ممدانی کا پیغام ہے کہ اُن معاشی اور اخلاقی مسائل کا سامنا کیا جائے جو امریکی عوام کو درپیش ہیں، امیر طبقے کے لالچ اور طاقت کو چیلنج کیا جائے اور محنت کش خاندانوں کی زندگی بہتر بنا نے کا ایجنڈا تیار کیا جائے۔
EPAPER
Updated: July 02, 2025, 11:49 AM IST | New York
ممدانی کا پیغام ہے کہ اُن معاشی اور اخلاقی مسائل کا سامنا کیا جائے جو امریکی عوام کو درپیش ہیں، امیر طبقے کے لالچ اور طاقت کو چیلنج کیا جائے اور محنت کش خاندانوں کی زندگی بہتر بنا نے کا ایجنڈا تیار کیا جائے۔
ڈیموکریٹک پارٹی ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔یہ پارٹی چاہے تو ان پالیسیوں کو جاری رکھ سکتی ہے جو ایک ٹوٹی پھوٹی اور ناانصافی پر مبنی معیشت اور سیاسی نظام کو برقرار رکھتی ہیں۔ یہ پالیسیاں اُن۶۰؍ فیصد امریکیوں کے درد کو نظرانداز کرتی ہیں جو بمشکل ایک تنخواہ سے دوسری تنخواہ تک گزربسر کرتے ہیں۔ یہ پارٹی نوجوان نسل کے خوابوں سے منہ موڑ سکتی ہے — وہ نسل جو اس بوسیدہ نظام کو نہ بدلے جانے پر اپنے والدین سے بھی بدتر زندگی گزارے گی۔یہ پارٹی چاہے تو ارب پتی عطیہ دہندگان اور عوام سے دور انتخابی مشیروں پر اپنا انحصار جاری رکھ سکتی ہے اور لاکھوں ڈالر کےان بے اثر۳۰؍ سیکنڈ کے اشتہارات پر خرچ کر سکتی ہے جنہیں اب شاید ہی کوئی دیکھتا ہو۔یہ پارٹی چاہے تو اس تلخ حقیقت کو نظرانداز کر سکتی ہے کہ کروڑوں امریکی جمہوریت سے مایوس ہو چکے ہیں کیونکہ وہ اپنی حکومت کو نہ اپنی مشکلات سمجھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور نہ ہی ان کے حل کیلئے کچھ کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
یا پھریہ پارٹی ظہران ممدانی کی انتخابی مہم سے سبق سیکھ سکتی ہے جیسا کہ ہم نے گزشتہ منگل کو دیکھا ہےاور وہ سبق یہ ہے:ہمت کے ساتھ اُن معاشی اور اخلاقی مسائل کا سامنا کیا جائے جو عوام کی اکثریت کو درپیش ہیں، امیر طبقے کے لالچ اور طاقت کو چیلنج کیا جائے اور ایک ایسا ایجنڈا اختیار کیا جائے جو محنت کش خاندانوں کی زندگی بہتر بنا سکے۔
اب کچھ لوگ کہیں گے کہ ظہران ممدانی کی (نیویارک میئر پرائمری الیکشن میں)فتح محض ان کی پراثر شخصیت اورمسحورکن انداز کی وجہ سے ہوئی ہے — کیونکہ وہ ایک کرشماتی امیدوار ہیں۔ درحقیت ممدانی کی شخصیت اثردار ہے لیکن ان کی کامیابی اُس زبردست عوامی تحریک کے بغیر ممکن نہ تھی جو اُن کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی اور یہ تحریک ہزاروں پرجوش کارکنوں کے گھرگھر جا کر مہم چلائے بغیر کامیاب نہیں ہوتی، اگر ان کے پاس ایسا معاشی ایجنڈا نہ ہوتا جو محنت کش عوام کی ضروریات سے جڑا نہ ہوتا۔
نیویارک کے باشندوں کے ساتھ ساتھ تمام امریکی متفکر ہیں کہ دنیا کے سب سے امیر ملک میں روزمرہ کی بنیادی ضروریات پوری کرنا ایک جنگ کیوں بنتا جارہا ہے؟ جہاں دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا ، کرایوں کی ادائیگی کرنا ، یا علاج کے اخراجات اٹھانا بوجھ کیوں ہوگیا ہے؟ یہی وہ عام طبقہ ہے جس کے متعلق ڈیموکریٹک پارٹی کے صلاح کار شاید کچھ جانتے ہی نہیں۔
ظہران ممدانی کو اُن کے ’انتہا پسند‘ اور ’غیر حقیقت پسندانہ ‘ معاشی نظریات کیلئے ہدف تنقید بنایا گیا، ممدانی نے یہ کہا کہ خطیر آمدنی اور بے پناہ دولت کی عدم مساوات کے اس دور میں امراء اور کارپوریٹ کمپنیوں کو اپنا جائز ٹیکس دینا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب نیویارک کے باشندے مناسب کرایہ پر گھر نہیں ڈھونڈ سکتے، تو کرایے میں اضافہ پر روک لگادی جائے۔ممدانی کہتے ہیں کہ جب روزانہ کا سفر مزدوروں کی تنخواہ کھا جاتا ہے، تو پبلک ٹرانسپورٹ مفت ہو نا چا ہئے۔ان کا یہ بھی مطالبہ کہ جب غریب اور محنت کش خاندان اچھا کھانا ’اَفورڈ‘ نہیں کر سکتے تو سرکاری ملکیت والے کرانہ اور فوڈاسٹور قائم جائیں۔میری نظر میں تو یہ اور اس طرز کے خیالات ہرگزانتہا پسند نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ امریکہ کے ارب پتیوں، امیر عطیہ دہندگان ، یا رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاروں کو پسند نہ آئیں — لیکن یہی وہ باتیں ہیں جو عوام چاہتے ہیں اور شاید اب وقت آ گیا ہے کہ ہم عوام کی بات سنیں۔
ظہران ممدانی کی فتح کسی’اسٹار پاور‘ کی جیت نہیں یہ ’عوامی طاقت‘ کی فتح تھی، جمہوریت کو زندہ کرنے کی کوشش تھی اور عام لوگوں کو اُن فیصلوں پر اختیار دلانے کا مطالبہ تھا جو اُن کی زندگیوں پر براہ راست اثر ڈالتے ہیں۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ممدانی نے اُس اخلاقی مسئلے سے بھی منہ نہیں موڑا جو نیویارک سمیت پورے امریکہ کے لاکھوں شہریوں کو بے چین کئے ہوئے ہے اور وہ ہے اسرائیل کے دائیں بازو کی انتہا پسند نیتن یاہو حکومت کو دی جانے والی امریکی فوجی مدد کا خاتمہ —، وہ حکومت جو غزہ کے عوام کی نسل کشی کررہی اور ان کے بچوں کو بھوکا مار رہی ہے۔ ممدانی بخوبی جانتے ہیں کہ یہود دشمنی (Antisemitism) ایک نفرت انگیز اور خطرناک نظریہ ہے لیکن نیتن یاہو حکومت کی غیر انسانی پالیسیوں پر تنقید کرنا ہرگز یہود دشمنی نہیں ہے۔
ممدانی کی انتخابی مہم کا سبق یہ ہے کہ صرف ٹرمپ اور اُن کی پالیسیوں پر تنقید کرنا کافی نہیں۔ ہمیں ایک مثبت ویژن اور موجودہ حالات کےگہری فہم کے ساتھ آگے آنا ہوگا۔ محض اس ناکام نظام کو برقرار رکھنا کافی نہیں جو عوام کی اکثریت کے لئے کچھ نہیں کرتا۔ ایسے وقت میں جب امیدیں دم توڑ رہی ہوں تو لوگوں کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ اگر ہم متحد ہوں، طاقتور مفادات کا سامنا کرنے کی ہمت رکھیں تو ہم ایک بہتر دنیا بنا سکتے ہیں — ۔ ایسی دنیا جو معاشی، سماجی، نسلی اور ماحولیاتی انصاف پر مبنی ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ڈیموکریٹک پارٹی کی موجودہ قیادت ظہران ممدانی کی انتخابی مہم سے سبق سیکھے گی؟ شاید نہیں۔بہت سے لیڈر ایسے ہیں جو ڈوبتے جہاز کے کپتان بنے رہنا پسند کریں گےلیکن سمت بدلنے کو تیار نہیں ہوں گے۔لیکن شاید اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیا سوچتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے ممدانی کے خلاف اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے،سپرپی اے سی ( پولیٹکل ایکشن کمیٹی ) کے ذریعہ لاکھوں ڈالر لگادئیے گئے، امپورٹیڈ بڑے ناموں کی حمایت لے لی ، دشمن میڈیا کو کھڑا کردیا — لیکن پھر بھی وہ ہار گئے اور آگے بھی ہاریں گے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کا مستقبل اُس کی موجودہ قیادت طے نہیں کرے گی۔ یہ فیصلہ اس ملک کا محنت کش طبقہ کرے گا۔ لوگ اب سمجھنے لگے ہیں کہ سیاسی نظام کرپٹ ہے اور ارب پتیوں کو انتخابات خریدنے کی اجازت نہیں ہونی چا ہئے۔ وہ جانتے ہیں کہ دولت کی اتنی نابرابری نہیں ہونی چا ہئے،ہر شہری کو مفت صحت کی سہولت ملنی چاہیے،اعلیٰ تعلیم پر آمدنی کی بنیاد پر پابندی نہیں ہونی چا ہئے، سستی رہائش کا بحران ختم ہونا چاہئے،کم از کم تنخواہ اتنی کم نہیں ہونی چاہیے کہ انسان بھوکا مرجائے،کمپنیوں کو مزدوروں کی یونین بنانے سے غیرقانونی طور پر روکنے کی اجازت نہیں ہونی چا ہئے — اور بھی بہت کچھ ہے۔امریکی عوام بیدار ہونے لگے ہیں اور وہ اپنے حق کیلئے لڑرہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ میں ہر جگہ اشرافیہ مخالف تحریکیں زور پکڑرہی ہیں، ہم نے یہ’نوکنگز ریلیوں(کوئی بادشاہ نہیں)‘ میں بھی دیکھا جو اس مہینے تقریباً ہر ریاست میں منعقد ہوئیں اور ہم نے یہ نیویارک سٹی میں ڈیموکریٹک پرائمری انتخاب میں بھی دیکھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں اور اب ہمیں کوئی روک نہیں سکتا۔
(مضمون نگار امریکی کانگریس کے رکن ہیں اور ٹرمپ کے سخت ناقدین میں سے ایک ہیں۔ بشکریہ: دی گارجین)