Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹرمپ کا اعلان: ۴؍ جولائی سے دنیا بھر کے ممالک کوٹیرف کے خطوط ارسال کئے جائیں گے

Updated: July 04, 2025, 9:32 PM IST | Washington

ٹرمپ نے اعلان کیا کہ جمعہ سے دنیا بھر کے ممالک کوٹیرف کے خطوط ارسال کئے جائیں گے، اور یکم اگست سے یہ ٹیرف ادا کرنے ہوں گے، مزید یہ کہ بیک وقت ۱۷۰؍ ممالک کے ساتھ معاہدہ کرنا امر محال ہے، لہٰذا ایک وقت میں ۱۰؍ ممالک کو خطوط بھیجے جائیں گے۔

President of  America Donald Trump. Photo INN
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این

صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعرات کو کہا کہ ان کی انتظامیہ اپنے تجارتی شراکت دار ممالک کو خطوط بھیجنے کا آغاز جمعہ سے کرے گی، جن میں انہیں محصول (ٹیرف) کی وہ شرحیں مطلع کی جائیں گی جو انہیں ادا کرنا ہوں گی۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق، یہ نئی محصولات یکم اگست سے نافذ العمل ہوں گی۔  نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ پہلے تقریباً ۱۰؍ یا ۱۲؍ خطوط بھیجے جائیں گے، اور مزید خطوط اگلے چند دنوں میں روانہ کیے جائیں گے۔ ٹرمپ کے مطابق، نئی محصولی شرحیں  ۶۰؍ سے ۷۰؍ یا ٍ۱۰؍ سے ۲۰؍ فیصد ہوں گی۔ اگر سب سے زیادہ شرحیں نافذ کی گئیں تو یہ اپریل میں ان کے یوم آزادی کے اعلان میں تجویز کردہ سطحوں سے بھی زیادہ ہوں گی، جب انہوں نے۱۰؍ سے لے کر زیادہ سے زیادہ ۵۰؍ فیصد تک محصولات کا مشورہ دیا تھا۔  

یہ بھی پڑھئے: فلسطینی عوام جہنم سے گزررہے ہیں: ٹرمپ

تاہم ٹرمپ نے واضح نہیں کیا کہ کون سے ممالک متاثر ہوں گے یا نئی محصولات کچھ خاص اشیا پر زیادہ نافذ ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ’’ ممالک یکم اگست سے ادائیگی شروع کر دیں گے۔ یکم اگست سے امریکہ میں رقم آنے لگے گی۔‘‘  جمعرات کو آئیووا جانے سے پہلے رپورٹرز سے گفتگو میں ٹرمپ نے کہا کہ ۱۷۰؍سے زائد ممالک کے ساتھ معاہدے کرنا مشکل ہے، اس لیے امریکہ اب ایک وقت میں۱۰؍ ممالک کو خطوط بھیجے گا۔ رائٹرز کے مطابق، ان خطوط میں محصولی شرحیں درج ہوں گی، جو ۲۰؍ سے ۳۰؍ فیصدکے درمیان ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بدھ کو ویت نام کے ساتھ ایک معاہدہ اعلان کرنے کے بعد وہ دیگر ممالک کے ساتھ مزید تفصیلی تجارتی معاہدوں کی توقع رکھتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت بہت سی ویت نامی مصنوعات پر امریکی محصولات پہلے تجویز کردہ  ۴۶؍ فیصدکے بجائے کم کر کے۲۰؍ فیصد کر دی گئی ہیں۔ بدلے میں، بہت سی امریکی مصنوعات ویت نام میں بغیر کسی درآمدی محصول کے داخل ہو سکیں گی۔ لیکن زیادہ تر ممالک کے لیے، ٹرمپ نے کہا کہ وہ طویل مذاکرات کے بجائے صرف یہ بتانا چاہیں گے کہ انہیں کس محصولی شرح کا سامنا ہوگا۔ ان کے تبصرے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تجارتی معاہدوں کو حتمی شکل دینا کتنا مشکل ہے، خاص طور پر جب ان میں صرف محصولات ہی نہیں بلکہ کچھ زرعی مصنوعات پر پابندیوں جیسے دیگر مسائل بھی شامل ہوں۔ اپریل میں، ٹرمپ کے اعلیٰ مشیروں نے کہا تھا کہ وہ۹۰؍ دنوں میں۹۰؍ تجارتی معاہدے کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن بہت سے تجارتی ماہرین کو اس وقت بھی اس پر شک تھا، کیونکہ ایسے معاہدے عام طور پر بہت زیادہ وقت اور محنت طلب ہوتے ہیں۔
ابتدائی طور پر،۱۲۳؍ ممالک اور خطوں کی فہرست بنائی گئی تھی جنہیں۱۰؍ فیصد شرح دی جانی تھی۔ ان میں آسٹریلیا کے غیر آباد جزائر ہرڈ اور مک ڈونالڈ جیسے چھوٹے ممالک اور دور دراز علاقے بھی شامل تھے۔ اگر۱۰۰؍ ممالک پر۱۰؍ فیصد محصولات کا اعلان کیا جاتا ہے، تو یہ تعداد ٹرمپ انتظامیہ کی ابتدائی منصوبہ بندی سے کم ہے۔ اگرچہ برطانیہ جیسے کچھ ممالک پہلے ہی معاہدے کر چکے ہیں (جنہیں ۱۰؍ فیصدشرح اور کاروں اور ہوائی جہاز کے پرزوں جیسے شعبوں میں خصوصی سہولتیں ملی ہیں)، لیکن بہت سے دیگر ممالک میں مذاکرات شروع بھی نہیں ہوئے۔  یورپی یونین، ہندوستان اور جاپان جیسے اہم تجارتی شراکت دار اب مذاکرات میں ہیں لیکن فی الحال انہیں کہیں زیادہ بلند شرحوں کا سامنا ہے۔ جن ممالک نے ٹرمپ انتظامیہ سے اب تک بات چیت نہیں کی ہے، انکیلئے  شرحیں اور بھی زیادہ ہیں جیسے لیسوتھو کے لیے۵۰؍ فیصد، مڈغاسکر کیلئے ۴۷؍ فیصداور تھائی لینڈ کے لیے۳۶؍ فیصد۔۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK