Inquilab Logo

معاشیانہ: ’گھوسٹ مالز‘ کی بڑھتی تعداد؛ معیشت کیلئے مفید یا نقصاندہ؟

Updated: May 13, 2024, 12:21 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ہندوستان میں ’گھوسٹ مالز‘ کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ گھوسٹ مالز، ایسے شاپنگ مالز کو کہا جاتا ہے جو ہمہ وقت ۴۰؍ فیصد سے زائد خالی رہتے ہیں، یعنی ان میں گاہکوں اور صارفین کی تعداد ۴۰؍ فیصد سے کم رہتی ہے۔

The number of ghost malls is increasing in 8 metro cities of the country (Delhi, Kolkata, Mumbai, Chennai, Bangalore, Hyderabad, Ahmedabad and Lucknow). Photo: INN
ملک کے ۸؍ میٹرو شہروں (دہلی، کولکاتا، ممبئی، چنئی، بنگلور، حیدرآباد، احمد آباد اور لکھنؤ)میں گھوسٹ مالز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان میں ’گھوسٹ مالز‘ کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ گھوسٹ مالز، ایسے شاپنگ مالز کو کہا جاتا ہے جو ہمہ وقت ۴۰؍ فیصد سے زائد خالی رہتے ہیں، یعنی ان میں گاہکوں اور صارفین کی تعداد ۴۰؍ فیصد سے کم رہتی ہے۔ ملک کے بڑے شہروں میں ایسے مالز کا کل رقبہ کم و بیش ۱۳ء۳؍ ملین مربع فٹ ہے۔ ’نائٹ فرینک انڈیا‘ کی حالیہ رپورٹ بنام ’تھنک انڈیا تھنک ریٹیل ۲۰۲۴ء‘ میں انکشاف ہوا ہے کہ ہندوستان کے ٹاپ ۸؍ میٹرو شہروں (دہلی، کولکاتا، ممبئی، چنئی، بنگلور، حیدرآباد، احمد آباد اور لکھنؤ)میں گھوسٹ مالز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ۲۰۲۲ء میں یہ ۵۷؍ فیصد تھی جو ۲۰۲۳ء میں بڑھ کر ۶۴؍ فیصد ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے مال مالکان یا مال میں موجود ریٹیلرز کو ۶؍ ہزار ۷۰۰؍ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سب سے زیادہ گھوسٹ مالز این سی آر میں ہیں۔ اس کے بعد ممبئی اور بنگلور کا نمبر آتا ہے۔ 
 اتنے بڑے پیمانے پر مالز کے گھوسٹ بن جانے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں اہم ترین، گاہکوں اور صارفین کا شاپنگ کے تئیں بدلتا رجحان ہے۔ آج ہندوستان میں درجنوں ای کامرس ویب سائٹس ہیں جن پر کھانے پینے کی بنیادی اشیاء سے لے کر گھروں کی آرائش کی لگژری مصنوعات تک دستیاب ہیں۔ ای کامرس ویب سائٹس اب اتنی ایڈوانسڈ ہوچکی ہیں کہ ان پر فروخت ہونے والی اشیاء کو آپ اپنے گھر کے جس گوشے میں رکھنا چاہیں، وہاں اے آئی کی مدد سے رکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ رنگوں کا انتخاب ہو یا سائز، سب کچھ آن لائن دستیاب ہے۔ آپ کو گھر بیٹھے مصنوعات پسند کرنی ہیں، ادائیگی کرنی ہے اور چند گھنٹوں میں مطلوبہ اشیاء آپ کے گھر میں ہوں گی۔ اگر شاپنگ اتنی آسان ہوگئی ہے تو شاپنگ سینٹرز یا مالز جانے کی زحمت کون کرے گا؟

یہ بھی پڑھئے: معاشیانہ:لوک سبھا انتخابات: معاشی، سماجی اور سیاسی اشاریوں پر حکومت کی ’کارکردگی‘

مالز کے گھوسٹ بن جانے کی دوسری اہم وجہ وہاں اسٹور ڈالنے کا مہنگا کرایہ بھی ہے۔ زیادہ کرایہ ہونے کے سبب چونکہ مصنوعات مہنگے داموں میں فروخت ہوتی ہیں، اسلئے کم ہی گاہک انہیں خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں وہی چیزیں کم داموں میں آن لائن مل جاتی ہیں۔ متذکرہ ۸؍ میٹرو شہروں میں جو بڑے مال ہیں، گاہک صرف وہیں جاتے ہیں تاہم، یہاں موجود لگژری برانڈز کے اسٹورز کا رُخ وہی کرتے ہیں جو انہیں خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں اور ایسے افراد کا فیصد بہت کم ہے۔ گاہکوں کی ایک بڑی تعداد مالز گھومنے پھرنے، وہاں موجود ’فوڈ کورٹ‘ کے پکوانوں سے لطف اندوز ہونے، یا، فلمیں دیکھنے کیلئے جاتی ہے۔ 
 بڑے مالز کی کامیابی کی ایک وجہ وہاں موجود مختلف قسم کی سرگرمیا ں ہیں، مثلاً ’فن زون‘، ’گیم زون‘، ’لائٹ شوز‘، ’اسنو پارکس‘ اور’منی امیوزمینٹ پارکس‘ وغیرہ۔ علاوہ ازیں، ان مالز کو اس قدر خوبصورتی سے سجایا جاتا ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد یہاں شاپنگ وغیرہ کیلئے نہیں بلکہ صرف اچھا وقت گزارنے اور تصویریں کھنچوانے کیلئے جاتی ہے۔ بڑے اور مشہور مالز میں جانے اور وہاں جا کر تصویریں اُتروانے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ مالز میں داخل ہونے کا ٹکٹ بھی نہیں ہوتا، ان میں ہر شخص مفت داخل ہوسکتا ہے۔ لہٰذا وہ مالز کامیاب ہیں جو گاہکوں اور صارفین کو پُر تعیش تجربہ مفت فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیولپرز اب بڑے رقبے پر مال تعمیر کررہے ہیں تاکہ ہر قسم کے گاہکوں اور صارفین کیلئے اس میں کچھ نہ کچھ ہو، جو انہیں اپنی طرف راغب کرسکے۔ حتیٰ کہ ایسے افراد جو مال کی کوئی بھی چیز خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے، ان کیلئے بھی دلچسپی کی چیزیں مہیا کروائی جارہی ہیں، مثلاً فوٹو بوتھ، سیلفی پوائنٹس اور فن رائیڈز وغیرہ۔ 
 مال کہاں بنایا جائے؟ اب یہ رجحان بھی بدل رہا ہے۔ مالز کی تعمیر اب شہروں کے بجائے مصروف شاہراہوں پر ہورہی ہے اور انہیں ’فیکٹری آؤٹ لیٹس نما مال‘ بنایا جارہا ہے تاکہ اشیاء کی نقل و حمل کا خرچ بچ جائے اور صارفین کو معیاری اشیاء کم داموں میں دستیاب ہوں۔ واضح رہے کہ شاپنگ سینٹرز اور مالز، کاروباری سطح پر اسی وقت کامیاب خیال کئے جاتے ہیں جب وہاں جانے والوں کی تعداد کا فیصد۴۰؍ سے زائد ہو۔ 
  مالز کسی بھی ملک کی معیشت کیلئے انتہائی مفید ہیں۔ ان سے نہ صرف ریٹیلرز کی آمدنی بڑھتی ہے بلکہ سیکڑوں افراد کو ملازمتیں بھی ملتی ہیں۔ یہ صنعت ہماری جی ڈی پی میں ۱ء۲؍ فیصد کا اشتراک کرتی ہے۔ مالز کی صنعت کو ہر سال ایک لاکھ ۸۰؍ ہزار کروڑ روپے کا منافع ہوتا ہے اور یہ۱ء۲؍ کروڑ افراد کو ملازمت فراہم کرتی ہے۔ یہ صنعت حکومت کو ۳۵؍ ہزار کروڑ روپے سے زائد ٹیکس ادا کرتی ہے۔ گھوسٹ مالز کی بڑھتی تعداد کسی حد تک تشویشناک ضرور ہے لیکن اگر انہیں نئی دلچسپیوں کے ساتھ بڑے مالز میں تبدیل کردیا جائے تو یہ شعبہ منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK