Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹرمپ نے ہیتی باشندوں کا جلاوطنی سے تحفظ ختم کیا،۵؍ لاکھ افراد پرجلا وطنی کا خطرہ

Updated: June 28, 2025, 4:08 PM IST | Washington

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ہیتی باشندوں کا جلاوطنی سے تحفظ ختم کردیا،جس کے نتیجے میں تقریباً ۵؍ لاکھ افرادکو جلاوطنی کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

ٹرمپ انتظامیہ نے کیریبین ملک میں جاری عدم استحکام کے باوجود عارضی تحفظی حیثیت منسوخ کر دی، جس کے بعد امریکہ میں مقیم ہیتی باشندوں کو ملک بدر ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے جمعے کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ان کے ملک میں حالات میں اتنی بہتری آگئی ہے کہ ان کی واپسی کو جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے کہا کہ وہ ہیتی کے شہریوں کے لیے عارضی تحفظی حیثیت ختم کر رہا ہے۔یہ پروگرام۳؍ اگست کو ختم ہو گا، جبکہ منسوخی۲؍ ستمبر سے مؤثر ہو گی۔ واضح رہے کہ محکمہ ان ممالک کے شہریوں کو امریکہ میں قانونی طور پر رہائش پذیر ہونے اور کام کرنے کی اجازت دیتا ہے جو مسلح تنازع یا ماحولیاتی تباہی کا شکار ہوں۔ ہیتی باشندے۲۰۱۰ء میں ملک کو تباہ کن زلزلے کے بعد سے اس حیثیت سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔اس اقدام سے تقریباً پانچ لاکھ افراد متاثر ہوں گے – جن میں سے بہت سے امریکہ میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں – اب انہیں ایک ایسے ملک میں واپس جانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے جو ابھی تک بحران کا شکار ہے۔
محکمہ ہوم لینڈ کے ترجمان نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ہمارے امیگریشن نظام کی سالمیت بحال کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ عارضی تحفظی حیثیت واقعی عارضی رہے۔‘‘ محکمے نے ہیتی باشندوں کو مشورہ دیا کہ وہ روانگی کی تیاری کے لیے ’’ سی بی پی ہوم ‘‘نامی موبائل ایپ استعمال کریں۔لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ زمینی حقائق اور سنگین حالات کو نظر انداز کرتا ہے۔ حالانکہ ہیتی کیلئے  امریکی محکمہ خارجہ کا سفری مشورہ (ٹریول ایڈوائزری) اب بھی برقرار ہے، جو وسیع پیمانے پر تشدد، اغوا اور طبی سہولیات کی کمی کی وجہ سے امریکیوں کو وہاں سفر نہ کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔یہ اقدام انتظامیہ کی امیگریشن کو محدود کرنے کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے، جس میں بشمول وینزویلا اور افغانستان جیسے دیگر قومیتوں کے لیے ہیومینیٹیرین پیرول پروگرامز منسوخ کرنا اور عارضی رہائشی تحفظات کو کم کرنا شامل ہیں۔
۳۶؍ سالہ فریٹز ڈیسیئر جو ۲۰۲۲ءمیں پناہ کی تلاش میں امریکہ پہنچے تھے، اب اپنے مستقبل کو لے کر خوفزدہ ہیں۔انہوں نے کہاکہ ’’آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے وہ دوست جو روزانہ کام پر جاتے تھے، اچانک گھر سے نکلنے سے قاصر ہیں — نہ تو بیمار ہونے کی وجہ سے نہ ہی نوکری چھوٹنے کی وجہ سے، بلکہ اس طرح کے ایک فیصلے کی وجہ سے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کے ساتھ ابھی ایسا نہیں ہوا ہے، تب بھی آپ سوچنے لگتے ہیں، `اگر اگلا میں ہوا تو؟‘‘ڈیسیئر اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ ا سپرنگ فیلڈ، اوہائیو میں رہتے ہیں اور ایک کار پارٹس فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ ان کی پناہ کیس کی سماعت کی تاریخ حال ہی میں ۲۰۲۸ءتک مؤخر کر دی گئی ہے۔کچھ تحفظی حاملین نے پناہ یا دیگر قانونی حیثیت کے لیے درخواستیں دی ہیں، لیکن یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ آخر کار کتنے لوگ تحفظ سے محروم رہ جائیں گے۔
دریں اثناء مزید پیش رفت کے طور پر امریکی سپریم کورٹ نے پیدائشی شہریت (برتھ رائٹ سٹیزن شپ) کو محدود کرنے والے ٹرمپ انتظامیہ کے ایک حکم نامے کی راہ میں ایک اہم قانونی رکاوٹ ہٹا دی ہے۔ تین کے مقابلے میں چھ کے فیصلے میں، عدالت نے حکم دیا کہ زیریں عدالتوں کو پورے ملک میں نافذ ہونے والے ایسے حکم نامے جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے جو انتظامی حکم کو روک سکیں۔ٹرمپ کی دوسری مدت کے پہلے دن پر دستخط ہونے والے اس حکم نامے کا مقصد امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والے ان بچوں کو خودکار امریکی شہریت دینے سے انکار کرنا ہے جن کے والدین غیر شہری ہیں اور جن کے پاس قلیل مدتی ویزا ہیں یا وہ قانونی حیثیت کے بغیر ہیں۔اگرچہ عدالت نے خود حکم نامے کی قانونی حیثیت پر فیصلہ نہیں دیا، لیکن تین لبرل ججوں نے اختلافی رائے دی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یہ امریکی قانون کی خلاف ورزی ہے۔یہ فیصلہ تین متعلقہ قانونی چارہ جوئیوں کا احاطہ کرتا ہے، جن سب کو ابتدائی طور پر زیریں عدالتوں نے روک دیا تھا، لیکن اپیل پر ان فیصلوں کو کالعدم کر دیا گیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK