ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہارورڈ کے غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دینے کی اجازت منسوخ کئے جانے کے بعد یونیورسٹی نے وفاقی حکومت پر مقدمہ دائر کیا تھا۔ انتظامیہ کے اس شدید اقدام کے بعد ہارورڈ میں فی الحال زیر تعلیم ۶ ہزار سے زائد بین الاقوامی طلبہ پر دیگر یونیورسٹیوں میں منتقل کئے جانے یا ملک میں ان کی قانونی حیثیت ختم ہونے کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔
ہارورڈ یونیورسٹی ۔ تصویر:ایکس
ہارورڈ یونیورسٹی نے ٹرمپ انتظامیہ کے حالیہ فیصلے کے خلاف مقدمہ دائر کرکے عدالت سے راحت حاصل کرلی ہے جس میں آئیوی لیگ اسکول کی بین الاقوامی طلبہ کو داخلہ دینے کی صلاحیت ختم کر دی گئی۔ نیوز ایجنسی رائٹرز کے مطابق، امریکی ریاست میساچوسٹس کی راجدھانی بوسٹن کی وفاقی عدالت میں دائر کردہ مقدمہ میں ہارورڈ نے ٹرمپ انتظامیہ کے اقدام کو امریکی آئین کی پہلی ترمیم اور دیگر وفاقی قوانین کی "واضح خلاف ورزی" قرار دیا۔ یونیورسٹی نے زور دیا کہ اس فیصلے کا ہارورڈ اور اس کے ۷ ہزار سے زائد ویزا ہولڈر طلبہ پر "فوری اور تباہ کن اثر" پڑا ہے۔
جمعہ کو دائر مقدمہ میں ہارورڈ نے کہا کہ اسے ۷۰ سال سے زائد عرصے سے ایف-ون ویزا پروگرام کے تحت بین الاقوامی طلبہ کو داخلہ دینے کی اجازت حاصل ہے۔ یونیورسٹی نے کہا، "کل، حکومت نے بغیر کسی وجہ کے یہ اجازت اچانک منسوخ کر دی، جس سے ہارورڈ اور ۷ ہزار سے زائد ویزا ہولڈرز شدید متاثر ہوئے ہیں۔ یہ منسوخی پہلی ترمیم، واجب عمل کی شرط اور انتظامی طریق کار کے قانون کی واضح خلاف ورزی ہے۔ حکومت نے ایک قلم کی جنبش سے ہارورڈ کے طلبہ کے ایک چوتھائی حصے، یعنی بین الاقوامی طلبہ کو ختم کرنے کی کوشش کی، جو یونیورسٹی اور اس کے مشن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔"
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ انتظامیہ کی مخالفت کے باوجود محمود خلیل کونوزائیدہ بیٹےکو گلے لگانےکی اجازت
اس سے قبل، ہارورڈ نے حکومت کے فیصلے کو جوابی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ یونیورسٹی کو "شدید نقصان" پہنچانے کی دھمکی ہے۔ ہارورڈ کے صدر ایلن گاربر نے یونیورسٹی کمیونٹی کے نام ایک بیان میں اس اقدام کی مذمت کی اور اسے "غیر قانونی اور ناجائز" قرار دیا۔ انہوں نے بین الاقوامی طلبہ کے ناگزیر کردار پر زور دیا۔ گاربر نے زور دیا کہ بین الاقوامی طلبہ کے بغیر ہارورڈ، ہارورڈ نہیں ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا متنازع فیصلہ
ہارورڈ کا یہ اقدام، ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ہارورڈ کے اسٹوڈنٹ اینڈ ایکسچینج وزیٹر پروگرام (ایس ای وی پی) کے تحت غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دینے کی اجازت منسوخ کئے جانے کے بعد سامنے آیا۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے اجازت منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی ہارورڈ کے ساتھ ہفتوں سے جاری کشمکش میں ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کے بعد ہارورڈ میں فی الحال زیر تعلیم ۶ ہزار سے زائد بین الاقوامی طلبہ کو دیگر یونیورسٹیوں میں منتقل ہونا پڑے گا یا ملک میں ان کی قانونی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ، ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ہارورڈ نے بیرونی سیاسی نگرانی کے مطالبات کی تعمیل نہ کی تو اس پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ انتظامیہ نے کہا تھا کہ اگر ہارورڈ ۷۲ گھنٹوں کے اندر کچھ شرائط پوری کرلے تو یہ پابندیاں واپس لی جا سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ، حالیہ ہفتوں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں پر کیمپس میں یہود دشمنی کو برداشت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ان سے متصادم رہی ہے۔ اس دوران انہیں بجٹ، ٹیکس سے مستثنیٰ حیثیت اور غیر ملکی طلبہ کے داخلے کی اجازت کو ختم کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ نے تارکین وطن کی ملک بدری کو روکنے کیلئے سپریم کورٹ پر تنقید کی، امریکہ کیلئے خطرناک دن قراردیا
وفاقی جج نے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کو روک دیا
ایک وفاقی جج نے ٹرمپ انتظامیہ کے ہارورڈ یونیورسٹی کی بین الاقوامی طلبہ کو داخلہ دینے کی صلاحیت منسوخ کرنے کے فیصلے کو روک دیا ہے۔ یہ فیصلہ ہارورڈ کی طرف سے بوسٹن کی وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کے چند گھنٹوں بعد آیا، جس میں اس اقدام کو امریکی آئین کی "واضح خلاف ورزی" قرار دیا گیا۔ امریکی ڈسٹرکٹ جج ایلیسن بروز نے ہارورڈ کی امریکی انتظامیہ کے حکم پر عارضی روک لگانے کی درخواست منظور کرلی اور محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے حکم کو روک دیا جو تعلیمی سال ۲۶-۲۰۲۵ء سے نافذ ہونے والا تھا۔
۳۸۹ سال پرانی یونیورسٹی نے دلیل دی کہ امریکی انتظامیہ کا فیصلہ "فوری اور ناقابل تلافی نقصان" کا باعث بنے گا۔ ہارورڈ نے انتظامیہ کے اقدامات کو یونیورسٹی کے نظریاتی اور نصابی مطالبات کی تعمیل سے انکار کے خلاف جوابی کارروائی قرار دیا۔ واضح رہے کہ ہارورڈ اس سے قبل بھی ٹرمپ انتظامیہ کو عدالت میں چیلنج کر چکا ہے جب اس نے انتظامیہ کے ذریعے ۳ بلین ڈالر کی وفاقی تحقیقی امداد منجمد کردی تھیں۔