ٹیڈروس نے زور دیا کہ غزہ جنگ، اسرائیل کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے اور اس سے کوئی مستقل حل برآمد نہیں ہوگا۔ صرف سیاسی حل ہی خطہ میں دیرپا امن لا سکتا ہے۔ امن کی اپیل اسرائیل کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔ انہوں نے اسرائیل سے اپیل کی کہ وہ رحم کا مظاہرہ کرے۔ یہ اس کیلئے، فلسطینیوں کیلئے اور پوری انسانیت کیلئے اچھا ہے۔
ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس۔ تصویر: آئی این این
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے اسرائیل سے غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے اور فلسطینیوں پر رحم کا مظاہرہ کی اپیل کی ہے۔ جمعرات کو ڈبلیو ایچ او کی سالانہ اسمبلی میں جذباتی تقریر کرتے ہوئے ٹیڈروس نے کہا کہ امن نہ صرف فلسطینیوں بلکہ اسرائیل کے اپنے مفاد میں بھی فائدہ مند ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزہ جنگ، اسرائیل کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے اور اس سے کوئی مستقل حل نہیں نکلے گا۔
ٹیڈروس نے پرنم آنکھوں کے ساتھ کہا، "میں غزہ کے لوگوں کی تکالیف کو محسوس کر سکتا ہوں۔ میں اسے دیکھ سکتا ہوں، اس کے بارے میں سوچ سکتا ہوں۔ اس کی وجہ، جنگی حالات کے میرے اپنے تجربات ہیں، جو پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کے باعث مجھے یاد ہیں۔" ۶۰ سالہ لیڈر نے کہا، "غزہ میں خوراک اور طبی سامان کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جو بالکل غلط ہے۔" ڈبلیو ایچ او سربراہ نے زور دیا کہ غزہ جنگ، اسرائیل کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے اور اس سے کوئی مستقل حل برآمد نہیں ہوگا۔ صرف سیاسی حل ہی خطہ میں دیرپا امن لا سکتا ہے۔ امن کی اپیل اسرائیل کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔ انہوں نے اسرائیل سے اپیل کی کہ وہ رحم کا مظاہرہ کرے۔ یہ اس کیلئے، فلسطینیوں کیلئے اور پوری انسانیت کیلئے اچھا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: صہیونی حکومت نےتو ناکہ بندی ختم کر دی لیکن اب اسرائیلی باشندے غزہ جانے والی امداد کو روک رہے ہیں
غزہ کی منظم تباہی
اقوام متحدہ (یو این) نے جمعرات کو غزہ میں ۹۰ ٹرکوں پر مشتمل امداد کی تقسیم کا آغاز کر دیا ہے جو ۲ مارچ سے جاری غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد محصور علاقے میں داخل ہونے والی پہلی امداد ہے۔ لیکن یو این کے انسانی ہمدردی کے ڈائریکٹر ٹام فلیچر نے "اسے سمندر میں ایک قطرے" کے برابر قرار دیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ غزہ میں فلسطینی خوراک، پانی، طبی سامان، ایندھن اور رہائش کی شدید قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے چار بڑے اسپتالوں کو جنگی کارروائیوں کی وجہ سے طبی خدمات کی فراہمی معطل کرنی پڑی۔ غزہ کے ۳۶ اسپتالوں میں سے صرف ۱۹ اسپتال فعال ہیں جو "ناممکن حالات" میں کام کر رہے ہیں۔ ادارے نے مزید بتایا کہ غزہ میں ۹۴ فیصد اسپتال تباہ یا نقصان کا شکار ہیں، جبکہ شمالی غزہ میں صحت کی سہولیات تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ پورے علاقے میں صرف ۲ ہزار اسپتال بیڈز باقی ہیں جو موجودہ ضروریات کے لحاظ سے بالکل ناکافی ہیں۔ بیان میں کہا گیا، "یہ تباہی منظم ہے۔ اسپتالوں کو بحال کیا جاتا ہے، لیکن وہ دوبارہ حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس تباہ کن سلسلے کو روکنا ہوگا۔"
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں امداد کے داخلے کی اجازت دی جائے: پوپ لیو چہاردہم
ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی ڈائریکٹر مائیکل ریان نے کہا کہ غزہ میں ۲۱ لاکھ لوگ موت کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہمیں بھوک کو ختم کرنا ہوگا، تمام یرغمالیوں کو رہا کرانا ہوگا اور نظام صحت کو دوبارہ بحال کرنا ہوگا۔" ایک سابق یرغمال کے طور پر، انہوں نے زور دیا کہ تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جانا چاہئے کیونکہ ان کے خاندان شدید تکلیف میں ہیں۔
محصور آبادی کی نسل کشی
اسرائیلی فوج، اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ میں فلسطینیوں کی منصوبہ بند نسل کشی کر رہی ہے۔ اس کی جنگی کارروائیوں میں تقریباً ۶۴ ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ تقریباً ۱۱ ہزار مہلوکین کی لاشیں تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہونے کا امکان ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں اصل ہلاکتوں کی تعداد ۲ لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے۔ اسرائیل نے بین الاقوامی برادری کے مطالبات کے باوجود جنگ بندی سے انکار کیا ہے۔ گزشتہ سال، نومبر میں عالمی فوجداری عدالت اسرائیلی وزیراعظم بنجامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت مخالف جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کر چکی ہے۔ اسرائیل، عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا کررہا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فوج نے وحشیانہ کارروائیوں کے ذریعے قیامت ڈھائی ہے۔ جنگی کارروائیوں کے ذریعے محلے مٹا دیئے گئے، اجتماعی قبروں میں کئی کئی فلسطینیوں کو دفن کیا گیا، قبرستانوں کی بے حرمتی کی گئی، بازاروں اور دکانوں کو بموں سے اڑایا گیا، اسپتال اور مردہ خانے نیست ونابود کر دیئے گئے، ٹینکوں اور بلڈوزرز سے لاشوں کو کچلا گیا، فلسطینی قیدیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہیں نقلی سزائے موت دی گئی اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کیا گیا۔ نسل کشی کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا، ان کے بچوں کے سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلنے کے دعوے کئے۔ انٹرنیٹ پر وائرل ہوئے ویڈیوز میں اسرائیلی فوجی، فلسطینیوں کے گھروں کو لوٹتے، بچوں کے بستروں کو تباہ کرتے، گھروں کو آگ لگاتے اور فلسطینیوں کے کپڑے پہن کر یا بچوں کے کھلونے چوری کر کے ان کا مذاق اڑاتے دکھائی دیئے۔ یہ ویڈیوز فوجیوں نے خود براہ راست نشر کیں۔ فلسطین کو مٹانے کی کوشش میں اسرائیلی فوج نے ریکارڈ تعداد میں بچوں، ڈاکٹروں، کھلاڑیوں اور صحافیوں کو شہید کیا جس کی مثال اس صدی کی کسی بھی جنگ میں نہیں ملتی۔
یہ بھی پڑھئے: نیتن یاہو کا غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرلینے کا دعویٰ؛ ٹرمپ کے ساتھ دراڑ کی قیاس آرائیوں کو مسترد کیا
اسرائیل کے سابق فوجی جنرل یائر گولان نے رواں ہفتے تل ابیب پر فلسطینی بچوں کو کھیل کے طور پر قتل کرنے اور لاکھوں فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کی کوشش کا الزام لگایا۔ انہوں نے منگل کو اسرائیل کے عوامی نشریاتی ادارے کان کو بتایا، "اسرائیل ایک منفور ریاست بننے کی راہ پر ہے، جیسے بیسویں صدی کا جنوبی افریقہ۔ ایک عقلمند ملک شہریوں پر جنگ مسلط نہیں کرتا، بچوں کو شوق کیلئے قتل نہیں کرتا اور آبادیوں کو بے دخل کرنے کے منصوبے نہیں بناتا۔"