اسرائیل نے اس قرار داد کو ماننے سے انکار کردیا۔ کہا کہ حماس کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی۔ ۱۷۹؍ ممالک میں سے ۱۴؍ نے اردن قرار داد کے خلاف ووٹ دیا جبکہ ہندوستان سمیت ۴۵؍ ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
EPAPER
Updated: October 28, 2023, 3:34 PM IST | New York
اسرائیل نے اس قرار داد کو ماننے سے انکار کردیا۔ کہا کہ حماس کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی۔ ۱۷۹؍ ممالک میں سے ۱۴؍ نے اردن قرار داد کے خلاف ووٹ دیا جبکہ ہندوستان سمیت ۴۵؍ ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد جس میں حماس کا کوئی ذکر نہیں تھا، جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں زبردست اکثریت سے منظور کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس قرار داد میں اسرائیل کی پرزور مذمت کی گئی ہے۔ مذکورہ قرارداد میں غزہ میں فوری جنگ بندی، تمام شہریوں کی رہائی، شہریوں اور بین الاقوامی اداروں کے تحفظ اور اس خطے میں انسانی امداد کی محفوظ منتقلی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ حماس کو ختم کرنے کیلئے پرعزم ہے تاکہ تین ہفتے قبل ہوئے جیسے حملوں کو مستقبل میں روکا جاسکے۔ امریکہ نے بھی جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حماس کی فتح کے مترادف ہوگا۔ تاہم، اس نے تجویز کیا کہ غزہ میں مزید انسانی امداد کی اجازت دینے اور ان علاقوں سے نکلنے والے شہریوں کے محفوظ راستے کو یقینی بنانے کیلئے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر توقف پر غور کیا جائے کیونکہ اسرائیل اس علاقے پر مسلسل بمباری کررہا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل بار بار صرف یہی نکتے پر بات کررہا ہے کہ اس کا نشانہ محض حماس ہے۔ تاہم، ان حملوں میں عام شہری متاثر ہورہے ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں اب تک ۷؍ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہنگامی اجلاس میں ۱۲۰؍ ممالک نے اردن کی طرف سے پیش کردہ قرار داد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ صرف ۱۴؍ ( امریکہ، آسٹریا، کروشیا، چیکیا، فجی، گوئٹے مالا، ہنگری، اسرائیل، مارشل آئی لینڈ، مائیکرونیشیا، ناورو، پاپا نیو گنی ، پیراگوئے اور ٹونگا — نے) نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔آسٹریلیا، کینیڈا، فن لینڈ، جرمنی، یونان، ہندوستان، عراق، اٹلی، جاپان، نیدرلینڈس، پولینڈ، جنوبی کوریا، سویڈن، تیونس، یوکرین اور برطانیہ سمیت ۴۵؍ ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ کنیڈا نے حماس کی مذمت کو شامل کرنے کیلئے قرارداد میں ایک ترمیم کی کوشش کی اور ارکان کی اکثریت نے اس تجویز کی حمایت کی، لیکن اسے منظور نہیں کیا گیا کیونکہ اکثریت دو تہائی سے کم تھی۔ ۸۸؍ ممالک نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، ۵۵؍ نے مخالفت اور ۳۳؍ نے ووٹ میں حصہ نہیں لیا۔
یہ بھی پڑھئے: شرمناک ہے کہ ہندوستان نے غزہ میں جنگ بندی کیلئے ووٹ نہیں دیا: پرینکا گاندھی
اقوام متحدہ میں اردن کے سفیر نے اس ترمیم کو غزہ میں اسرائیلی ’’مظالم‘‘ کو ’’وہائٹ واش‘‘ کرنے کی کوشش قرار دیا۔
اس ووٹنگ کے بعد اسرائیل کی حالت دیدنی تھی۔ وزیر خارجہ ایلی کوہن نے اس قرار داد کی مذمت کی اور اصرار کیا کہ اسرائیل اسی طرح حماس کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس طرح دنیا نے نازیوں اور آئی ایس آئی ایس کے ساتھ کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے اسرائیلی سفیر گیلاد اِردان نے بھی اس قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے ڈھٹائی سے کہا کہ اسرائیل اپنا دفاع جاری رکھے گا۔انہوں نے دھمکی دی کہ اسرائیل حماس کے خلاف جنگ میں ’’ہر طریقہ‘‘ استعمال کرے گا۔انہوں نے اقوام متحدہ کے اصولوں پر بھی سوال اٹھایا کہ ’’یہ دن بدنامی کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سب نے مشاہدہ کیا کہ اقوام متحدہ کے پاس اب ایک اونس بھی قانونی حیثیت نہیں رہ گئی ہے۔‘‘
دوسری جانب حماس نے قرارداد کی منظوری کا خیرمقدم کیا اور غزہ پٹی میں شہریوں کیلئے ایندھن اور امدادی سامان کے داخلے کی شق سمیت اس پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔فلسطینی وزارت خارجہ نے بھی اس قرارداد کا خیرمقدم کیا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکران نے قرار داد منظور ہوتے ہی زوردار تالیاں بجائیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر کنیڈا کی قرارداد واقعی منصفانہ تھی تو وہ یا تو ہر ایک کا نام لینے پر اتفاق کرے گا، دونوں فریقین جو جرائم کے مرتکب ہیں، یا پھر وہ نام نہیں دیتا جیسا کہ ہم نے منتخب (اردن قرار داد) کیا ہے۔‘‘
جمعرات کو، قرارداد پر بحث کے پہلے دن، تقریباً ہر اسپیکر نے اردن کی قرارداد کی حمایت کی، سوائے گیلاد اردان کے جس نے اسمبلی کو بتایا کہ ’’جنگ بندی کا مطلب حماس کو خود کو دوبارہ مسلح کرنے کا وقت دینا ہے تاکہ وہ دوبارہ ہمارا قتل عام کر سکے۔ ‘‘