جج نے انتظامیہ کو کسی بھی منصوبہ بند برطرفیوں اور عدالتی حکم کی تعمیل پر مفصل رپورٹ جمعہ تک پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
EPAPER
Updated: October 16, 2025, 8:03 PM IST | Washington
جج نے انتظامیہ کو کسی بھی منصوبہ بند برطرفیوں اور عدالتی حکم کی تعمیل پر مفصل رپورٹ جمعہ تک پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
بدھ کو کیلیفورنیا کے ایک وفاقی جج نے امریکی حکومت کے شٹ ڈاؤن کے دوران ہزاروں سرکاری ملازمین کو نوکری سے نکالنے کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے منصوبے پر روک لگادی پے۔ سان فرانسسکو کے ڈسٹرکٹ جج سوسن الیسٹن نے امریکن فیڈریشن آف گورنمنٹ ایمپلائیز اور امریکن فیڈریشن آف اسٹیٹ، کاؤنٹی اور میونسپل ایمپلائیز کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے حکم امتناعی جاری کیا اور ۳۰ سے زائد وفاقی ایجنسیوں میں ہزاروں ملازمین کی برطرفی کے منصوبے کو روکنے کا حکم دیا۔
جج الیسٹن نے کہا کہ ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے بجٹ ڈائریکٹر رسل وُوٹ کے عوامی بیانات، ان برطرفیوں کے پیچھے سیاسی ارادے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ الیسٹن نے سماعت کے دوران کہا کہ ”آپ قوانین والے ملک میں ایسا نہیں کر سکتے۔ اور ہمارے یہاں (امریکہ میں) قوانین ہیں۔“ واضح رہے کہ ووٹ نے ایک عوامی بیان میں ”ڈیموکریٹ ایجنسیوں“ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: ۲۰۰؍ فیصد ٹیرف کی دھمکی دے کر ہندوستان اور پاکستان کی جنگ روکی: ٹرمپ کا دعویٰ
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے محکمہ انصاف نے دلیل دی کہ یونینوں کو اپنے دعوے لیبر بورڈ میں پیش کرنا چاہئے، لیکن الیسٹن نے اسے مسترد کر دیا اور اس بات پر زور دیا کہ شٹ ڈاؤن کے دوران بڑے پیمانے پر ملازمین کو برطرف کرنا، وفاقی مزدور قوانین اور فنڈنگ قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے ہی ۸ ایجنسیوں کے ۴۱۰۰ سے زائد ملازمین کو برطرفی کے نوٹس بھیج دیئے ہیں۔ ووٹ نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ شٹ ڈاؤن کے دوران دس ہزار سے زائد وفاقی ملازمتیں ختم کی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ، وائٹ ہاؤس نے فوجی اور سیاسی تقرریوں کے علاوہ بھرتیوں پر بھی پابندی میں توسیع کردی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکی صدر ٹرمپ کو مصر میں’نشانِ نیل ‘ ایوارڈ سے نوازا گیا
الیسٹن نے انتظامیہ کو کسی بھی منصوبہ بند برطرفیوں اور عدالتی حکم کی تعمیل پر مفصل رپورٹ جمعہ تک پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔