Inquilab Logo

ہجومی تشدد پر سپریم کورٹ کا ایک بارپھر سخت موقف

Updated: April 17, 2024, 9:39 AM IST | Agency | New Delhi

ماب لنچنگ کیخلاف عرضداشت پر سماعت ،مختلف ریاستوں سے۶؍ ہفتےمیں جواب طلب ۔مدھیہ پردیش حکومت کی سرزنش ۔ سوال کیاکہ’’ اس کی جانچ کئے بغیر کہ یہ گائے کا گوشت ہے یا نہیں،ایف آئی آر کیسے درج کی گئی؟ اور قصورواروں کیخلاف ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی۔‘‘

The next hearing on the mob lynching case in the Supreme Court will be held after 6 weeks. Photo: INN
سپریم کورٹ میںماب لنچنگ کے متعلق معاملےپر اگلی شنوائی ۶؍ہفتوں کے بعد ہوگی۔ تصویر : آئی این این

ملک بھر میں گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کیخلاف قتل اورہجومی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سپریم کورٹ نے ایک بار پھر سخت موقف اختیار کیا ہے۔ عدالت نے ہجومی تشدد کے سنگین  معاملے میں کئی ریاستی حکومتوں کو کارروائی سے متعلق جواب داخل کرنے کیلئے چھ ہفتے کا وقت دیا ہے۔
خواتین کی ایک تنظیم  کے ذریعہ  دائر کردہ عرضداشت پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس بی آر گاوائی، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس سندیپ مہتا کی بنچ نے ریاستی حکومتوں سے جواب طلب کیا ہے۔ عرضی میں ریاستوں کو یہ ہدایت دینے کی مانگ کی گئی ہے کہ وہ نام نہاد’ گئو رکشکوں ‘کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف ہجومی تشدد اور لنچنگ کے واقعات میں سپریم کورٹ کے۲۰۱۸ء کے فیصلے کے مطابق فوری کارروائی کریں۔بنچ نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ زیادہ تر ریاستوں نے ہجومی تشدد پر اپنا جوابی حلف نامہ داخل نہیں کیا ہے۔ ان ریاستوں سے توقع تھی کہ وہ کم سے کم وقت میں اپناجواب دیںگی کہ انہوں نے ایسے معاملات میں کیا کارروائیاں کی ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: سپریم کورٹ بابا رام دیو کو بخشنے کو تیار نہیں، عوامی طور پر معافی مانگنے کی ہدایت، ایک ہفتہ کی مہلت

این ایف آئی ڈبلیو کی عرضداشت پرسماعت ہوئی
 قابل ذکرہےکہ سپریم کورٹ ،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے وابستہ تنظیم نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن (این ایف آئی ڈبلیو) کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، تنظیم نے گزشتہ سال مرکز اور مہاراشٹر، اودیشہ ، راجستھان، بہار، مدھیہ کے ڈی جی پی کو نوٹس جاری کرکےجواب طلب کیا  تھا۔سماعت کے دوران، درخواست گزار تنظیم کی طرف سے ایڈوکیٹ نظام پاشا نے کہا کہ مبینہ ہجومی تشدد کا واقعہ مدھیہ پردیش میں پیش آیا تھا، لیکن اس معاملے میں متاثرین کے خلاف ہی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ریاست کو ماب لنچنگ کے واقعہ سے انکارہے تو پھر تحسین پونا والا کیس میں ۲۰۱۸ء کے فیصلے پر کیسے عمل کیا جا سکتا ہے۔؟واضح رہے کہ پونا والا کیس میں عدالت عظمیٰ نے ریاستوں کو گائے کے تحفظ اور ہجومی تشدد کے واقعات کی جانچ کیلئے کئی ہدایات جاری کی ہیں۔
۳؍رکنی بنچ نے  مدھیہ پردیش حکومت کے وکیل سے کیا کہا؟
 بنچ نے مدھیہ پردیش حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل سے سوال کیا کہ ایف آئی آر کیسے درج کی گئی اس کی جانچ کئے بغیر کہ یہ گائے کا گوشت ہے یا نہیں؟ اور اس میں ملوث لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی۔ بنچ نے مزید کہا کہ کیا آپ کسی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ گائے ذبح کرنےکی ایف آئی آر بغیر تفتیش کے کیسے درج کر سکتے ہیں؟
 عرضداشت گزار تنظیم کے وکیل نظام پاشا نے عدالت کو بتایا کہ ایسا واقعہ ہریانہ میں بھی ہوا ہے۔ یہاں گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا معاملہ درج کیا گیا تھا، ہجومی تشدد کا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ  `ریاست اس بات سے انکار کر رہی ہے کہ موب لنچنگ کا کوئی واقعہ پیش آیا ہے اور متاثرین کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا رہی ہے۔ صرف دو ریاستوں، مدھیہ پردیش اور ہریانہ نے واقعات پر رٹ پٹیشن اور اپنے حلف نامے داخل کئے ہیں، لیکن دیگر ریاستوں نے کوئی حلف نامہ داخل نہیں کیا۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ماب لنچنگ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔جسٹس کمار نے پاشا سے کہا کہ درخواستوں میں تمام واقعات کا ذکر کیا جائے۔
 سینئر وکیل ارچنا پاٹھک ڈیو نے ریاست کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ رٹ پٹیشن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہجومی تشدد کے واقعات مسلمانوں کے ساتھ ہوتے ہیں، اس دوسرے مذاہب کے لوگوں کی ماب لنچنگ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس اعتراض  اور سوال کے جواب میں پاشا نے کہا کہ یہ معاشرے کی افسوسناک حقیقت ہے اور مخصوص برادریوں کے خلاف ہونے والے واقعات کو بھی عدالت کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔اس پربنچ نے ان سے کہا کہ وہ اپنے دلائل میں تحمل کا مظاہرہ کریں اور مذہب کی بنیاد پر واقعات میں  شامل  نہ ہوں،ہمیں بڑے مقصد پر توجہ دینی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے گرمیوں کی تعطیلات کے بعد کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ ریاستیں  ہجومی تشدد کو روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر اپنا جواب داخل کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK