Updated: December 18, 2025, 3:15 PM IST
| Amsterdam
نیدرلینڈز میں پانچ سال بعد غربت کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور نصف ملین سے زائد افراد اس سے متاثر ہیں۔ توانائی الاؤنس کے خاتمے کو اس اضافے کی بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ غربت کا شکار افراد میں بڑی تعداد کام کرنے والوں کی ہے جبکہ صحت اور متوقع عمر پر بھی اس کے منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔ حکام کو امید ہے کہ آئندہ برسوں میں غربت کم ہو سکتی ہے، تاہم معاشی حالات غیر یقینی ہیں۔
نیدرلینڈز کے قومی ادارۂ شماریات کی جانب سے بدھ کو جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں گزشتہ سال پانچ لاکھ سے زائد افراد غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہ صورتحال گزشتہ پانچ برسوں کے دوران غربت میں مسلسل کمی کے بعد پہلی مرتبہ اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ شماریات نیدرلینڈز (سی بی ایس) کے مطابق، غربت میں اس اضافے کی ایک بڑی وجہ توانائی الاؤنس کا خاتمہ ہے، جو توانائی کے بحران کے دوران ایک عارضی امدادی اقدام کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔ کئی سال سے غربت میں کمی کے بعد اس سہولت کے ختم ہونے سے دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔
یہ بھی پڑھئے: برلن، جرمنی: فلسطینیوں سے یکجہتی کیلئے ’’ٹارچ لائٹ مارچ‘‘
سی بی ایس، نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار فیملی فنانس انفارمیشن اور سوشل اینڈ کلچرل پلاننگ آفس نے مشترکہ طور پر غربت کی ایک نئی تعریف متعارف کرائی ہے۔ اس تعریف کے تحت وہ افراد غریب تصور کئے جاتے ہیں جن کے پاس رہائش، توانائی اور صحت کی دیکھ بھال جیسے بڑے مقررہ اخراجات ادا کرنے کے بعد دیگر بنیادی ضروریات کیلئے کافی آمدنی باقی نہ بچے۔ گزشتہ سال کے آخر میں نظرثانی شدہ حسابی طریقہ کار کے تحت ابتدائی طور پر ۲۰۲۳ء میں غربت میں کمی ظاہر کی گئی تھی، تاہم سی بی ایس کا کہنا ہے کہ توانائی الاؤنس کے خاتمے کے باعث گزشتہ سال غربت میں دوبارہ اضافہ ہوا۔ ان متاثرہ افراد میں ایک لاکھ ۳۰؍ ہزار سے زائد لوگ ایسے ہیں جو کم از کم تین سال سے مسلسل غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: برازیل میں اسٹیچو آف لبرٹی جیسا مجسمہ طوفان کے سبب گر پڑا
گزشتہ برسوں میں غربت میں جزوی کمی کی وجوہات میں توانائی الاؤنس، ۲۰۲۳ء میں کم از کم اجرت میں اضافہ، اور تقریباً ۶؍ لاکھ گھرانوں کیلئے نسبتاً کم کرایہ شامل تھے۔ اس کے علاوہ، کورونا وبا کے دوران دی گئی عارضی حکومتی امداد نے بھی غربت کی سطح کم رکھنے میں مدد کی۔ سی بی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق، غربت میں زندگی گزارنے والوں کا سب سے بڑا طبقہ اب کام کرنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ متاثرہ افراد میں سے ۴۸؍ فیصد کی آمدنی ملازمت سے آتی ہے، جبکہ ۲۹؍ فیصد سماجی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کی غزہ میں امن منصوبے کی خلاف ورزیوں کی جانچ کی جا رہی ہے
سی بی ایس کے چیف اکنامسٹ پیٹر ہین وان ملیگن نے کہا کہ غربت کا شکار افراد میں بڑی تعداد کام کرنے والوں کی بھی ہے۔ ان کے مطابق، اس گروہ میں اکثر خود ملازمت کرنے والے افراد شامل ہیں جنہیں ایک مشکل معاشی سال کا سامنا رہا جبکہ کچھ ملازمین ایسے بھی ہیں جو بہت کم گھنٹے کام کرنے کی وجہ سے خط افلاس سے اوپر آمدنی حاصل نہیں کر پاتے۔ ادارے نے غربت اور صحت کے درمیان نمایاں فرق کی بھی نشاندہی کی ہے۔ غربت میں رہنے والے ہر دس میں سے تقریباً چار افراد اپنی صحت کو خراب قرار دیتے ہیں، جبکہ کم آمدنی والے طبقات میں طویل مدتی بیماری نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، غربت کا شکار مردوں کی متوقع عمر عام آبادی کے مقابلے میں نو سال اور خواتین کی سات سال کم ہے۔ مستقبل کے حوالے سے، نیدرلینڈز بیورو برائے اقتصادی پالیسی تجزیہ کا اندازہ ہے کہ ۲۰۲۵ء اور ۲۰۲۶ء میں غربت کی شرح ۳؍ فیصد سے کم ہو سکتی ہے۔ تاہم پیٹر ہین وان ملیگن نے خبردار کیا کہ یہ تخمینے غیر یقینی ہیں اور ان کا زیادہ تر انحصار لیبر مارکیٹ کی صورتحال پر ہے، جو اس وقت خاصی سخت ہے۔