروں سے بنی ان بستیوں کے کھنڈرات، جو موسم کی سختیوں سے اب خراب ہوچکے ہیں، میں پتھر کے گھروں، باسیلیکاؤں، قبروں اور ستونوں والی سڑکوں کے باقیات شامل ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: انروا کے سربراہ کی غزہ میں غیر ملکی صحافیوں کے داخلے پر اسرائیلی پابندی کی مذمت

کھنڈرات میں معاشی بحالی کی کرن

خانہ جنگی کے دوران، بمباری، لوٹ مار اور غیر مجاز کھدائی سے شام کے آثار قدیمہ کے مقامات کو نمایاں نقصان پہنچا ہے۔ اس کے باوجود، مقامی افراد کا ماننا ہے کہ کھنڈرات، معاشی بحالی کیلئے امید کی کرن ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک مقامی رہائشی عابد جعفر، جو اپنے بیٹے کے ساتھ نئی دریافت شدہ قبروں کو دیکھنے اور تصاویر لینے آئے تھے، نے کہا کہ پہلے زمانے میں، کئی غیر ملکی سیاح صرف کھنڈرات دیکھنے کیلئے معرۃ النعمان آتے تھے۔ جعفر نے زور دیا کہ ہمیں آثار قدیمہ کی دیکھ بھال کرنی چاہئے، انہیں بحال کرنا چاہئے اور انہیں پہلے جیسا بنانا چاہئے کیونکہ اس سے سیاحت اور معیشت کو واپس پرانے راستے پر لانے میں مدد ملے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK