امریکہ میں فلسطین حامی محمود خلیل کو جج کے فیصلے پر ۱۰۴؍ دن بعد حراستی مرکز سے رہا کیا گیا۔ اس موقع پر محمود نے کہا کہ ’’انصاف ملا مگر اس میں تین مہینے نہیں لگنے چاہئے تھے۔‘‘
EPAPER
Updated: June 21, 2025, 6:08 PM IST | Washington
امریکہ میں فلسطین حامی محمود خلیل کو جج کے فیصلے پر ۱۰۴؍ دن بعد حراستی مرکز سے رہا کیا گیا۔ اس موقع پر محمود نے کہا کہ ’’انصاف ملا مگر اس میں تین مہینے نہیں لگنے چاہئے تھے۔‘‘
لسطینی کارکن اور کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ طالب علم محمود خلیل کو اس عدالتی فیصلے کے بعد جس نے امریکی حکومت کی قانونی بنیادوں پر ان کی مسلسل قید پر سخت تنقید کی تھی، ۱۰۴؍ دن وفاقی امیگریشن حراست سے رہا کر دیا گیا ہے۔ خلیل، جو یو ایس کیمپس میں فلسطین حامی طلبہ کے احتجاج کا ایک نمایاں چہرہ بن چکے ہیں، جمعہ کو لوزیانا میں ایک حراستی مرکز سے باہر نکلے۔ توقع ہے کہ وہ اپنی اہلیہ اور نوزائیدہ بیٹے سے ملنے نیویارک جائیں گے۔ خلیل نے رہائی کے بعد کہا کہ ’’انصاف غالب آ گیا، لیکن اسے بہت دیر ہوئی۔ اس میں تین مہینے نہیں لگنے چاہئے تھے۔‘‘ واضح رہے کہ نیو جرسی میں امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ نے خلیل کی رہائی کا حکم اس وقت دیا جب جج مائیکل فاربیارز نے کہا کہ حکومت مسلسل نظربندی کے قانونی معیارات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے۔ جج نے یہ بھی کہا کہ ایک قانونی امریکی باشندے کو حراست میں رکھنا کسی طور درست نہیں ہے، خاص طور پر جب اس پر کوئی تشدد بھڑکانے کا ثبوت نہیں ہے۔
🚨🇵🇸A PEOPLE`S VICTORY – Mahmoud Khalil is free! Thanks to the countless people across the country and around the world who raised their voice, the Trump administration has been forced to release Mahmoud and allow him to return to his family!
— Party for Socialism and Liberation (@pslnational) June 21, 2025
Trump wanted to make an example out… pic.twitter.com/JWVRFeYbq7
یہ بھی پڑھئے:ایران اسرائیل تنازع:پوتن نے ایران کے پُرامن جوہری پروگرام کی حمایت کی
امریکی انتظامیہ نے جج پر حد سے تجاوز کرنے کا الزام لگایا۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے خلیل کو ملک بدر کرنے کے دباؤ کی قیادت کی ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ غیر شہریوں کو یکساں آئینی تحفظات حاصل نہیں ہیں اور خلیل کی سرگرمی کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل مخالف مظاہروں میں شرکت سام دشمنی کے مترادف ہے اور ملک بدری کی بنیاد ہے۔ شہری حقوق کے گروپ اس فریمنگ کو مسترد کرتے ہیں، یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش میں نفرت انگیز تقریر کے ساتھ اسرائیلی پالیسی کی تنقید کو جوڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:اسرائیل کا میزائل دفاعی نظام کس طرح کام کرتا ہے اور یہ کب تک مؤثر رہےگا؟
اس ضمن میں خلیل نے کہا کہ ’’حکومت کے اس عمل نے امریکہ کے بارے میں ایک مختلف حقیقت سے روشناس کرایا جو انسانی حقوق اور آزادی اور انصاف کا علمبردار ہے۔ انصاف غالب رہے گا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ انتظامیہ کچھ بھی تصویر کشی کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ ان کی اہلیہ، ڈاکٹر نور عبد اللہ نے کہا کہ اس فیصلے نے انہیں راحت کا سانس لینے کی اجازت دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہمارے خاندان اور بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کرنا شروع نہیں کرتا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ خلیل، صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے خلاف طلبہ کے احتجاج پر کریک ڈاؤن کے تحت گرفتار ہونے والے پہلےشخص تھے۔ انہیں ۸؍ مارچ کو مین ہٹن میں ان کے اپارٹمنٹ سے حراست میں لیا گیا تھا۔