۲؍ دسمبر ۲۰۲۵ء کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی ۵۴؍ ویں عیدالاتحاد سے قبل ’’میک اے وِش یو اے ای‘‘ این جی او نے مملکت میں دائمی طور پر بیمار ۵۴؍ بچوں کی خواہشات پوری کی۔
EPAPER
Updated: November 16, 2025, 2:06 PM IST | Abu Dhabi
۲؍ دسمبر ۲۰۲۵ء کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی ۵۴؍ ویں عیدالاتحاد سے قبل ’’میک اے وِش یو اے ای‘‘ این جی او نے مملکت میں دائمی طور پر بیمار ۵۴؍ بچوں کی خواہشات پوری کی۔
ماں بننے کی ۱۲؍ سالہ تڑپ کے بعد فاتن ریاض ابو نحلہ کی دیرینہ خواہش اس وقت مشکل امتحان میں بدل گئی جب ان کے نوزائیدہ بیٹے کی سنگین بیماری کی تشخیص ہوئی۔ اس کے باوجود، ان کی کہانی حوصلے، شکر گزاری اور امید سے بھرپور ہے۔ فاتن نے آخر کار اپنے بیٹے محمد انور کی آمد کا استقبال کیا، لیکن خوشی کے یہ لمحات جلد ہی تشویش میں تبدیل ہوگئے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ اتنا مشکل ہو گا۔ ۱۲؍ سال کے انتظار کے بعد ماں بننے کی خبر میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی تھی، مگر محمد کی پیدائش کے بعد معلوم ہوا کہ اسے ایک نایاب طبی حالت ہے۔‘‘
محمد کی ریڑھ کی ہڈی، ٹانگ اور کچھ اندرونی اعضاء میں پیچیدگیاں پائی گئیں۔ اسے پیدائش کے صرف ۲۴؍ گھنٹے بعد ہنگامی سرجری کی ضرورت پیش آئی، جس کیلئے اسے راس الخیمہ سے شارجہ کے القاسمی اسپتال منتقل کیا گیا۔ فاتن نے کہا کہ ’’یہ بہت مشکل تھا، لیکن میں اللہ کی شکر گزار ہوں کہ اس کا دماغ صحیح ہے، اور یہی مجھے ہمت دیتا ہے۔‘‘ مشکل حالات کے باوجود وہ مثبت رہنے کی کوشش کرتی ہیں۔ خلیج ٹائمزکی ایک رپورٹ کے مطابق محمد ’’میک اے وِش یو اے ای‘‘ کے مستفید ہونے والوں میں سے ایک تھا۔ فاتن کا کہنا تھا کہ ’’اس اقدام نے مجھے خوشی دی۔ یہ احساس دلاتا ہے کہ مشکل میں بھی دوسرے خاندان بھی اپنے مسائل کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ صبر اور شکرگزاری سکھاتا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں نسل کشی سے بے گھر ۹؍ لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو خطرناک طوفان کا سامنا
جاپان جانے اور آئی فون کی خواہش
’’میک اے وِش یو اے ای‘‘نے ۵۴؍ ویں عید الاتحاد کے موقع پر ۵۴؍ ایسے بچوں کی خواہشات پوری کیں جو طویل المدتی یا زندگی بدل دینے والی بیماریوں سے لڑ رہے ہیں۔ ان بچوں میں سلطان بھی شامل تھا جو ۱۱؍ سالہ اماراتی بچہ ہے اور ۸؍ سال کی عمر سے ذیابیطس کا مریض ہے۔ اس کی خواہش جاپان جانے کی تھی، جو اس کی اینیمی اور ویڈیو گیمز کی دلچسپی سے جڑی تھی۔ اس کی والدہ شیخہ ابراہیم نے بتایا کہ ’’وہ خاص طور پر یونیورسل اسٹوڈیو جاپان جانا چاہتا تھا تاکہ سپر نِنٹینڈو ورلڈ دیکھ سکے۔‘‘ ذیابیطس کی تشخیص نے خاندان کیلئے مشکلات پیدا کیں۔ شیخہ نے کہا کہ ’’یہ بہت مشکل تھا، خاص طور پر جب ایک بچے کو سمجھانا ہو کہ وہ مٹھائی کیوں نہیں کھا سکتا یا اسے مسلسل انجیکشن کی ضرورت کیوں ہے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ سلطان کی خواہش نے اسے زندگی میں آگے بڑھنے کی نئی امید دی۔
۱۲؍ سالہ احمد نے بھی اپنی خواہش ظاہر کی کہ وہ ہنگامی حالات میں اپنے والدین سے رابطہ کرنے کیلئے آئی فون حاصل کرنا چاہتا ہے اور ذیابیطس کی بہتر نگرانی کیلئے ایپل واچ بھی چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: افریقہ ۲۵؍ سالوں کے بد ترین ہیضے کی گرفت میں
’’میک اے وِش یو اے ای‘‘ کے سی ای او ہانی الزبیدی نے بتایا کہ ۲۰۱۰ء سے اب تک ۷؍ ہزار ۹۵۰؍ سے زائد خواہشات پوری کی جا چکی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ خواہشات صرف تحائف نہیں ہوتیں بلکہ علاج کے جذباتی پہلو کا حصہ ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’علاج کے دو حصے ہیں: جسمانی اور جذباتی۔ دوا جسم کی مدد کرتی ہے، مگر خوشی کے لمحات روح کو ٹھیک کر دیتے ہیں۔‘‘ اس سال جن بچوں کی خواہشات پوری کی گئیں، ان کی عمریں ۴؍ سے ۱۸؍ سال کے درمیان تھیں۔ الزبیدی کے مطابق یہ اجتماعات بچوں میں ہمت اور امید پیدا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’ جب بیمار بچے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، تو وہ ایک دوسرے سے طاقت حاصل کرتے ہیں۔‘‘
ان کے مطابق ۹۰؍ فیصد سے زیادہ بچے اپنی خواہش پوری ہونے کے بعد خوشی اور توانائی میں نمایاں بہتری دکھاتے ہیں۔ انہو ںنے کہ کہ ’’جب بچے خوش ہوتے ہیں، تو وہ بیماری کے خلاف زیادہ مضبوطی سے لڑتے ہیں۔‘‘