Inquilab Logo

’’ تبدیلی مجھ میں نہیں کشمیر کے حالات میں آئی ہے میں تو صرف اسکا اعتراف کررہی ہوں‘‘

Updated: March 23, 2024, 11:18 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

جے این یو کی سابق طلبہ لیڈر شہلا رشیدنے مودی سرکار کے تعلق سے اپنے موقف میں تبدیلی کا پُرزور دفاع کیا، کہا کہ ’’اب کشمیر کا مسئلہ دفعہ ۳۷۰؍ یا آزادی نہیں بلکہ اچھی سڑکیں اور بجلی کٹوتی سے نجات ہے۔ ‘‘

Former student leader of JNU Shehla Rashid. Photo: INN
جے این یو کی سابق طلبہ لیڈر شہلا رشید۔ تصویر : آئی این این

 ۲۰۱۴ء میں مرکز میں  مودی  حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد اس کے خلاف پہلی مضبوط اور مدلل آواز دہلی کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے جن طلبہ نے اٹھائی تھی ان میں کنہیا کماراور عمر خالد کے ساتھ شہلارشید بھی شامل تھیں۔ شہلا رشید مودی حکومت کی نہ صرف سخت ناقدین میں شامل تھیں بلکہ حکومت کی پالیسیوں  کے خلاف وہ توانا نسوانی آواز بن کر ابھریں اور بیرون ِ ملک تک کے پروگراموں   میں  بلائی گئیں۔تعلیم مکمل ہونے کے  بعد   انہوں نے کشمیر سے آئی اے ایس کے ٹاپر شاہ فیصل کی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور سیاست میں مقدر آزمانے کا اشارہ دیا۔ مودی سرکار نے جب آرٹیکل ۳۷۰؍ کو منسوخ  کرکے کشمیر کی خصوصی  حیثیت ختم کی ، اس کا ریاست کا درجہ چھین لیا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا تو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے والوں میں شہلا رشید اور شاہ فیصل بھی شامل تھے۔پھر  نہ جانے کیا ہوا کہ مودی کےسخت ناقدین میں شمار ہونےو الی شہلا رشید یکایک وزیراعظم کی مداح بن گئیں، ان کی تعریفوں  کے پُل پاندھنے لگیں اور ۳۷۰؍ کے خلاف  نہ صرف پٹیشن سے اپنام واپس لے لیا بلکہ حکومت کے اس  فیصلے کو جائز بھی ٹھہرانے لگیں۔

یہ بھی پڑھئے: معاہدوں کے بدلے یاچھاپے پڑنے کے بعد بی جےپی کو ۲۴۰۰؍ کروڑ کا چندہ

اپنے یوٹرن کو شہلارشید یوٹرن نہیں مانتیں۔ اپنے موقف میں تبدیلی کا دفاع کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ وہ نہیں بدلیں بلکہ کشمیر میں حالات بدل گئے ہیں۔ ان کے مطابق ’’بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ میں نے ۱۸۰؍ ڈگری کا یوٹرن لیا ہےمگر سچائی یہ ہے کہ تبدیلی مجھ میں نہیں کشمیر کے حالات میں آئی ہے۔ میں تو صرف اس تبدیلی کو تسلیم کررہی  ہوں۔‘‘گزشتہ دنوں دہلی میں سی این این۔ نیوز ۱۸؍ کے ’’رائزنگ بھارت سمٹ ‘میں گفتگو کے دوران مودی سرکار کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے اور آرٹیکل ۳۷۰؍ کی منسوخی کا دفاع کرتے ہوئے شہلا رشید نے دعویٰ کیا کہ کشمیر میں اب اصل موضوع اچھی سڑکیں اور بجلی کٹوتی میں کمی ہے جبکہ۱۰؍ سال پہلے ’’آزادی‘‘ یہاں کا اصل موضوع  تھا۔ عمر عبداللہ اور دیگر لیڈروں کے ان الزامات کے برخلاف کہ کشمیر میں حال ہی میں  وزیراعظم کی ریلی  میں بھیڑ جٹانے کیلئے سرکاری ملازمین کیلئے شرکت کو لازمی قراردیاگیا اور انہیں بسوں میں  بھر بھر کر لے جایاگیا، جے این یو کی سابق طالبہ نے دعویٰ کیا کہ ’’ہم نے دیکھا کہ کیسے عام کشمیری قطار در قطار وزیراعظم مودی کی ریلی میں پہنچ رہے تھے۔ میرا مقصد حکومت کی چاپلوسی نہیں ہے،میں مانتی ہوں کہ اب بھی کشمیر میں بہت سے مسائل حل طلب ہیں جیسے بجلی کی بار بار کی کٹوتی کا مسئلہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’مگر یہ اپنے آپ میں تبدیلی ہے کہ اب کشمیر میں موضوع بہتر سڑکیں اور بجلی کی کٹوتی ہے۔ چند برسوں قبل تک  سب سے سلگتا ہوا موضوع آزادی ہوا کرتا تھا۔‘‘ 
اس سوال پر کہ وزیراعظم کے تعلق سے ا ن کے خیالات میں تبدیلی آنی کب شروع ہوئی،  جے این یو کی سابق طالبہ نے بتایا کہ کورونا کی وبا کے دوران  حکومت کے اقدامات نے ان کے  نظریہ کو بدل دیا۔  اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’مجھے احسا ہو اکہ کبھی کبھی ہم ماسک پہننے، ٹیکہ لگانے اور لاک ڈاؤن جیسے اہم موضوعات کی مخالفت کرتے ہیں۔ آپ کی مخالفت کبھی کبھی اُن ’خیموں‘ کی وجہ سے ہوتی ہے جو بنا لئے گئے ہیں۔ تبدیلی کی حکومت کی الگ اور ہماری الگ تھیوری تھی۔ مثال کے طور پر ۱۰؍ سال پہلے ہم نگرانی کے نام پر آدھار اور ایسی دیگر چیزوں کی  مخالفت کر رہے تھے لیکن آج ہم ڈیجی لاکر اور ڈیجی یاترا جیسے ایپ استعمال کر رہے  ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK