نبیلہ کے ابو شہر کے معروف ڈاکٹر تھے، وہیں سالکہ کے ابو ایک معمولی، چھوٹی سی پرچون کی دکان چلاتے تھے۔ دونوں گھروں کے مالی حالات میں اتنا فرق ہونے کے باوجود کبھی نبیلہ اور اسکے گھر والوں نے سالکہ کو کمتر محسوس نہیں کروایا۔
EPAPER
Updated: October 07, 2025, 1:49 PM IST | Sofia Tariq | Araria/ Bihar
نبیلہ کے ابو شہر کے معروف ڈاکٹر تھے، وہیں سالکہ کے ابو ایک معمولی، چھوٹی سی پرچون کی دکان چلاتے تھے۔ دونوں گھروں کے مالی حالات میں اتنا فرق ہونے کے باوجود کبھی نبیلہ اور اسکے گھر والوں نے سالکہ کو کمتر محسوس نہیں کروایا۔
’’یار تجھے پتہ ہے.... اس نے آج مجھ سے کیا کہا؟ آج مَیں بہت.... بہت.... زیادہ خوش ہوں، آج واقعی مجھے لگ رہا ہے کہ یہ دنیا بہت ہی خوبصورت ہے، جس چیز کا مجھے برسوں سے انتظار تھا.... وہ آج مل ہی گئی۔‘‘ نبیلہ پورے کمرے میں گھوم گھوم کر سالکہ کو بتا رہی تھی اور سالکہ بیچاری بات سمجھنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔
’’یار آج میرا دل کر رہا ہے مَیں ناچوں گاؤں دُنیا کو بتاؤں کہ آج مَیں کتنی خوش ہوں....‘‘ ’’چپ بالکل چپ....‘‘ سالکہ نے نبیلہ کو زور سے ڈانٹا۔ ایک تو وہ ویسے ہی پڑھائی میں ڈسٹرب کر رہی تھی، اور اوپر سے اس کی اوٹ پٹانگ باتوں سے اس کے سر میں درد ہو رہا تھا۔ ویسے بھی کل ٹیسٹ تھا جس کی نبیلہ کو تو کوئی فکر نہیں تھی لیکن سالکہ کے لئے ہر ٹیسٹ جیسے اس کو اس کی منزل کے قریب تر کرتا جا رہا تھا.... اور اس معاملے میں وہ بالکل بھی کوئی لاپروائی نہیں برت سکتی تھی۔
’’اب بتاؤ مجھے تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘ سالکہ نے نبیلہ کو بیڈ پر بٹھایا اور پوچھا، ’’ارے یار کیا بتاؤں! پتہ ہے تم نے آج عمیر فائنلی شادی کیلئے مان ہی گیا.... اس نے اپنی ممی پاپا سے بات کر لی، ہم لوگ بہت جلد ایک ہونے والے ہیں۔‘‘ نبیلہ کے تو جیسے پیر زمین پر تھے ہی نہیں۔ سالکہ نے بہت ہی افسوس سے نبیلہ کی طرف دیکھا اور وہاں سے اٹھ کر واش روم میں چلی گئی۔
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : مسکرانے کا ہنر
’’ہیں اسے کیا ہوا؟ جب بھی میں عمیر کی باتیں کرتی ہوں، اسے پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے۔ خیر چھوڑو اب تو میری زندگی سیٹ ہے.... اب مجھے سالکہ کی طرح ہر وقت پڑھنا نہیں پڑے گا.... بہت جلد اس جھنجھٹ سے چھٹکارا مل جائے گا اور میں عمیر کے ساتھ مزے کی زندگی گزاروں گی۔‘‘ نبیلہ سوچ سوچ کر دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی۔
ادھر سالکہ کو لگ رہا تھا کہ آج اس نے اپنی بچپن کے دوست کو کھو دیا ہے.... اتنا سمجھایا نبیلہ کو کہ ان سب چکروں میں نہ پڑے۔ پڑھائی پر دھیان دے۔ روزانہ تقریباً آدھا گھنٹہ اس کا نبیلہ کو سمجھانے میں ہی نکل جاتا.... وہ ہر ممکن کوشش کرتی کہ نبیلہ ان سب چیزوں سے باز آجائے، اسے اللہ سے ڈراتی.... ماں باپ کی بدنامی کا خوف دلاتی، خود کی بدنامی کا بتاتی، اسے اپنی چھوٹی بہنوں کے مستقبل کو تباہ نہ کرنے کو کہتی۔ وہ پیار سے، ڈانٹ کر ہر طریقے سے سمجھا چکی تھی۔ لیکن نبیلہ اس کی باتوں کو ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے اُڑا دیتی۔ اور سالکہ کی ساری محنت جو وہ پچھلے دو برسوں سے کرتی آرہی تھی اب اسے ضائع نظر آرہی تھی۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اس نے نبیلہ کو آخری بار سمجھانے کا سوچا اور واش روم سے باہر نکل آئی۔
سالکہ اور نبیلہ بچپن سے دوست تھیں، دونوں ہی پڑھنے میں بہت اچھی تھیں۔ کلاس میں ہمیشہ ان میں پہلی اور دوسری پوزیشن کیلئے مقابلہ چلتا رہتا تھا، ٹیچرز کی بھی وہ دونوں فیورٹ اسٹوڈنٹ تھیں۔ پورے اسکول میں ان کی دوستی اور ذہانت کا تذکرہ ہوتا تھا۔ چاہے کھیل کا مقابلہ ہو یا کوئی بھی دوسرا فنکشن ہو وہ دونوں ہمیشہ پیش پیش رہتیں۔
وقت گزرتا گیا میٹرک میں بہترین نمبروں سے پاس ہونے کے بعد دونوں نے سائنس اسٹریم کو چنا، پھر انٹر میں زبردست نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ اتنی اچھی پرفارمنس کے بعد دونوں کے والدین نے باہمی مشورے کر کے ان کو میڈیکل کی تیاری کیلئے بھیج دیا۔ دونوں دن رات پڑھتی تھیں اور ٹیسٹ میں اچھے نمبر لاتیں۔
لیکن ایک دن نبیلہ کے نمبر پر ایک نا معلوم نمبر سے کال آئی۔ نبیلہ نے تو پہلے اگنور کیا لیکن جب بار بار کال آنے لگی تو اس نے جھنجھلا کر فون اُٹھا ہی لیا، ’’کون ہے؟ موت آرہی ہے تمہیں جو اتنی بار کال کر رہے ہو؟‘‘ فون اٹھاتے ہی نبیلہ پھٹ پڑی۔ ’’ایک منٹ.... ایک منٹ اپنی زبان کے گھوڑے کو لگام دیجئے ہم آپ کے اپنے ہی بات کر رہے ہیں۔‘‘ ’’جی! مَیں سمجھی نہیں! کون ہیں؟ ذرا کھل کر اپنا تعارف کرائیے۔‘‘ نبیلہ کو آواز جانی پہچانی لگ رہی تھی۔ لیکن وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کون ہے؟ اس نے سالکہ کواشارے سے بلایا اور موبائل کے والیوم کو تیز کیا تا کہ وہ بھی سمجھنے کی کوشش کرے کہ دوسری طرف کون ہے۔ ’’جی کون؟‘‘ سالکہ نے زور سے بولا۔ ’’شاید اپ ہمیں پہچانتی ہیں ہم نے ساتھ ہی میں انٹر پاس کیا ہے۔ اپنے ذہن پر ذرا زور دیجئے۔‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔
اچانک سالکہ کو بہت پرانا واقعہ یاد آیا۔ ایک دن جب وہ اور نبیلہ کینٹین جا رہی تھیں، ان کے ہی کلاس کے ایک لڑکے نے نبیلہ سے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت تو دونوں نے مل کر اسے خوب جھاڑ دیا تھا لیکن وہ اکثر نبیلہ کے آس پاس چکر لگاتا ہوا مل جاتا تھا۔ سالکہ اور نبیلہ خوب سیرت تو تھی ہی اللہ نے انہیں اچھی شکل و صورت سے بھی نوازا تھا۔ نبیلہ کے ابو شہر کے معروف ڈاکٹر تھے، وہیں سالکہ کے ابو ایک معمولی، چھوٹی سی پرچون کی دکان چلاتے تھے۔ دونوں گھروں کے مالی حالات میں اتنا فرق ہونے کے باوجود کبھی نبیلہ اور اس کے گھر والوں نے سالکہ کو کمتر محسوس نہیں کروایا، بلکہ وہ ہمیشہ دونوں کو ساتھ رہنے کی تلقین کر تے۔
ادھر کچھ مہینوں سے لیکن نبیلہ کے ابو کو لگ رہا تھا کہ جیسے جیسے نبیلہ بڑی ہوتی جا رہی تھی اس کے اندر بہت سی تبدیلیاں آتی جا رہی تھیں۔ ہر بات کے لئے اپنے ماں باپ کی باتوں کو فوقیت دینے والی ان کی بیٹی اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرتی تھی۔ وقت کے ساتھ سارے ٹرینڈ کو فالو کرنے کی کوشش کرتی، حتیٰ کہ پڑھائی میں بھی اس کا دھیان ہٹنے لگا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے ابو ہمیشہ اسے سالکہ کے ساتھ رکھتے، جو آج تک ایسی ہی تھی جیسے وہ بچپن سے دیکھتے آ رہے تھے، نہ کسی سے فضول بات کرنا، نہ وقت ضائع کرنا.... بلکہ وہ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔
سالکہ کی زندگی میں بھی کم امتحانات نہ تھے۔ وہ اور اس کے گھر والے یہی چاہتے کہ وہ آگے پڑھائی کرے لیکن رشتہ دار ان کو بار بار یہ بات باور کرانے کی کوشش کرتے کہ لڑکیوں کو زیادہ پڑھانے سے وہ ہاتھ سے نکل جاتی ہیں، اپنی من مرضی کرنے لگتی ہیں، اس لئے جتنی جلدی ہوسکے اس کے ہاتھ پیلے کر دینا چاہئے۔ جبکہ اصل بات یہ تھی کہ سالکہ جیسی بیٹی ابھی تک ان کے خاندان میں پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ وہ نہ صرف پڑھائی میں اچھی تھی بلکہ ہر میدان میں آگے تھی۔ کچھ رشتہ دار اس سے اسی وجہ سے جلنے لگے تھے، جس کا خمیازہ بیچاری سالکہ کو بھگتنا پڑتا۔ ایک بار وہ اپنی امی کے ساتھ خاندان کی ایک شادی میں شریک ہونے گئی تھی وہیں ایک دور کی بوڑھی نانی نے اس کی امی کو بلا کر پوچھا، ’’آپ لوگ سالکہ کی شادی کیوں نہیں کروا رہے ہو؟ کیا کہیں سے رشتہ نہیں آرہا؟‘‘ سالکہ نے جب یہ بات سنی تو اسے بہت ہی زیادہ غصہ آیا اور رونا بھی۔ غصہ اس بات پر کہ اگر دعائیں نہیں دینا ہوتی ہیں تو کم از کم اس قسم کی باتیں تو نہ کریں۔ جبکہ بات یہ تھی کہ اس کے بہت سے رشتہ دار پہلے ہی اس کی امی سے اس کا ہاتھ مانگنا چاہتے تھے لیکن سالکہ کی لگن اور اس کی چھوٹی عمر کو دیکھ کر ان کے والدین نے کہیں ہاں نہیں کہی تھی۔
ان سب باتوں سے سالکہ کو ذہنی اذیت پہنچتی۔ اوپر سے اگر نمبر کم آ جاتے تواور زیادہ پریشان ہوجاتی تھی لیکن ان سب کے باوجود اس نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور ساتھ ساتھ وہ نبیلہ کو بھی پہلے کی طرح اس کا ساتھ دینے کو کہتی۔ لیکن نبیلہ نہ جانے کدھر کھوئی کھوئی سی رہتی تھی۔ اس نے سالکہ سے بات چیت کرنا بھی کم کر دیا تھا، ہر وقت موبائل میں گھسی رہتی۔ سالکہ نے ایک دن ڈرتے ڈرتے اس کا موبائل چیک کیا تو اسے ایک نمبر سے مستقل بات کرتے ہوئے دیکھا۔ ذہن پر بہت زور لگانے کے بعد پتہ چلا کہ یہ تو وہی اَن نون نمبر ہے۔ اس نے نبیلہ کو بہت سمجھایا لیکن نبیلہ نے جیسے اپنے کانوں اور آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی، وہ سالکہ کی باتوں کو ایک کان سے سنتی اور دوسرے کان سے ہوا میں اُڑا دیتی تھی۔
ایک دن سالکہ نے اشاروں اشاروں میں اس کی امی کو سارا ماجرہ کہہ سنایا۔ نبیلہ کی امی بہت زیادہ پریشان ہو گئیں۔ انہوں نے اپنے شوہر سے تذکرہ کیا۔ دونوں نے نبیلہ کو گھر بلایا، اسے خوب سمجھایا، ڈرایا دھمکایا، اس پر سختی کی.... اپنی اور خاندان والوں کے بے عزتی کا خوف دلایا۔ لیکن نبیلہ کی ہٹ دھرمی دیکھ کر اسکے ہاتھ سے موبائل لے لیا اور اس پر باہر نکلنے پر پابندی لگا دی۔ لیکن افسوس نبیلہ کو کسی بھی کوئی پروا نہیں تھی۔
ہر وقت وہ اسی کوشش میں رہتی کہ کسی طریقے سے عمیر سے بات ہو جائے۔ اور ایک دن اس کو یہ موقع مل بھی گیا۔ رات میں نبیلہ نے خاموشی سے اپنی امی کا موبائل لیا اور عمیر کو کال لگائی، ’’یار تم اتنے دنوں سے کہاں تھی؟ تمہارا کتنا انتظار کر رہا تھا مَیں؟‘‘ عمیر نے خباثت سے کہا۔
’’کیا بتاؤں گھر آگئی ہوں۔ یہاں پر سب لوگ رہتے ہیں نا اس لئے بات نہیں ہو سکی۔‘‘ نبیلہ نے آہستہ کہا۔ ’’یار! تم سے ملنے کا بہت دل کر رہا ہے۔ چلو آج گاندھی چوک پر ملتے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : رنگوں کا سایہ