• Thu, 25 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اقوام متحدہ: ۱۰؍ سالہ فلسطینی بچی راشا کی وصیت سن کر مندوبین رو پڑے

Updated: September 25, 2025, 8:00 PM IST | New York

اقوام متحدہ کی ۸۰؍ ویں جنرل اسمبلی کے دوران ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں عالمی سفارت کاروں نے غزہ پر دلخراش گواہی سنائی۔ ۱۰؍ سالہ فلسطینی بچی راشا کی وصیت سن کر کمرہ میں سناٹا چھاگیا اور مندوبین کی آنکھیں چھلک گئیں۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

گزشتہ دن اقوام متحدہ کے چیمبر میں ایک لمحے کیلئے اس وقت سناٹا چھا گیا جب اردن کی ملکہ رانیہ نے سر جھکا کر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ اس عمل میں ان کے ساتھ وزراء، سفراء اور عالمی نمائندے بھی شامل تھے۔ یہ خاموشی غزہ کے اُن بچوں کیلئے تھی جو اپنا بچپن نہ دیکھ سکے اور اسرائیلی جارحیت کا شکار ہوگئے۔ یہ منظر فلسطینی بچوں کے کرب کی عکاسی کر رہا تھا۔ اعلیٰ سطحی تقریب ’’مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی بچوں کیلئے اقدامات کا مطالبہ‘‘ کے عنوان سے ۸۰؍ ویں جنرل اسمبلی کے دوران منعقد ہوئی، جہاں غزہ کے اعداد و شمار نے ہر دل کو دہلا دیا۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ میں ۲۰؍ ہزار بچے شہید ہو چکے ہیں، ۱۷؍ ہزار والدین کے سائے سے محروم ہیں، ہر ۱۰؍ میں سے ۹؍ بچے بھوک کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں، اور ۱۰؍ لاکھ بچے شدید صدمے میں زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:عرب لیڈران کی ٹرمپ سے ملاقات: امریکی صدر کا اسرائیل کو مغربی کنارے پر قبضہ نہ کرنے دینے کا عزم

اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بچے صرف اعداد و شمار نہیں ہیں، یہ ایک قوم کا مستقبل ہیں۔ ہم ایسے وقت میں خاموش نہیں رہ سکتے جب ایک پوری نسل بھوک، مایوسی اور تشدد کے حوالے کر دی جائے۔ فوری کارروائی محض ضرورت نہیں، بلکہ اخلاقی ذمہ داری ہے۔‘‘ بلجیم کے میکسم پریوٹ نے کہا کہ ایک پوری نسل اپنے بچپن اور مستقبل سے محروم کی جا رہی ہے۔ یورپی یونین کی حدجہ لہبیب نے زور دیا کہ فلسطینی بچوں کی تکلیف صرف لفظوں سے نہیں ختم ہوسکتی بلکہ عملی اقدامات، امداد اور تحفظ کے وعدے چاہتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی اُنروا کے سربراہ فلپ لازارینی نے اپنے ادارے کے کردار کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’یو این آر ڈبلیو اے ان بچوں کے مستقبل کو بچانے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں اس ادارے کی حفاظت کرنی ہوگی۔‘‘ ملکہ رانیہ، جنہوں نے غزہ جنگ کی تباہی کے خلاف طویل عرصے تک آواز اٹھائی ہے، درخواستوں پر درخواستیں سنتی رہیں لیکن جب شکاگو کے ایک ڈاکٹر نے تقریر کی تو چیمبر کی فضا ہی بدل گئی۔

۱۰؍ سالہ راشا کی وصیت
اس تقریب میں سب سے زیادہ دل ہلا دینے والی گواہی شکاگو سے تعلق رکھنے والے فلسطینی نژاد ایمرجنسی ڈاکٹر طاہر احمد نے دی، جنہوں نے غزہ میں رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیں۔ ان کی آواز میں درد اور غصہ لرز رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ بچوں کے خلاف جنگ ہے۔ ان سے بڑھنے، جینے اور خواب دیکھنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ ہر روز میں باپوں کو اپنے بچوں کی لاشیں بازوؤں میں اٹھائے ایمرجنسی روم میں گرتے دیکھتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر طاہر احمد نے ایک دس سالہ بچی کی کہانی سنائی جو لیوکیمیا کی مریضہ تھی، لیکن علاج کی دوا سرحد پر روک لی گئی۔ اور وہ کیموتھراپی کے انتظار میں جان کی بازی ہار گئی۔ پھر انہوں نے ۱۰؍ سالہ فلسطینی بچی راشا کی کہانی سنائی: 


’’راشا دس سال کی تھی اور اس کا بھائی احمد گیارہ۔ ان کے گھر پر اسرائیلی میزائل گرا۔ انہیں ملبے سے نکالا گیا۔ کوئی وارننگ نہیں دی گئی اور نہ ہی نکلنے کا حکم۔ اس حملے میں راشا بچ گئی۔ اور خوف کے عالم میں اپنی وصیت لکھی۔ تین ماہ بعد وہ ایک بمباری میں فوت ہوگئی۔ ‘‘ ڈاکٹر احمد نے وصیت بلند آواز میں پڑھ کر سنائی:’’اگر میں مر جاؤں تو میرے لئے آنسو نہ بہانا، میرے کپڑے ضرورتمندوں میں تقسیم کر دینا، میری چھوٹی چھوٹی اشیاء رحاب، لانا، سارہ اور بتو میں بانٹ دینا، اور میری کتابیں ان بچوں تک پہنچادینا جنہیں پڑھنے کا شوق ہے۔ میرا ماہانہ جیب خرچ ۵۰؍ شیکل ہے، اس میں سے ۲۵؍ احمد اور ۲۵؍ رحاب کو دے دینا۔ میرے کھلونے بتو کو دینا اور میرے بھائی احمد سے نرمی سے پیش آنا۔‘‘
مردہ بچی کے ہاتھ میں پھنسے کاغذ میں لکھے یہ الفاظ کسی بھی تقریر سے زیادہ وزنی تھے۔ کمرے کی فضا سوگوار تھی اور ایسا سکوت طاری تھا کہ جیسے قبرستان ہو۔ یہ الفاظ سنتے ہی کئی مندوبین آنسو ضبط نہ کر سکے۔ کچھ نے اپنے چہرے چھپا لئے، کچھ نے نظریں جھکا لیں۔ ڈاکٹر احمد نے آخر میں کہا: ’’اگر میری باتیں آپ کے دل کو چھو گئی ہیں تو براہِ کرم، ہمارے بچوں کی حفاظت کیلئے قدم اٹھائیے۔‘‘ اقوام متحدہ کے خاص چیمبر میں یہ وہ لمحہ تھا جب سیاست خاموش ہو گئی، اور انسانیت چیخ اٹھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK