سرکاری ملازمین کی بھرتی کرنے والے ادارے میں صدر سمیت ۶؍ اراکین ہوتے ہیں مگر حکومت نے ۷؍ واں ’سیکریٹری رکن‘ نامزد کر دیا جبکہ یہ عہدہ آئین میں ہے ہی نہیں۔
کیا منترالیہ خود غیر آئینی کام کر رہاہے؟ تصویر: آئی این این
ریاستی حکومت کیلئے اعلیٰ عہدیداروں کی تقرری کیلئے قائم کردہ ادارے مہاراشٹر اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن ( ایم پی ایس سی) کی خود مختاری اس وقت خطرے میں نظر آ رہی ہے کیونکہ حکومت نے اس میںایک سرکاری نمائندے کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کہ وجہ سے ایم پی ایس سی کی پالیسیوں اور فیصلوں پر اثر ہو سکتا ہے۔ اطلاع کے مطابق حکومت نے گورنر کی رضامندی حاصل کئے بغیر ایک اعلیٰ عہدیدار کو ایم پی ایس سی میں بطور سیکریٹری شامل کیا ہے ۔ قواعد میں اس ا س عہدے کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اس عہدے کے ذریعے ایم پی ایس سی کے کام کاج میں مداخلت کا خدشہ ہے۔ اس فیصلے کی وجہ سے افسران میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔
اطلاع کے مطابق ایم پی ایس سی مہاراشٹر حکومت کا ایک خود مختار ادارہ ہے جو بشمول پولیس سرکاری ملازمین کی بھرتی کے عمل کو قوانین کے مطابق انجام دیتا ہے۔ اس میں ایک صدر اور اس کے ماتحت ۵؍ اراکین ہوتے ہیں۔ جبکہ ایک سیکریٹی ہوتا ہے جو اس کمیشن کا حصہ نہیں ہوتا اور نہ اس کا سرکاری ملازمین کی بھرتی سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔ ہر چند کہ اس پورے اسٹاف کا تقرر ریاستی حکومت ہی کرتی ہے لیکن حکومت کے یہ ساری نام پہلے گورنر کو بھیجنے پڑتے ہیں ۔ وہاں سے منظوری ملنے کے بعد ان اراکین یا صدر کی تقرری ہوتی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے گورنر کی منظوری حاصل کئے بغیر ایک عہدیدار ’سیکریٹری‘ کے طور پر نامزد کیا ہے جو کہ کمیٹی کا رکن بھی ہوگا۔حالانکہ اس کا کوئی عہدہ آئینی طور پر اس ادارے میں شامل نہیں ہے۔ اطلاع کے مطابق حال ہی میں ایم پی ایس سی کی سیکریٹری ڈاکٹر سورنا کھرات کا تبادلہ ہوا۔ ان کی جگہ پر ممبئی ومضافات کے کلکٹر سوربھ کٹیار کو فائز کیا گیا۔ لیکن ۲۰؍ اکتوبر کو جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ نے ایک جی آر جاری کرکےجگناتھ ویرکر کو بحیثیت سیکریٹری۔ ممبر ایم پی ایس سی میں شامل کیا ۔ حالانکہ اس طرح کا کوئی عہدہ اس ادارے میں نہیں ہے۔
یاد رہے کہ ایم پی ایس سی کا قیام آئین ہند کی دفعہ ۳۱۵؍ کے تحت یو پی ایس سی کے طرز پر عمل میں آیا تھا۔یہ ایک آئینی ادارہ ہے۔ اس لئے اگر اس کے ڈھانچے میں کوئی تبدیلی کرنی ہو تو باقاعدہ اس کے قوانین میں تبدیلی کرنے کے بعد ہی کی جا سکتی ہے۔ فی الحال اس ادارے کی ساخت یہی ہے کہ اس میں ایک صدر اور اس کے ماتحت ۵؍ اراکین ہوتے ہیں ۔ اگر اس ساخت میں کوئی تبدیلی کرنی ہو تو اسے باقاعدہ آئینی طور پر تبدیل کرنا ہوگا۔ لیکن جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ نے جس طرح سے ایک ’سیکریٹری‘ کا تقرر کیا ہے اس سے ایم پی ایس سی کے کل اسٹاف کی تعداد ۷؍ ہو گئی ہے۔ اور جس عہدے پرتقرری کی گئی ہے وہ عہدہ قاعدے کی رو سے ادارے میں ہے ہی نہیں۔ اس تقرری پر گورنر کی مہر بھی نہیں ہے ۔ یعنی یہ تقرری پوری طرح غیر آئینی ہے۔
یاد رہے کہ ایم پی ایس سی سرکاری ملازمین کی تقرری کا اہم ذریعہ ہے۔ یہی ادارہ تقرری کے تعلق سے قاعدے اور پالیسیاں بھی تیار کرتا ہے۔ ملازمین کی بھرتی کے وقت انٹرویو کا انعقاد بھی یہی ادارہ کرتا ہے۔ لہٰذا اس خود مختار ادارے میں براہ راست حکومت کی جانب سے کوئی عہدیدار شامل کیا جاتا ہے تو اس سے کمیشن کے کام میں مداخلت کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ پالیسی سازی اور بھرتی میں شفافیت کا قائم رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ کمیشن میںمبینہ طور پر بے چینی پائی جا رہی ہے۔
حال ہی میں حکومت نے پولیس محکمے میں ۱۵؍ ہزار نئے اہلکاروں کی بھرتیوں کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان گزشتہ اگست میں ہوا تھا ۔ اکتوبر میں ان بھرتیوںکے تعلق سے ایم پی ایس سی کی ویب سائٹ پر اشتہار جاری کیا گیا لیکن چند ہی گھنٹوں میں ہٹا لیا گیا۔ ایسا کیوں کیا گیا اس کا آج تک پتہ نہیں چلا۔ حکومت کے اعلان کو ۲؍ماہ گزرجانے کے بعد بھی بھرتی کا عمل شروع نہیں ہوا ہے ۔ اس کی وجہ سے جہاں امیداروں میں تشویش ہے وہیں سماجی کارکنان بھی خفا ہیں۔ طلبہ لیڈرمہیش گھربوڑے کا کہنا ہے کہ ایم پی ایس سی کے قواعد کے مطابق ادارے کا سیکریٹری، چیئرمین کے ماتحت ہوتا ہے اور اس کے مکمل کنٹرول میں ہوتا ہے لیکن جس طرح سے حکومت نے ممبر سیکریٹری کا تعین کیا ہے اس سے کمیشن کے کاموں میں مداخلت کے امکانات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یاد رہے کہ مہایوتی حکومت میں غیر آئینی طور پر فیصلہ کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بی ایم سی میں ایک ہی عہدے پر ۲؍ تقرریوں سے تنازع پیدا ہو گیا تھا۔