Updated: August 14, 2024, 11:25 PM IST
| London
برطانیہ میں سوشل میڈیا پر پھیلی ایک جھوٹی خبر جس میں کہا گیا تھا کہ تین لڑکیوں کو چاقو سے قتل کرنے والا مشتبہ ایک تارکین وطن مسلم ہے، اسکے بعد پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف فساد شروع ہو گئے تھے،جس میں تارکین وطن مسلمانوں کے ہوٹلوں اور مساجد پر حملے کئے گئے۔ حکام نے سختی دکھاتے ہوئے ۱۰۰۰؍ فسادیوں کو گرفتار کیا، جن میں بچوں سے لے کر معمر افراد تک سبھی شامل ہیں۔
برطانیہ فساد کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این
برطانیہ حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے ملک میں جاری مسلم مخالف فساد میں شامل ۱۰۰۰؍ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے،اسی کے ساتھ بر طانیہ کے درجنوں شہروں اور قصبوں میں تین لڑکیوں کے قتل میں مسلم شخص کے ملوث ہونے کی جھوٹی خبر کے بعد برپا ہونے والے مسلم کش فساد میں شامل ۵۷۵؍ افراد پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ گرفتار شدگان میں لیور پول میں ہنگامہ کر رہا۶۹؍ سالہ شخص سے لے کر بیلفاسٹ کا ۱۱؍ سالہ بچہ شامل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: گوونڈی : لڑکے کے قتل کے الزام میں ۴؍افراد گرفتار
بیسنگسٹوک مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک ۱۳؍ سالہ لڑکی کو ۳۱؍ جولائی کو پناہ کے متلاشیوں کےہوٹل کے داخلی دروازے کو لات مارنے اور ضرب لگانے کا مجرم پایا گیا ہے۔استغاثہ تھامس پاور نے کہا ’’ اتنی کم عمر کے بچوں کے بھی فساد میں شامل ہونے کے شواہد نے متاثرین کے دلوں میں خوف پیدا کر دیا تھا۔‘‘ واضح رہے کہ انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے تین لڑکیوں کے قتل میں ایک مسلم تارکین وطن کے شامل ہونے کی ایک جھوٹی خبر کے بعد پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف فساد برپا کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: ملک میں شکر اور نمک کے تمام برانڈز میں مائیکروپلاسٹک ہیں: رپورٹ
برطانیہ کی عدالت نے معاملات کو تیزی سے فیصل کرنا شروع کر دیا،حکومت نے بھی فسادیوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا انتباہ دیا تھا۔ اس سے قبل برطانیہ میں ۲۰۱۱؍ میں ایک سیاہ فام شخص کی پولیس کی گولی سے ہوئی موت کے بعد کئی دنوں تک سڑکوں پر ہنگامہ برپا رہا۔