ٹیرف مذاکرات کے درمیان ٹرمپ نے ۶؍ لاکھ چینی طلبہ کیلئے امریکی یونیورسٹیوں میں داخلے کی اجازت دے دی، انہوں نے کہا کہ چین کے پاس کچھ کارڈ ہیں، اور ہمارے پاس کچھ کارڈ ہیں، لیکن ہم چین کے خلاف کارڈ نہیں کھیلیں گے۔
EPAPER
Updated: August 26, 2025, 5:02 PM IST | Washington
ٹیرف مذاکرات کے درمیان ٹرمپ نے ۶؍ لاکھ چینی طلبہ کیلئے امریکی یونیورسٹیوں میں داخلے کی اجازت دے دی، انہوں نے کہا کہ چین کے پاس کچھ کارڈ ہیں، اور ہمارے پاس کچھ کارڈ ہیں، لیکن ہم چین کے خلاف کارڈ نہیں کھیلیں گے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ تقریباً ۶؍ لاکھ چینی طلبہ کو امریکی کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے گی، یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تجارتی مذاکرات جاری ہیں۔ پیر کو وائٹ ہاؤس میں بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ چینی طلبہ کو ملک میں داخل ہونے سے نہیں روکیں گے، حالانکہ کچھ مشیران اور قانون سازوں کی جانب سے پابندیاں سخت کرنے کا دباؤ تھا۔ٹرمپ نے کہا،’’ہم چین کے ساتھ بہت اچھے تعلقات قائم کریں گے۔ ان کے پاس کچھ کارڈ ہیں۔ ہمارے پاس زبردست کارڈ ہیں، لیکن میں وہ کارڈ نہیں کھیلنا چاہتا۔ اگر میں نے وہ کارڈ کھیلے تو چین تباہ ہو جائے گا۔ میں وہ کارڈ نہیں کھیلوں گا۔‘‘اخبار میں چین کے تعلق سے کشیدگی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ہم چین کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے۔فی الحال، تقریباً ۲؍ لاکھ ۷۰؍ ہزار چینی طلبہ امریکی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ یہ نیا وعدہ اس تعداد کو دوگنا سے زیادہ کر دے گا، جو تعلیم کی اہمیت کو دو طرفہ تعلقات کے ایک میدان کے طور پر اجاگر کرتا ہے۔
یہ اعلان مئی میں سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کے اس بیان کے بعد سامنے آیا تھا کہ امریکہ حساس تحقیقی شعبوں یا کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ چینی شہریوں کے ویزوں کو ’’جارحانہ طور پر منسوخ‘‘کرے گا۔ تاہم، ٹرمپ نے حالیہ مہینوں میں اپنا رخ بدلا ہے اور اصرار کیا ہے کہ ’’وہ ہمیشہ سے چینی طلبہ کے خیرمقدم کے حق میں رہے ہیں۔‘‘ٹرمپ کا یہ حالیہ اقدام حکمت عملی ہو سکتا ہے، جس کا مقصد تجارتی تناؤ کے حل نہ ہونے کے باوجود اقتصادی اور ثقافتی روابط کو برقرار رکھنا ہے۔ٹرمپ کے تبصرے جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ کے ساتھ ان کی طے شدہ ملاقات سے قبل سامنے آئے۔ جب ان سے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ سربراہی اجلاس کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو ٹرمپ نے مثبت انداز میں کہا کہ وہ اس سال کے آخر میں شی سے ملاقات کی امید رکھتے ہیں۔ انہوں نے انہیں صاف کر دیا۔چینی طلبہ کے لیے، امریکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے سب سے زیادہ مطلوبہ مقامات میں سے ایک ہے۔جو واشنگٹن کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہے۔
ٹرمپ کا تبصرہ ان کی انتظامیہ کی بیجنگ کے خلاف سخت گیر اقتصادی پالیسیوں کے پس منظر میں سامنے آئے۔واضح رہے کہ رواں سال کے شروع میں، واشنگٹن نے تمام چینی اشیا پر۱۴۵؍ فیصد ٹیرف عائد کیا، جس کے جواب میں بیجنگ نے امریکی برآمدات پر۱۲۵؍ فیصد ڈیوٹی لگائی۔اگرچہ مئی میں جنیوا میں ملاقات کرنے والے مذاکرات کاروں نے مزید ٹیرف کو روکنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن ٹرمپ نے اضافی اقدامات کا اشارہ دینا جاری رکھا۔ گزشتہ ہفتے، انہوں نے چینی ساختہ مقناطیس پر ۲۰۰؍ فیصد ٹیرف کا خیال پیش کیا، جس کی وجہ انہوں نے بیجنگ کی اس شعبے میں ’’اجارہ داری‘‘ قرار دی۔ دریں اثنا،سوشل میڈیا پر، ٹرمپ نے یورپی اور دیگر حکومتوں پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکی کمپنیوں کو جان بوجھ کر نقصان پہنچا رہی ہیں جبکہ چین کے سب سے بڑے ٹیکنالوجی کھلاڑیوں کو مستثنیٰ کر رہی ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا، ’’اسے اب ختم ہونا چاہیے، اور ابھی ختم ہونا چاہیے۔‘‘یہ انتباہ واشنگٹن اور برسلز کے درمیان ایک مشترکہ بیان کے بعد سامنے آیا جس میں ’’غیر منصفانہ تجارتی رکاوٹوں‘‘ کے خلاف تعاون اور الیکٹرانک ٹرانسمیشنز پر کسٹم ڈیوٹی عائد نہ کرنے کے عزم کا وعدہ کیا گیا تھا۔یورپی یونین نے یہ بھی تصدیق کی کہ وہ نیٹ ورک استعمال کے فیس متعارف کرانے سے گریز کرے گی۔ تاہم، ٹرمپ نے بیانات کو مزید تیز کرتے ہوئے کہا کہ ڈیجیٹل ٹیکس یا قوانین نافذ کرنے والے تمام ممالک کو امریکہ کو برآمدات پر ’’کافی اضافی ٹیرف‘‘اور حساس امریکی ٹیکنالوجیز تک رسائی پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔