Inquilab Logo Happiest Places to Work

برطانیہ نے ہندوستان سمیت ۲۳؍ ممالک کے باشندوں کو ”ڈی پورٹ فرسٹ“ کی فہرست میں شامل کیا

Updated: August 11, 2025, 8:03 PM IST | London

برطانوی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ملک بدری پالیسی کے تحت مزہد ممالک کی شمولیت سے ”غیر ملکی مجرموں کو جلد از جلد ملک سے نکالنے“ اور جیلوں پر دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔

British PM Keir Starmer. Photo: INN
برطانوی وزیراعظم کیر اسٹارمر۔ تصویر: آئی این این

برطانیہ نے ’پہلے ملک بدری، بعد میں اپیل‘ کی متنازع پالیسی کے تحت مزید ۲۳؍ ممالک کو شامل کرلیا ہے جن میں قریبی اتحادی اور کامن ویلتھ کے شراکت دار جیسے ہندوستان، آسٹریلیا اور کنیڈا بھی شامل ہیں۔ یہ پالیسی وزارت داخلہ کو سزا یافتہ مجرموں کو پہلے ملک بدر کرنے اور بعد میں انہیں بیرون ملک سے اپیل کرنے کی اجازت دیتی ہے جب تک کہ وہ یہ ثابت نہ کر سکیں کہ ملک بدری سے انہیں سنگین نقصان پہنچے گا۔ 

ان ممالک کی فہرست میں اب یورپی ریاستیں جیسے لیٹویا اور بلغاریہ، انگولا، بوٹسوانا، کینیا، یوگانڈا اور زیمبیا جیسے افریقی ممالک اور انڈونیشیا، لبنان اور ملائیشیا کو بھی شامل کرلیاگیا ہے۔ ان میں سے کئی ممالک کو منصفانہ ٹرائل اور انسانی حقوق کے تحفظات کے بارے میں خدشات کی وجہ سے باہر رکھا گیا تھا۔ تنزانیہ، فن لینڈ اور بیلیز پہلے ہی اس فہرست میں شامل تھے۔ واضح رہے کہ اس پالیسی کے بعد برطانوی حکومت ان ممالک سے تعلق رکھنے والے مجرموں کو قانونی اپیل مکمل کرنے سے قبل ہی ملک بدر کرنے کی کوششوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ملک بدری پالیسی کے تحت مزہد ممالک کی شمولیت سے ”غیر ملکی مجرموں کو جلد از جلد ملک سے نکالنے“ اور برطانیہ کی بھری ہوئی جیلوں پر دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ حکام کی رپورٹ کے مطابق، جولائی ۲۰۲۴ء سے اب تک تقریباً ۵۲۰۰ غیر ملکی مجرموں کو نکالا گیا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں ۱۴ فیصد زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھئے: روس اور یوکرین کے درمیان معاہدہ دونوں کو ’’خوش‘‘ نہیں کرے گا: امریکی نائب صدر جے ڈی وینس

انصاف اور متاثرین کے حقوق پر خدشات

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی مجرم کے آبائی ملک میں سزا کو یقینی بنائے بغیر ”جرم کو برآمد“ کرنے کا کام انجام دیتی ہے۔ کئی قانونی گروپس نے بھی خبردار کیا کہ بیرون ملک سے دور سے اپیل کی سماعت کرنا مناسب قانونی عمل کو کمزور کرتا ہے۔ سابق وزیر انصاف ایلکس چاک نے “دی گارڈین” کو بتایا کہ انہیں اس نقطہ نظر کے بارے میں "حقیقی خدشات" لاحق ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ برطانیہ کو غیر ملکی مجرموں کیلئے ”مقناطیس“ بنا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”اس سے خطرہ یہ ہے کہ آپ مجرموں کو ایک طرح سے ہری جھنڈی دکھا رہے ہیں۔" سابق وزیر انصاف رابرٹ بکلینڈ نے سوال کیا کہ کیا حکومت نے متاثرین کے خیالات پر غور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”بہت سے متاثرین چاہتے ہیں کہ ملک بدری سے پہلے انصاف یہاں ہی فراہم کیا جائے۔“ برطانوی وزارت انصاف نے تصدیق کی کہ اس اسکیم کے تحت ملک بدر کئے جانے والے مجرموں کو ان کے آبائی ممالک میں جیل کی سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK