Inquilab Logo

جہد مسلسل سےعظمیٰ شیخ نے نامساعد حالات کو شکست دی اور سب انسپکٹر کا عہدہ حاصل کیا

Updated: April 10, 2024, 1:41 AM IST | Shaikh Akhlaq Ahmad | Mumbai

ماں گھر گھر جا کر کام کیا کرتی تھیں تو عظمیٰ خود دوسروںکو مہندی لگا کر اپنے تعلیم کے اخراجات پورے کرتی تھیں، مگر کبھی ان کے امتحانات کے نتائج پر اس کا اثر نہیں پڑا۔

Sub-Inspector Uzmi Shaikh. Photo: INN
سب انسپکٹر عظمی شیخ۔ تصویر : آئی این این

بیڑ ضلع کے آشٹی سے تعلق رکھنے والی عظمیٰ شیخ  نے مسلسل جدوجہد کے بعد سب انسپکٹر جیسا اہم عہدہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ عظمیٰ کی زندگی جہد مسلسل کی عمدہ مثال ہے۔ وہ صرف ۳؍ یا ۴؍ ماہ کی تھیں کہ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والدہ نے گھر گھر کام کرکے  انہیں پڑھایا لکھایا اور ان کی پرورش کی۔  عظمیٰ کا تعلیمی آشٹی کےمیں واقع  ضلع پریشد کنیا پرشالہ مراٹھی   سے شروع ہوا۔ ۲۰۱۲ء میں  انہوں نے  ۷۴؍فیصد مارکس لے کر ایس ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ معاشی مجبوری کے  سبب ۲؍سال کا وقفہ لینا پڑا۔ اس دوران عظمیٰ نے مہندی  کلاس چلانے لگیںاور اس قلیل آمدنی سے آگے کی پڑھائی کی۔۲۰۱۶ء میں انہوں ۷۷؍ فیصد مارکس لے کر آرٹس فیکلٹی سے ۱۲؍ویں کا امتحان پاس کیا۔پھر اسی   کالج سے ۲۰۱۹ء میں ۷؍مارکس لے کر کمپیوٹر ایپلی کیشن میں گریجویشن کیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: باندرہ : ہل روڈ کو ’ ہاکر فری‘ کرانے میں مقامی افراد کامیاب

 عظمیٰ نے انقلاب کو بتایا کہ  جب وہ ۱۲؍ ویں میںتھیں تو  کالج کے پروگرام میں علاقے کے سینئر انسپکٹر تشریف لائے تھے۔ تب ان کی   وردی کی عظمت و وقار کا علم ہوا۔ پھر اپنے گائوں آشٹی ہی میں  ایک پولیس انسپکٹر سے ملاقات ہوئی جو دور کے رشتے دار تھے۔ ان سے ملنے کے بعد پولیس محکمے اور ان کی ذمہ داریوں کے تعلق سے بہت سی باتیں معلوم ہوئی  مجھے بھی پولیس افسر بننے کا خیال آیا۔کالج کے ایک استاد نے اس معاملے میں رہنمائی کی۔  حالانکہ پولیس انسپکٹر بننے کیلئے پونے جانے کے نام پر مجھے تھوڑی ہچکچاہٹ محسوس ہوئی  کیونکہ مالی حالات بھی اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ لیکن میرے پھوپھی زاد بھائیوں اور  ایک خالہ زاد بہنوئی نے مدد کی۔ 
 یو ں  میں ۲۰۱۹ء  میں پونے آئی یہاں مختلف کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کا جائزہ لیا اور کم سے کم کرایے والا ہاسٹل تلاش کیا۔  مگر ایک سال بعد کورونا کی وجہ سے مجھے اپنے  گھر آشٹی لوٹنا پڑھا۔ یہاں لائبریری جوائن کی چونکہ میں پونے سے آئی تھی اور ڈر کا ماحول تھا۔ کورونا کی معمولی علامتوں کے سبب طلبہ نے میری شکایت لائبریری انچارج سے کر دی اور انہوں نے میرا لائبریری میں داخلہ ممنوع کر دیا۔  چھوٹا سا گھر تھا جس کا آدھا حصہ میونسپلٹی کے سڑک کشادگی کے پروجیکٹ  کی زد میں آگیا تھا، چھوٹے سے گھر میں بہ حالت مجبوری باتھ روم کے پاس چھوٹی سی جگہ کو اپنا گوشہ بنایا اور سیلف اسٹڈی کی بنیاد پر پڑھائی کا آغاز کیا۔ ۲۰۲۰ء کی پہلی ہی کوشش میں ایم پی ایس سی پریلیم امتحان میں کامیابی ملی،کورونا کے اثرات کم ہونے پر مینس کی تیاری کیلئے  دوبارہ پونہ آئی کرونا کی وجہ سے امتحان تاخیر سے ہوئے تھے اللہ کا شکر ہے مینس بھی کلیئر ہوا۔ سخت محنت سے فزیکل ٹیسٹ کی تیاری کی جس  میں مجھے ۱۰۰؍ میں سے ۹۰؍   مارکس  حاصل ہوئے ۔ اب صرف انٹرویو باقی تھا۔ پہلا موقع تھا نروس بریک ڈاؤن کی وجہ سے بہت اچھا نہیں کر پائی اور صرف ایک نمبر کم ملنے کے باعث میں فائنل کٹ آف لسٹ سے باہر ہوگئی۔ بہت دل برداشتہ ہوئی۔ چونکہ اوپن کیٹیگری سے تھی۔ کم آمدنی کے گروپ میں ہونے کے باوجود والد کے دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے ای ڈبلیو ایس سرٹیفکیٹ نہیں بن پایا تھا جسکا بہت افسوس ہوا۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری کیونکہ میرا نام ویٹنگ لسٹ میں تیسرے نمبر پر تھا مزید معلومات حاصل کرنے پر علم ہوا کے اس فہرست کے کنفرمیشن کے زیادہ مواقع ہیں۔ امید کی کرن جاگی لیکن رسک لینے کے بجائے میں دوبارہ امتحان کی تیاری شروع کی۔ اس بار پریلیم میں کامیابی ملی مینس میں ناکامی ہاتھ لگی۔ لیکن اسی دوران الحمد للہ میری ویٹنگ لسٹ کنفرم ہوگئی اور اب ۱۱؍ ماہ کی ٹریننگ پیریڈ کے بعد مجھے پولیس سب انسپکٹر کا عہدہ حاصل ہوگا۔ طلبہ کے نام عظمیٰ کا پیغام  ہے کہ
 عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا 
کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا
  وہ کہتی ہیں کہ ’’اپنی کامیابی کو میں اپنی والدہ سے منسوب کرنا چاہوں گی، جنھوں نے تنگدستی میں بھی مجھے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ ’جہاں چاہ وہاں راہ‘ کے مصداق امی کو ایک مدرسہ میں بچوں کے تین وقت کے کھانا اور بنانے کا کام مل گیا تھا جس سے ہونے والی آمدنی کا مجھے ایم پی ایس سی کو تیاری میں سہارا ملا۔ میں شادی اور تہواروں میں گھر گھر جاکر مہندی لگاتی تھی جس کی قلیل آمدنی سے میں نے کالج اور اسٹڈی کیلئے درکار اسٹڈی مٹیریل خریدا۔ پونہ میں ہاسٹل لائف کے دوران میس کی چھٹی کے دن پیسہ بچانے کیلئے وڑا پاؤ پر گزارا کرتی تھی تاکہ کم خرچ میں کام چل جائے۔ چاہت کے باوجود زیب و زینت کو فضول خرچی جانا۔ ٹین کے شیڈ میں رہ کر تعلیم کو فوقیت دی۔ امی کو بلاوجہ کسی چیز کے لئے پریشان نہیں کیا۔ پردھان منتری آواس یوجنا کی وجہ سے گھر ٹوٹ گیا پڑھائی ترک نہیں کی بلکہ کرائے کے مکان میں کر پڑھائی جاری رکھی۔چونکہ میں نے اپنے لئے ایک ہدف  مقرر کیا تھا  پولیس سب انسپکٹر بننے کا اور اسکے حصول کی خاطر ہر شےکو قربان کیا۔ تب جا کر آج میں کامیابی کی خوشی کو محسوس کر رہی ہوں۔  آپ کے پاس سب کچھ ہے۔ میں بالخصوص لڑکیوں سے کہنا چاہوں گی کہ وہ سرکاری نوکریوں کی جانب راغب ہوں جہاں بے شمار مواقع انکے منتظر ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK