• Wed, 15 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : ایک غلطی

Updated: October 07, 2025, 1:49 PM IST | Sofia Tariq | Araria/ Bihar

نبیلہ کے ابو شہر کے معروف ڈاکٹر تھے، وہیں سالکہ کے ابو ایک معمولی، چھوٹی سی پرچون کی دکان چلاتے تھے۔ دونوں گھروں کے مالی حالات‌ میں اتنا فرق ہونے کے باوجود کبھی نبیلہ اور اسکے گھر والوں نے سالکہ کو کمتر محسوس نہیں کروایا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

’’یار تجھے پتہ ہے.... اس نے آج مجھ سے کیا کہا؟ آج مَیں بہت.... بہت.... زیادہ خوش ہوں، آج واقعی مجھے لگ رہا ہے کہ یہ دنیا بہت ہی خوبصورت ہے، جس چیز کا مجھے برسوں سے انتظار تھا.... وہ آج مل ہی گئی۔‘‘ نبیلہ پورے کمرے میں گھوم گھوم کر سالکہ کو بتا رہی تھی اور سالکہ بیچاری بات سمجھنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔
 ’’یار آج میرا دل کر رہا ہے مَیں ناچوں گاؤں دُنیا کو بتاؤں کہ آج مَیں کتنی خوش ہوں....‘‘ ’’چپ بالکل چپ....‘‘ سالکہ نے نبیلہ کو زور سے ڈانٹا۔ ایک تو وہ ویسے ہی پڑھائی میں ڈسٹرب کر رہی تھی، اور اوپر سے اس کی اوٹ پٹانگ باتوں سے اس کے سر میں درد ہو رہا تھا۔ ویسے بھی کل ٹیسٹ تھا جس کی نبیلہ کو تو کوئی فکر نہیں تھی لیکن سالکہ کے لئے ہر ٹیسٹ جیسے اس کو اس کی منزل کے قریب تر کرتا جا رہا تھا.... اور اس معاملے میں وہ بالکل بھی کوئی لاپروائی نہیں برت سکتی تھی۔
 ’’اب بتاؤ مجھے تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘ سالکہ نے نبیلہ کو بیڈ پر بٹھایا اور پوچھا، ’’ارے یار کیا بتاؤں! پتہ ہے تم نے آج عمیر فائنلی شادی کیلئے مان ہی گیا.... اس نے اپنی ممی پاپا سے بات کر لی، ہم لوگ بہت جلد ایک ہونے والے ہیں۔‘‘ نبیلہ کے تو جیسے پیر زمین پر تھے ہی نہیں۔ سالکہ نے بہت ہی افسوس سے نبیلہ کی طرف دیکھا اور وہاں سے اٹھ کر واش روم میں چلی گئی۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : مسکرانے کا ہنر

’’ہیں اسے کیا ہوا؟ جب بھی میں عمیر کی باتیں کرتی ہوں، اسے پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے۔ خیر چھوڑو اب تو میری زندگی سیٹ ہے.... اب مجھے سالکہ کی طرح ہر وقت پڑھنا نہیں پڑے گا.... بہت جلد اس جھنجھٹ سے چھٹکارا مل جائے گا اور میں عمیر کے ساتھ مزے کی زندگی گزاروں گی۔‘‘ نبیلہ سوچ سوچ کر دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی۔
 ادھر سالکہ کو لگ رہا تھا کہ آج اس نے اپنی بچپن کے دوست کو کھو دیا ہے.... اتنا سمجھایا نبیلہ کو کہ ان سب چکروں میں نہ پڑے۔ پڑھائی پر دھیان دے۔ روزانہ تقریباً آدھا گھنٹہ اس کا نبیلہ کو سمجھانے میں ہی نکل جاتا.... وہ ہر ممکن کوشش کرتی کہ نبیلہ ان سب چیزوں سے باز آجائے، اسے اللہ سے ڈراتی.... ماں باپ کی بدنامی کا خوف دلاتی، خود کی بدنامی کا بتاتی، اسے اپنی چھوٹی بہنوں کے مستقبل کو تباہ نہ کرنے کو کہتی۔ وہ پیار سے، ڈانٹ کر ہر طریقے سے سمجھا چکی تھی۔ لیکن نبیلہ اس کی باتوں کو ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے اُڑا دیتی۔ اور سالکہ کی ساری محنت جو وہ پچھلے دو برسوں سے کرتی آرہی تھی اب اسے ضائع نظر آرہی تھی۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اس نے نبیلہ کو آخری بار سمجھانے کا سوچا اور واش روم سے باہر نکل آئی۔
 سالکہ اور نبیلہ بچپن سے دوست تھیں، دونوں ہی پڑھنے میں بہت اچھی تھیں۔ کلاس میں ہمیشہ ان میں پہلی اور دوسری پوزیشن کیلئے مقابلہ چلتا رہتا تھا، ٹیچرز کی بھی وہ دونوں فیورٹ اسٹوڈنٹ تھیں۔ پورے اسکول میں ان کی دوستی اور ذہانت کا تذکرہ ہوتا تھا۔ چاہے کھیل کا مقابلہ ہو یا کوئی بھی دوسرا فنکشن ہو وہ دونوں ہمیشہ پیش پیش رہتیں۔
 وقت گزرتا گیا میٹرک میں بہترین نمبروں سے پاس ہونے کے بعد دونوں نے سائنس اسٹریم کو چنا، پھر انٹر میں زبردست نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ اتنی اچھی پرفارمنس کے بعد دونوں کے والدین نے باہمی مشورے کر کے ان کو میڈیکل کی تیاری کیلئے بھیج دیا۔ دونوں دن رات پڑھتی تھیں اور ٹیسٹ میں اچھے نمبر لاتیں۔
 لیکن ایک دن نبیلہ کے نمبر پر ایک نا معلوم نمبر سے کال آئی۔ نبیلہ نے تو پہلے اگنور کیا لیکن جب بار بار کال آنے لگی تو اس نے جھنجھلا کر فون اُٹھا ہی لیا، ’’کون ہے؟ موت آرہی ہے تمہیں جو اتنی بار کال کر رہے ہو؟‘‘ فون اٹھاتے ہی نبیلہ پھٹ پڑی۔ ’’ایک منٹ.... ایک منٹ اپنی زبان کے گھوڑے کو لگام دیجئے ہم آپ کے اپنے ہی بات کر رہے ہیں۔‘‘ ’’جی! مَیں سمجھی نہیں! کون ہیں؟ ذرا کھل کر اپنا تعارف کرائیے۔‘‘ نبیلہ کو آواز جانی پہچانی لگ رہی تھی۔ لیکن وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کون ہے؟ اس نے سالکہ کواشارے سے بلایا اور موبائل کے والیوم کو تیز کیا تا کہ وہ بھی سمجھنے کی کوشش کرے کہ دوسری طرف کون ہے۔ ’’جی کون؟‘‘ سالکہ نے زور سے بولا۔ ’’شاید اپ ہمیں پہچانتی ہیں ہم نے ساتھ ہی میں انٹر پاس کیا ہے۔ اپنے ذہن پر ذرا زور دیجئے۔‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔
 اچانک سالکہ کو بہت پرانا واقعہ یاد آیا۔ ایک دن جب وہ اور نبیلہ کینٹین جا رہی تھیں، ان کے ہی کلاس کے ایک لڑکے نے نبیلہ سے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت تو دونوں نے مل کر اسے خوب جھاڑ دیا تھا لیکن وہ اکثر نبیلہ کے آس پاس چکر لگاتا ہوا مل جاتا تھا۔ سالکہ اور نبیلہ خوب سیرت تو تھی ہی اللہ نے انہیں اچھی شکل و صورت سے بھی نوازا تھا۔ نبیلہ کے ابو شہر کے معروف ڈاکٹر تھے، وہیں سالکہ کے ابو ایک معمولی، چھوٹی سی پرچون کی دکان چلاتے تھے۔ دونوں گھروں کے مالی حالات‌ میں اتنا فرق ہونے کے باوجود کبھی نبیلہ اور اس کے گھر والوں نے سالکہ کو کمتر محسوس نہیں کروایا، بلکہ وہ ہمیشہ دونوں کو ساتھ رہنے کی تلقین کر تے۔
 ادھر کچھ مہینوں سے لیکن نبیلہ کے ابو کو لگ رہا تھا کہ جیسے جیسے نبیلہ بڑی ہوتی جا رہی تھی اس کے اندر بہت سی تبدیلیاں آتی جا رہی تھیں۔ ہر بات کے لئے اپنے ماں باپ کی باتوں کو فوقیت دینے‌ والی ان کی بیٹی اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرتی تھی۔ وقت کے ساتھ سارے ٹرینڈ کو فالو کرنے کی کوشش کرتی، حتیٰ کہ پڑھائی میں بھی اس کا دھیان ہٹنے لگا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے ابو ہمیشہ اسے سالکہ کے ساتھ رکھتے، جو آج تک ایسی ہی تھی جیسے وہ بچپن سے دیکھتے آ رہے تھے، نہ کسی سے فضول بات کرنا، نہ وقت ضائع کرنا.... بلکہ وہ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔
 سالکہ کی زندگی میں بھی کم امتحانات نہ‌ تھے۔ وہ اور اس کے گھر والے یہی چاہتے کہ وہ آگے پڑھائی کرے لیکن رشتہ دار ان کو بار بار یہ بات باور کرانے کی کوشش کرتے کہ لڑکیوں کو زیادہ پڑھانے سے وہ ہاتھ سے نکل جاتی ہیں، اپنی من مرضی کرنے لگتی ہیں، اس لئے جتنی جلدی ہوسکے اس کے ہاتھ پیلے کر دینا چاہئے۔ جبکہ اصل بات یہ تھی کہ سالکہ جیسی بیٹی ابھی تک ان کے خاندان میں پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ وہ نہ صرف پڑھائی میں اچھی تھی بلکہ ہر میدان میں آگے تھی۔ کچھ رشتہ دار اس سے اسی وجہ سے جلنے لگے تھے، جس کا خمیازہ بیچاری سالکہ کو بھگتنا پڑتا۔ ایک بار وہ اپنی امی کے ساتھ خاندان کی ایک شادی میں شریک ہونے گئی تھی وہیں ایک دور کی بوڑھی نانی نے اس کی امی کو بلا کر پوچھا، ’’آپ لوگ سالکہ کی شادی کیوں نہیں کروا رہے ہو؟ کیا کہیں سے رشتہ نہیں آرہا؟‘‘ سالکہ نے جب یہ بات سنی تو اسے بہت ہی زیادہ غصہ آیا اور رونا بھی۔ غصہ اس بات پر کہ اگر دعائیں نہیں دینا ہوتی ہیں تو کم از کم اس قسم کی باتیں تو نہ کریں۔ جبکہ بات یہ تھی کہ اس کے بہت سے رشتہ دار پہلے ہی اس کی امی سے اس کا ہاتھ مانگنا چاہتے تھے لیکن سالکہ کی لگن اور اس کی چھوٹی عمر کو دیکھ کر ان کے والدین نے کہیں ہاں نہیں کہی تھی۔
 ان سب باتوں سے سالکہ کو ذہنی اذیت پہنچتی۔ اوپر سے اگر نمبر کم آ جاتے تواور زیادہ پریشان ہوجاتی تھی لیکن ان سب کے باوجود اس نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور ساتھ ساتھ وہ نبیلہ کو بھی پہلے کی طرح اس کا ساتھ دینے کو کہتی۔ لیکن نبیلہ نہ جانے کدھر کھوئی کھوئی سی رہتی تھی۔ اس نے سالکہ سے بات چیت کرنا بھی کم کر دیا تھا، ہر وقت موبائل میں گھسی رہتی۔ سالکہ نے ایک دن ڈرتے ڈرتے اس کا موبائل چیک کیا تو اسے ایک نمبر سے مستقل بات کرتے ہوئے دیکھا۔ ذہن پر بہت زور لگانے کے بعد پتہ چلا کہ یہ تو وہی اَن نون نمبر ہے۔ اس نے نبیلہ کو بہت سمجھایا لیکن نبیلہ نے جیسے اپنے کانوں اور آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی، وہ سالکہ کی باتوں کو ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے ہوا میں اُڑا دیتی تھی۔
 ایک دن سالکہ نے اشاروں اشاروں میں اس کی امی کو سارا ماجرہ کہہ سنایا۔ نبیلہ کی امی بہت زیادہ پریشان ہو گئیں۔ انہوں نے اپنے شوہر سے تذکرہ کیا۔ دونوں نے نبیلہ کو گھر بلایا، اسے خوب سمجھایا، ڈرایا دھمکایا، اس پر سختی کی.... اپنی اور خاندان والوں کے بے عزتی کا خوف دلایا۔ لیکن نبیلہ کی ہٹ دھرمی دیکھ کر اسکے ہاتھ سے موبائل لے لیا اور اس پر باہر نکلنے پر پابندی لگا دی۔ لیکن افسوس نبیلہ کو کسی بھی کوئی پروا نہیں تھی۔
 ہر وقت وہ اسی کوشش میں رہتی کہ کسی طریقے سے عمیر سے بات ہو جائے۔  اور ایک دن اس کو یہ موقع مل بھی گیا۔ رات میں نبیلہ نے خاموشی سے اپنی امی کا موبائل لیا اور عمیر کو کال لگائی، ’’یار تم اتنے دنوں سے کہاں تھی؟ تمہارا کتنا انتظار کر رہا تھا مَیں؟‘‘ عمیر نے خباثت سے کہا۔
 ’’کیا بتاؤں گھر آگئی ہوں۔ یہاں پر سب لوگ رہتے ہیں نا اس لئے بات نہیں ہو سکی۔‘‘ نبیلہ نے آہستہ کہا۔ ’’یار! تم سے ملنے کا بہت دل کر رہا ہے۔ چلو آج گاندھی چوک پر ملتے ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : رنگوں کا سایہ

’’نہیں نہیں! مَیں نہیں آؤں گی۔ کوئی دیکھ لے گا۔‘‘ ’’ارے کوئی نہیں دیکھتا تم آنا نا!‘‘ عمیر نے پیار بھرے لہجے میں کہا لیکن اس کی مکروہ آواز کو نبیلہ سمجھ ہی نہ پائی۔ اور ان دونوں نے شام کو چار بجے ملنے کا وقت طے کر لیا۔
اب سب سے بڑا مسئلہ نبیلہ کے لئے گھر سے نکلنے کا تھا۔ گھر میں ہر طرح کی پابندی تھی نبیلہ کو اتنی جلدی اجازت نہیں ملنے والی تھی۔ اس نے بہت سوچا اور آخر بہت کوششوں کے بعد اسے اپنی امی سے شام میں جانے کی اجازت مل ہی گئی۔ وہ عمیر کو کال کرکے آنے کا وعدہ کرکے گھر سے نکل گئی تو ساتھ ہی ساتھ گھر کی عزت بھی پیروں تلے روندتی چلی گئی۔
گاندھی چوک پر پہنچنے پر اس نے پرس میں اپنے ساتھ لایا ہوا موبائل نکالا اور عمیر کو کال ملانے لگی۔ ایک بیل.... دوسری بیل.... لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آرہا تھا! ایک تو وقت گزرتا جا رہا تھا اور اوپر سے کسی کے دیکھ لینے کا ڈر تھا اور اس ڈر کی وجہ سے اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے آنے لگے۔ اس نے پھر کال ملائی آخر دوسری طرف سے کال اٹھا لے گئی۔ ’’کہاں ہو تم؟‘‘ نبیلہ نے غصے سے کہا۔ ’’یار ایک کام میں پھنس گیا تھا.... آرہا ہوں آج تو بہت زبردست پارٹی ہوگی، بس تم پانچ منٹ رکو مَیں ابھی آیا....‘‘ عمیر نے اپنی باتوں سے نبیلہ کو پھسلا یا۔ نبیلہ بھی بہل گئی اور انتظار کرنے لگی۔ اور ساتھ ساتھ چاروں طرف بھی دیکھتی جاتی۔
کاش بیٹیاں تھوڑی عقل سے کام لیتیں.... کاش عمیر جیسے شیطان صفت لوگوں کی میٹھی باتوں میں نہ آتیں.... کاش وہ یہ بات سمجھ پاتیں کہ وہ جس سراب کے پیچھے وہ بھاگ رہی ہیں، انہیں ساری زندگی کیلئے رسوائی اور بدنامی کے سوا کچھ نہیں دینے والا.... جو وقت سے پہلے والدین کے بوڑھے کاندھوں کو اور جھکا دیتا ہے.... اور بھائیوں کیلئے ساری زندگی سر جھکا کر چلنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچتا.... کاش کہ بیٹیاں اپنے معیار کو تھوڑا اور بلند کر لیں تو صحیح اور غلط میں پہچان کرسکتی۔ کاش بیٹیاں اس قسم کا قدم نہ اٹھائیں جو سالکہ جیسی لڑکیوں کو تمام صلاحیت ہونے کے باوجود بھی آگے پڑھنے سے روکے، جو دوسرے والدین کیلئے بچیوں کو باہر بھیجنے میں ہچکچاہٹ کا سبب بنے اور جو اپنے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند بیٹیوں کیلئے گڑھا کھودنے کا کام کرے۔
بیس پچیس منٹ کے بعد نبیلہ کو دور سے گاڑی آتی ہوئی نظر آئی‌۔ وہ سمجھ گئی کہ یہی عمیر کی گاڑی ہے۔ دل میں عجیب گھبراہٹ ہونے لگی، دماغ کسی انہونی کی طرف اشارہ کر رہا تھا....! لیکن وہاں بھی شیطان نے نبیلہ کو اندھا کر دیا۔ اس نے ساری سوچوں کو جھٹکا اور انتظار کرنے لگی۔
جیسے ہی عمیر کی گاڑی قریب آئی.... اس نے دیکھا اس میں عمیر کے ساتھ اس کے دوسرے دوست بھی بیٹھے ہیں۔ نبیلہ کو تھوڑا عجیب لگا، لیکن عمیر کے متوجہ کرنے پر وہ بھول گئی۔
’’مَیں تمہارا کتنی دیر سے انتظار کر رہی تھی.... کتنی دھوپ ہے یہاں....‘‘ نبیلہ نے کڑھ کر کہا۔ ’’یار کچھ نہیں ہوتا چلو غصہ چھوڑو اور آؤ چلو کسی اچھے سے ہوٹل میں پارٹی کرتے ہیں۔‘‘ ’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔‘‘ نبیلہ نے بھی اس کی ہاں میں‌ ہاں ملائی۔
ادھر نبیلہ کے ابو آج بہت ہی مصروف تھے۔ مریضوں کو دیکھتے دیکھتے شام ہونے کو آئی تھی۔ لیکن انہیں ٹیک لگانے کی بھی فرصت نہیں ملی تھی۔ آخر میں ان کے پاس ایک بچی آئی جو کینسر کی مریضہ تھی۔ ماں باپ دیکھنے سے بہت ہی غریب معلوم ہوتے تھے لیکن بچی کی حالت دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ اگر جلد‌ ہی اس کی سرجری نہ کرائی گئی تو بچی کی جان بچانا بہت ہی مشکل ہو جائے گا۔ لیکن والدین اپنی مالی حالات کے پیش نظر جلدی علاج کرانے کے حق میں نہیں تھے۔ ڈاکٹر واجد (نبیلہ کے ابو) نے سارے ڈاکٹرز کی ٹیم کو جمع کیا اور باہمی مشورے کے بعد یہ بات طے پائی کہ بچی کا علاج اسپتال کی طرف سے فری میں کیا جائے گا۔ اور ان سب میں نبیلہ کے ابو پیش پیش تھے۔ سارے معاملات نپٹاتے نپٹاتے مغرب کا وقت ہو گیا۔ ڈاکٹر واجد جلدی سے نماز پڑھ کر اور اللہ کا شکر ادا کرکے گاڑی میں آکر بیٹھ گئے۔ بھوک اتنی زور سے لگی تھی کہ دماغ بالکل بھی ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ خیر انہوں نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی سڑک پر ڈال دی۔
گاندھی چوک پر پہنچنے پر اتنا بھاری ٹریفک دیکھ کر موڈ خراب ہونے لگا۔ سب لوگ آگے پیچھے ہارن پر ہارن دے رہے تھے، گاڑیاں بس رینگ رہی تھیں، نبیلہ کے ابو گاڑی روکے، آج پورے دن کی کارگزاری سوچ رہے تھے کہ انہیں ایک لال گاڑی نظر آئی اور اس کے پاس ہی جانا پہچانا دوپٹہ بھی نظر آیا۔
 
 
پہلے انہوں نے نظر انداز کیا اور دوسری طرف دیکھنے لگے لیکن اچانک دماغ نے ایک سگنل دیا۔ انہوں نے مڑ کر دوبارہ دیکھا تو انہیں حال ہی میں اپنی بیٹی کو گفٹ میں دی ہوئی گھڑی دکھائی دی۔ نبیلہ کے ابو کا دل عجیب وسوسوں سے بھر گیا۔ وہ اپنی گاڑی سے نکل آئے اور اس لال گاڑی کی طرف بڑھنے لگے، ساتھ ساتھ وہ اپنے خیالات اور وسوسات کو بھی جھٹکتے جا رہے تھے۔
’’یار جلدی بیٹھو سب لوگ.... ہمیں فوراً نکلنا ہوگا۔‘‘ عمیر نے اپنے سارے دوستوں سے کہا۔ ’’ہاں ہاں چلو!‘‘ ’’اے لڑکے! کون ہو تم؟ اور یہ لڑکی تمہارے ساتھ کون ہے اور تم لوگ کدھر جا رہے ہو؟‘‘ ڈاکٹر واجد نے زور سے ان سب سے پوچھا۔ نبیلہ تو اچھل ہی پڑی اس کا عجیب سا حلیہ ہونے کی وجہ سے اس کے ابو اسے پہچان نہیں پارہے تھے۔
’’اے انکل اپنا کام کرو نا.... کیوں ہمارے بیچ میں آرہے ہو؟ گھر واپس جانا ہے یا نہیں؟‘‘ عمیر کے ایک دوست نے بہت ہی بدتمیزی سے ڈاکٹر واجد سے کہا۔ ادھر نبیلہ کی تو حالت خراب ہو رہی تھی۔ ’’بیٹا! آپ کون ہیں؟‘‘ جیسے ہی نبیلہ کے ابو نبیلہ کی طرف مڑے ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی، الفاظ منہ میں ہی رہ گئے دماغ چکرا گیا اور وہ زمین پر بیٹھتے چلے گئے....
’’ابوووووووو....‘‘ نبیلہ زور سے چیخی اور رونے لگی۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے نبیلہ کو اپنے سے دور جانے کو کہا اور آنکھیں بند کر لیں۔ آس پاس لوگ جمع ہونے لگے۔
’’اٹھاؤ.... اٹھاؤ.... ارے یہ تو ڈاکٹر صاحب ہیں.... کیا ہوگیا انہیں؟ جلدی اسپتال چلو جلدی....‘‘ لوگوں کی آوازیں کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ ذہن آہستہ آہستہ ماؤف ہوتا گیا۔ لوگوں کی آوازیں بھی کم ہونے لگیں اور پھر بند ہو گئیں۔
پانچ سال بعد!
’’ڈاکٹر صاحبہ! جب سے آپ نے میری بیٹی کا علاج شروع کیا ہے ان کی صحت بہت تیزی سے اچھی ہو رہی ہے.... آپ کا شکریہ ڈاکٹر!‘‘ ایک عورت ڈاکٹر سالکہ کا شکریہ ادا کر رہی تھیں۔ ’’ارے ارے آپ میرا شکریہ ادا کیوں کر رہی ہیں بلکہ اللہ کا شکر ادا کریں، جس کے فضل و کرم سے آپ کی بیٹی ماشاءاللہ صحت یاب ہو رہی ہے اس میں ہمارا کوئی رول نہیں ہے، بس اللہ کا کرم ہے۔‘‘ ڈاکٹر سالکہ کہہ کر پیشنٹ وارڈ سے نکل گئیں۔
آج اتنے برسوں بعد نبیلہ کی یاد آئی تھی.... ذہن بہت پیچھے چلا گیا.... سنا تھا نبیلہ اپنے گھر سے باہر کچھ لڑکوں کے ساتھ جا رہی تھی یا یوں کہیں کہ گھر سے بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی.... جو بروقت ان کے والد کے پہنچنے سے ناکام ہوگیا۔ لیکن نبیلہ کی یہ حرکت پورے شہر میں مشہور ہوگئی جس کا نتیجہ یہ ہوا ڈاکٹر واجد (نبیلہ کے ابو) آہستہ آہستہ بیمار رہنے لگے۔ بیٹی کے اس قدم نے انہیں اندر سے توڑ دیا تھا ان کی صحت گرتی جا رہی تھی اور کچھ برس کے بعد وہ مالک حقیقی سے جا ملے۔ نبیلہ کی امی بھی یہ صدمہ برداشت نہ کر پائیں اور وہ بھی شوہر کے انتقال کے کچھ مہینوں بعد انتقال کر گئیں۔
نبیلہ کے بارے میں سوچ کر ڈاکٹر سالکہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ نبیلہ کی شادی اس کے والدین کے انتقال کے بعد اس کے چچا چچی نے مل کر ایک معمولی سے گھرانے میں کر دی۔ ابھی چند روز پہلے ہی نبیلہ کی کال آئی تھی، نبیلہ سے بات کرکے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ بہت پریشان ہے یا یوں کہیں کہ وہ اپنی غلطی پر پچھتا رہی ہے جس نے اس کا ماضی، حال اور مستقبل سب تباہ کر دیا تھا۔
آج ہمارے معاشرے میں سالکہ جیسی ہزاروں بیٹیاں ہیں جو ایک طرف خوب محنت کرکے، خون پسینہ بہا کر رشتے داروں پڑوسیوں کے طعنوں کو نظر انداز کر کے دن رات کوشش کر کے کامیابی کو اپنے اور اپنے والدین کے سر کا تاج بناتی ہیں، تو کہیں نبیلہ جیسی بیٹیاں ہیں جو صرف ’ایک غلطی‘ کرکے بدنامی ساری زندگی کے لئے اپنے اور اپنے خاندان کے نام کر دیتی ہیں۔
ضرورت ہے ‌کہ بیٹیاں اپنے اپ کو سنبھال کر اور پریشانیاں برداشت کرکے عمیر جیسے لوگوں کے جال میں پھنسنے کے بجائے تعلیم پر دھیان دیں اور بہترین کامیابی حاصل کریں۔ اور خلق خدا کی خدمت کریں تو وہ نہ صرف دنیا بلکہ اخرت میں بھی سرخرو ہوں گی!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK