• Mon, 08 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکی عدالتوں کا ۴۳؍ سال قید کاٹنے والے سبرامنیم ویدام کی ملک بدری پر روک

Updated: November 04, 2025, 8:01 PM IST | Washington

اسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق، امریکہ کی دو علاحدہ عدالتوں نے امیگریشن حکام کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ایک ہندوستانی نژاد سبرامنیم ویدام کو ملک بدر نہ کریں، جو پینسلوینیا میں قتل کے ایک مقدمے میں ۴۳؍ سال قید کاٹنے کے بعد ۲؍اکتوبر کو بےگناہ قرار دیا گیا۔

Subramanyam Vedam.photo: INN
سبرامنیم ویدام۔ تصویر: آئی این این

امریکی خبر رساں ادارے اسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق، امریکہ کی دو علاحدہ عدالتوں نے امیگریشن حکام کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ایک ہندوستانی نژاد شخص کو ملک بدر نہ کریں، جو پینسلوینیا میں قتل کے ایک مقدمے میں ۴۳؍ سال قید کاٹنے کے بعد ۲؍اکتوبر کو بےگناہ قرار دیا گیا۔ ۶۴؍ سالہ سبرامنیم ویدام کو۳؍ اکتوبر کو ریاستی جیل سے رہا کیا گیا، جب ضلع کے اٹارنی کینٹورنا نے اعلان کیا کہ وہ مقدمہ واپس لے رہے ہیں اور نیا ٹرائل نہیں کریں گے۔ تاہم، جیسے ہی وہ جیل سے باہر آیا، امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) نے ویدام کو حراست میں لے لیا، یہ کہتے ہوئے کہ اس کے خلاف۱۹؍ سال کی عمر میں منشیات سے متعلق جرم کا ریکارڈ ہے۔ یہ حکم اس وقت تک معطل تھا جب تک وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: نیویارک سٹی میئر الیکشن: ممدانی انتخابی دوڑ میں آگے، ٹرمپ نے کوومو کی حمایت کی

امیگریشن حکام اب ویدام کو تقریباً۴۰؍ سال پرانے مقدمے کی بنیاد پر ملک بدر کرنا چاہتے ہیں جس میں اس نے ہالو سینی جینک (نشہ آور) دوا کی ترسیل کے الزامات پر نو-کانٹیسٹ (عدم مخالفت) کی درخواست دی تھی۔ اس کے وکلا کا کہنا ہے کہ جیل میں گزارے گئے چار دہائیوں کے دوران جن میں اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور دیگر قیدیوں کو پڑھایا، یہ سب عوامل پرانے مقدمے سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ ویدام اس وقت ایلیگزینڈریا، لوزیانا میں ایک قلیل مدتی امیگریشن حراستی مرکز میں قید ہے جو ملک بدری کیلئے ایک مرکزی مرکز (ڈیپورٹیشن ہب) کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ ایک امیگریشن جج نے گزشتہ ہفتے اس کی ملک بدری پر حکم امتناع (stay order) جاری کیا ہے، جب تک کہ امیگریشن اپیل بورڈ یہ فیصلہ نہ کر لے کہ کیس کا جائزہ لینا ہے یا نہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: امریکہ کرپٹو کرنسی میں بھی چیمپئن بن جائے گا: ٹرمپ

اے پی کے مطابق، یہ پورا عمل کئی مہینے جاری رہ سکتا ہے۔ ویدام کے وکلا نے پینسلوینیا کی ایک وفاقی عدالت سے بھی الگ حکم امتناع حاصل کیا ہے۔ ویدام ۱۹۶۲ء میں اپنے والدین کے ساتھ ہندوستان سے امریکہ آیا تھا، اس وقت اس کی عمر صرف نو ماہ تھی۔ اسے۱۹۸۲ءمیں اپنے دوست۱۹؍ سالہ تھامس کنسر کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ کنسر دسمبر۱۹۸۰ء میں لاپتہ ہوا تھا اور اس کی نعش ستمبر۱۹۸۱ءمیں ملی، جس کی کھوپڑی میں گولی کا نشان پایا گیا۔ استغاثہ نے الزام لگایا تھا کہ ویدام نے ۲۵؍ کیلبر پستول سے کنسر کو گولی ماری، تاہم، ہتھیار کبھی برآمد نہیں ہوا۔ ویدام کو ۱۹۸۳ءاور۱۹۸۸ءمیں دو مرتبہ مجرم قرار دیا گیا اور عمر قید بغیر پیرول کی سزا سنائی گئی۔ تاہم، ۲۰۲۲ء میں، غیر منافع بخش تنظیم پینسلوینیا انوسنس پروجیکٹ سے منسلک وکلا کو ایف بی آئی کی ایک رپورٹ سمیت کئی دستاویزات ملیں جن سے معلوم ہوا کہ کنسر کی کھوپڑی میں گولی کا سوراخ۲۵؍ کیلبر گولی کے مطابق نہیں تھا یعنی وہ ہتھیار ہی مختلف تھا۔ اسی بنیاد پر اگست میں سینٹر کاؤنٹی کورٹ آف کامن پلیز نے ویدام کی سزا منسوخ کر دی اور کہا کہ’’اگر یہ شواہد اس وقت دستیاب ہوتے، تو ممکن تھا کہ جیوری کا فیصلہ مختلف ہوتا۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: ہم نے۶۰؍فیصد جنگوں کو ٹیریف کی دھمکی دے کر ختم کروایا ہے، امریکی صدرٹرمپ کا دعویٰ

۲؍ اکتوبر کو ڈسٹرکٹ اٹارنی کینٹورنا نے اعلان کیا کہ مقدمہ مکمل طور پر ختم کیا جا رہا ہے اور نیا ٹرائل نہیں ہو گا۔ پیر کو ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیوریٹی کے ترجمان نے کہا کہ قتل کے مقدمے کی منسوخی سے پرانے منشیات کے جرم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اے پی کے مطابق، پبلک افیئرز کی اسسٹنٹ سیکریٹری تریشا میکلافلن نے کہا:’’کسی ایک مقدمے کا ختم ہو جانا آئی سی ای کو وفاقی امیگریشن قوانین پر عمل درآمد سے نہیں روکتا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK