ٹرمپ نے امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس فیصلے کی بدولت مزید مجرم ملک میں داخل ہوں گے جو ہماری پیاری عوام کو بڑا نقصان پہنچائیں گے۔ اس فیصلے سے دیگر مجرموں کو بھی غیر قانونی طور پر ہمارے ملک میں داخل ہونے کی ترغیب ملے گی۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعہ کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کے غیر قانونی تارکین وطن کے متعلق حالیہ فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور سپریم کورٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ حال ہی میں عدالت نے مہاجرین کی ملک بدری کے ایک مقدمے میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف فیصلہ دیا جس کے بعد ٹرمپ عدالت پر برہم ہوگئے اور الزام لگایا کہ ججز انہیں اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے سے روک رہے ہیں۔
ٹرمپ نے جمعہ کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا، "ملک کی سپریم کورٹ مجھے وہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے جسے کرنے کیلئے عوام نے مجھے منتخب کیا تھا۔" انہوں نے اس دن کو ملک کیلئے "خطرناک دن" قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک کیلئے "ایک برا اور خطرناک دن" ہے۔ ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں لکھا، "اس فیصلے کی بدولت مزید مجرم ہمارے ملک میں داخل ہوں گے جو ہماری پیاری عوام کو بڑا نقصان پہنچائیں گے۔ اس فیصلے سے دیگر مجرموں کو بھی غیر قانونی طور پر ہمارے ملک میں داخل ہونے کی ترغیب ملے گی جو جہاں بھی جاتے ہیں ہنگامہ آرائی اور افراتفری مچا دیتے ہیں۔"
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: جیمز کومی کی "۸۶۴۷" پوسٹ کو ٹرمپ کے قتل کی دھمکی سمجھا گیا، ایف بی آئی تحقیقات میں مصروف
سپریم کورٹ کا فیصلہ
اس سے سپریم کورٹ نے جمعہ کو ۱۷۹۸ء کے ایک صدی پرانے جنگی قانون "ایلیئن اینیمیز ایکٹ" کا استعمال کرتے ہوئے وینزویلا کے ۱۲۷ مہاجرین کے ایک گروپ کی ملک بدری سے روکنے کا فیصلہ کیا۔ مہاجرین نے دلیل پیش کی تھی کہ انہیں اپنی ملک بدری کو چیلنج کرنے کا منصفانہ موقع نہیں دیا گیا۔ عدالت نے امریکی حکومت کو شمالی ٹیکساس کے تارکین وطن کی ملک بدری کے عمل کو آگے بڑھانے سے بھی روک دیا جن پر انتظامیہ کے جنگی اختیارات کے وسیع استعمال کے تحت فوری طور پر ملک بدر کئے جانے کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔
امریکی سپریم کورٹ کی ۸ ججوں کی بنچ نے ۲ـ۶ کی اکثریت کے ساتھ یہ مشاہدہ کیا کہ مہاجرین کو اپنے حقوق کا دفاع کرنے کیلئے مناسب وقت اور معلومات فراہم نہیں کی گئی۔ ججوں نے صورتحال کی سنگینی پر زور دیا اور کہا کہ حراست میں لئے گئے افراد کے مفادات خاص طور پر اہم ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایک نچلی عدالت کو یہ طے کرنے کی ہدایت کی کہ انتظامیہ کو کون سا طریقہ کار اپنانا چاہئے۔