ٹی سی پر پرماننٹ ایجوکیشن نمبر نہ ہونے سے محکمہ تعلیم یہ معلوم نہیں کر پا رہا ہے کہ یہ طلبہ اب کہاں زیر تعلیم ہیں۔
EPAPER
Updated: August 09, 2024, 1:33 PM IST | Agency | Aurangabad
ٹی سی پر پرماننٹ ایجوکیشن نمبر نہ ہونے سے محکمہ تعلیم یہ معلوم نہیں کر پا رہا ہے کہ یہ طلبہ اب کہاں زیر تعلیم ہیں۔
گزشتہ ۱۵؍ جون کو ریاست میں نیا تعلیمی سال شروع ہو چکا ہے لیکن گزشتہ سال زیر تعلیم طلبہ کے مقابلے اس سال طلبہ کی مجموعی تعداد میں ۳۵؍ لاکھ کی کمی آئی ہے۔ یہ ۳۵؍ لاکھ طلبہ کہاں ہیں اس کا محکمہ تعلیم کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی سی (ٹرانسفر سرٹیفکیٹ ) دیتے وقت اسکولوں نے اس پر پین (پرماننٹ ایجوکیشن نمبر) نہیں لکھا تھا جسے ریاستی حکومت لازمی قرار دے رکھا ہے۔ اس نمبر کے نہ ہونے سے محکمہ تعلیم کو یہ ریکارڈ حاصل کرنے میں دقت پیش آ رہی ہے کہ مذکورہ ۳۵؍ لاکھ طلبہ کہاں گئے۔
اطلاع کے مطابق گزشتہ سال بھر میں ۳۵؍ لاکھ ۷۸؍ ہزار ۷۷۳؍ طلبہ نے اپنے اسکول تبدیل کئے ہیں۔ ان میں سے ۴؍ لاکھ ۶۱؍ ہزار ۳۱۵؍ کی تفصیلات تو یو ڈائس پلس کے ذریعے مل رہی ہے لیکن بقیہ ۳۱؍ لاکھ ۱۷؍ ہزار ۴۵۸؍ ہزار بچے کہاں گئے اس کی کوئی معلومات محکمہ تعلیم کے پاس نہیں ہے۔ اب ان کے تعلق سے پتہ لگانا محکمۂ تعلیم کیلئے ایک چیلنج ہے۔
یہ بھی پڑھئے:عثمان آباد کے بعد ناندیڑ میں بھی راج ٹھاکرے کی مخالفت
یاد رہے کہ محکمۂ تعلیم نے ہر طالب کیلئے ایک ۱۱؍ عددی پین (پرماننٹ ایجوکیشن نمبر) لازمی کیا ہے جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کون طالب علم ملک کے کس اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسکولوں نے بچوں کو یہ نمبر فراہم کرنے کے معاملے میں کوتاہی برتی ہے جس کی وجہ سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد ریکارڈ سے غائب ہے۔ اس کی وجہ سے یہ معلوم کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ کون سا طالب علم کس اسکول یا کالج میں گیا ہے۔ یو ڈائس پلس میں ان کا اندراج بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اسٹیٹ پرائمری بورڈ نے ان طلبہ کی تفصیلات جاری کی ہے اور متعلقہ محکموں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ریکارڈ کو درست کریں اور معلوم کریں کہ یہ طلبہ اس وقت کہاں اور کن اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔
کسی بھی طالب علم کا کسی اسکول میں داخلہ کیا جائے تو اس کے آدھار کارڈ نمبر سمیت اسکی معلومات اسٹوڈنٹ پورٹل پر درج کرنا لازمی ہوتا ہے۔ لیکن محکمہ تعلیم کی جانچ کے مطابق پورٹل پر درج ۳؍ لاکھ سے زائد طلبہ کے آدھار کارڈ نمبر جعلی پائے گئے ہیں۔ محکمہ اس کی بھی جانچ کرے گا کہ یہ جعلی آدھار کارڈ نمبر کس طرح ریکارڈ میں شامل کئے گئے۔ یاد رہے کہ اساتذہ کی عام شکایت ہے کہ درس وتدریس کے ساتھ طلبہ کے ریکارڈ جمع کروانے جیسے کلرکل کام ان کیلئے درد سر ہیں جو کہ ایک ساتھ ممکن نہیں ہیں۔