Inquilab Logo Happiest Places to Work

ممکنہ دو سطحی ڈبلیو ٹی سی نے ونڈیز کرکٹ کی تشویش بڑھائی

Updated: August 12, 2025, 6:50 PM IST | New Delhi

اگر آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چمپئن شپ (ڈبلیو ٹی سی) کے لیے دو سطحی نظام (ٹو ٹیئر سسٹم) نافذ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو ویسٹ انڈیز سرفہرست ٹیموں سے باہر ہو سکتی ہے۔

West Indies  Cricketer.Photo:INN
ویسٹ انڈیز کے کرکٹر۔ تصویر:آئی آئی این

اگر آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چمپئن شپ (ڈبلیو ٹی سی) کے لیے دو سطحی نظام (ٹو ٹیئر سسٹم) نافذ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو ویسٹ انڈیز سرفہرست ٹیموں سے باہر ہو سکتی ہے کیونکہ ڈبلیو ٹی سی کے تینوں ایڈیشن میں ویسٹ انڈیز ۹؍ ٹیموں میں ۸؍ویںنمبر پر رہی تھی اور موجودہ ڈبلیو ٹی سی سائیکل میں بھی ویسٹ انڈیز کو آسٹریلیا کے خلاف تینوں ٹیسٹ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دو سطحی نظام کے امکان نے ویسٹ انڈیز کرکٹ کےفریقوں کو تشویش میں ڈال دیا ہے اور کرکٹ ویسٹ انڈیز (سی ڈبلیو آئی) کے چیف ایگزیکٹیو کرس ڈیہرنگ نے کہا ہے کہ ویسٹ انڈیز کرکٹ کے متعلقہ فریق اس معاملے پر اپنا موقف پیش کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
 اتوار اور پیر کو ٹرینیڈاڈ میں ہونے والی سی ڈبلیو آئی کی ہنگامی میٹنگ کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈیہرنگ نے کہا ’’اس معاملے میں ہمیں کردار ادا کرنا ہوگا، ہمیں آئی سی سی کے سامنے اپنی بات کہنی ہوگی۔ ہمیں تمام ممکنہ تبدیلیوں کے حوالے سے زیادہ محتاط رہنا ہوگا اور ویسٹ انڈیز کرکٹ کے طور پر یہ یقینی بنانا ہوگا کہ حالات جیسے بھی ہوں ہم اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔‘‘

یہ بھی پڑھیئے:سچن تینڈولکر اور سنیل گاوسکر بھی ایسا سوچتے تو شاید وہ عظیم کھلاڑی نہ بن پاتے: سرفراز

آئی سی سی نے پچھلے ماہ نیوزی لینڈ کے سابق بلے باز راجر ٹوئس کی قیادت میں ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا تھا، جس کا مقصد۲۰۲۷۔۲۰۲۵ء کے سائیکل سے پہلے ڈبلیو ٹی سی میں بہتری سمیت دیگر مسائل پر غور کرنا تھا۔ جولائی میں منعقدہ آئی سی سی کی سالانہ میٹنگ میں ڈبلیو ٹی سی کے لیے دو سطحی نظام نافذ کرنے کا معاملہ سب سے اہم بحث کا حصہ تھا۔  
دو سطحی نظام پر۱۵؍ سال سے بھی زیادہ عرصے سے بحث جاری ہے، آئی سی سی نے۲۰۰۹ء میں ہی اس پر غور کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی، لیکن مکمل رکن ممالک مختلف وجوہات کی بنا پر اس مسئلے پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ سی ڈبلیو آئی کی ہنگامی میٹنگ میں ویسٹ انڈیز کے سابق کرکٹرس کلا ئیو لائیڈ، برائن لارا اور ویو رچرڈس بھی شامل تھے۔ لائیڈ نے آئی سی سی کی جانب سے رکن ممالک کو دیے جانے والے مالی حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ۷۰ء اور۸۰ء کی دہائی میں سرفہرست ٹیم اور۹۰ء کی دہائی میں ایک کامیاب ٹیم رہنے والی ویسٹ انڈیز، اپنی کارکردگی میں کمی کے باوجود، اس کی حق دار ہے۔
لائیڈ نے کہا، ’’ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آئی سی سی میں پیسے کی تقسیم کے حوالے سے کیا ہو رہا ہے۔ ہندوستان، آسٹریلیا اور انگلینڈ کو۱۸؍ کروڑ ملیں گے  جبکہ ویسٹ انڈیز کو افغانستان اور بنگلہ دیش کی طرح ۸؍ کروڑ ملیں گے۔ ہم اگلے۱۰۰؍ سال تک اس گروپ میں رہنے سے صرف دو سال دور ہیں۔ میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے اور ہمیں آواز اٹھانی ہوگی کیونکہ جب ہم اچھا کھیل رہے تھے تو ہر کوئی ہمارے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK