آسمان کے کنارے پر گلابی رنگ ابھر چکا تھا۔ ستمبر کی سرد شام میں ٹھنڈی ہوا صحن میں بکھرے پتوں کو چھیڑ رہی تھی۔ سمیرہ آفس سے آتے ہی صوفے پر ڈھے گئی۔ تھکان کا یہ عالم تھا کہ انگلیوں کی پور پور بھی تھکن سے چور ہوچکی تھی۔
EPAPER
Updated: October 25, 2025, 9:33 AM IST | Maryam Bint Mujahid Nadwi | Mumbai
آسمان کے کنارے پر گلابی رنگ ابھر چکا تھا۔ ستمبر کی سرد شام میں ٹھنڈی ہوا صحن میں بکھرے پتوں کو چھیڑ رہی تھی۔ سمیرہ آفس سے آتے ہی صوفے پر ڈھے گئی۔ تھکان کا یہ عالم تھا کہ انگلیوں کی پور پور بھی تھکن سے چور ہوچکی تھی۔
آسمان کے کنارے پر گلابی رنگ ابھر چکا تھا۔ ستمبر کی سرد شام میں ٹھنڈی ہوا صحن میں بکھرے پتوں کو چھیڑ رہی تھی۔ سمیرہ آفس سے آتے ہی صوفے پر ڈھے گئی۔ تھکان کا یہ عالم تھا کہ انگلیوں کی پور پور بھی تھکن سے چور ہوچکی تھی۔ وہ آنکھیں بند کرکے لیٹی تو صبح کا واقعہ اس کے ذہن میں تازہ ہوگیا۔ جلدی جلدی میں اس کی روٹیاں تھوڑی جل گئی تھیں۔ ناشتے کی میز پر اس کے شوہر وحید نے اس کی ’لاپروائی‘ پر اسے خوب ڈانٹ پلائی تھی۔ سمیرہ کی آج ایک میٹنگ تھی جس کی تیاری میں اس کی رات کا ایک حصہ گزرا تھا جس کی وجہ سے اس کے آنکھوں کے گرد حلقے گہرے ہوچکے تھے، ’’مَیں کوئی مشین تو ہوں نہیں، جو ہر کام پرفیکٹ طریقے سے کروں۔ تھک گئی ہوں مَیں!‘‘
’’ہاں تو بیٹھ جاؤ گھر پر، تمہیں کوئی فورس نہیں کر رہا ان کاموں کے لئے۔ ہماری امی صبح شام دس، پندرہ لوگوں کا کھانا بناتی تھیں اور تم دو روٹیاں ڈال کر احسان جتا رہی ہو؟‘‘
دونوں ہی ناشتہ ادھورا چھوڑ کر میز پر سے اٹھ گئے۔ باقی پورا دن وہ غصے میں رہی ۔ آج وہ سارا دن آفس میں بھی خود سے بڑ بڑاتی رہی تھی: ’’اماں کب آفس میں سارا سر کھپا کر، تھک ہار کر روٹیاں ڈالتی تھیں۔ اتنا ہی اچھا کھانا کھانا ہے تو ملازمہ رکھ لیں مگر میری سنتا کون ہے؟‘‘
سمیرہ کی سب ہی سہیلیوں کے پاس ایک عدد کل وقتی ملازمہ موجود تھی۔ صرف وہ ہی تھی جو صفائی سے لے کر کھانا بنانے تک ہر کام خود کرتی تھی۔ سمیرہ شادی کے بعد جاب چھوڑ کر صرف اپنے گھر پر توجہ دینا چاہتی تھی۔ مگر اس مہنگائی کے دور میں اسے اپنی بیٹی کی شادی کی فکر لگی ہوئی تھی۔ اس کے خاندان میں بیٹیوں کی شادیاں دھوم دھام سے ہوتی تھیں۔ اگر کوئی کمی خامی رہ گئی تو سسرال والے زندگی بھر اس بات کا طعنہ دیتے تھے۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی یہ سب سہے، اسی لئے وہ اپنے آپ کو اور اپنی ترجیحات کو فراموش کر رہی تھی۔ خیالوں کے تسلسل میں فون کی رنگ ٹون نے ارتعاش پیدا کیا۔ فون کی دوسری طرف رشتہ کروانے والی وحیدہ آپا کی پرجوش آواز تھی، ’’السلام علیکم باجی، وہ میں نے یہ بتانے کیلئے فون کیا ہے کہ اکبر بھائی اور سلمیٰ بھابھی کل شام آپ کے گھر آنا چاہ رہے ہیں۔ میں کیا جواب دوں؟‘
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : دل شیشہ، دل پتھر
دراصل رمشہ، سمیرہ کی اکلوتی بیٹی، کے گریجویشن مکمل ہونے کے بعد سے ہی سمیرہ اس کے لئے رشتے تلاش کر رہی تھی۔ اس نے کچھ سوچ کر وحیدہ آپا کو عندیہ دے دیا کہ وہ کل مہمانوں کو مدعو کرلیں۔ بات ختم کرکے اس نے تھکن بھری آہ بھر کے کچن کا رخ کیا۔ کچھ ہی دیر میں مغرب کی اذان کی آواز گونجی اور کچن سے قیمے اور روٹی کی اشتہا انگیز خوشبو گھر میں رقص کرنے لگی۔
اگلے دن بھی معمول کی طرح سمیرہ کے دن کی شروعات فجر کی اذان کے ساتھ ہوئی۔ ایک اور مصروف دن، لیکن اس سے پہلے وہ ایک کپ چائے لے کرصحن میں رکھی کرسی پر چند لمحوں کے لئے بیٹھ گئی۔ چائے ختم کرکے اس نے گھر کی صفائی اور شام کے کھانے کی تیاری کی پھر آفس کے لئے نکل گئی۔ راستے میں اسے پھولوں کی ایک دکان نظر آئی۔ ایک لمحہ کے لئے وہ ٹھٹک گئی، اسے تو یاد بھی نہیں آرہا تھا کہ کب آخری بار اس نے باغبانی کی تھی؟ ذمہ داریوں کے گراں بار کے تحت گویا وہ اپنا خود کا وجود کھو چکی تھی۔ وہ تھک چکی تھی۔ روز کی بھاگ دوڑ سے، نہ ختم ہونے والے کام سے۔ چھٹی کے دن بھی وہ گھر کے کاموں میں مصروف رہتی۔ پھر رمشہ یا وحید کی کھانے میں کوئی نہ کوئی فرمائش ہوتی۔ کبھی لچھا پراٹھا تو کبھی بریانی وہ بھی گاجر کے حلوے کے ساتھ۔ خود کے لئے اس کے پاس اگر کچھ باقی رہتا تو وہ تھا مصروفیت سے لبریز سامنے کھڑا پورا ہفتہ۔
اس دن شام میں جب اکبر اور ان کی اہلیہ نے صاف الفاظ میں کہہ دیا: ’’ہمیں آپ کی بیٹی رمشہ، اپنے ابرار کے لئے بہت پسند آئی ہے۔ اور ہم اسے اپنے گھر اپنی بیٹی بنا کر لے جانا چاہتے ہیں۔ دو دن بعد نوید، ابرار کے بڑے بھائی کا نکاح ہے۔ ہم چاہتے ہیں دونوں بھائیوں کی شادی اکٹھی ہو۔ اگر آپ کی طرف سے ہاں ہو تو.... اور ہاں ہماری طرف سے نکاح کے لئے شرط یہ ہے کہ یہ سادگی کے ساتھ طے پائے۔ اور اس میں نہ آپ کی طرف نکاح کے بعد کھانا ہو اور نہ ہی جہیز کی بات بھی کی جائے۔ اگر آپ کو یہ شرط منظور نہ ہو تو پھر ہم بات کو یہیں ختم کرسکتے ہیں۔‘‘
سمیرہ اور وحید پہلے تو ان کی طرف سے اس طرح کے سخت کلمات سے ڈر گئے لیکن پھر انہیں احساس ہوا کہ اس میں کچھ غلط بھی تو نہیں ہے۔ انہوں نے بھلے ہی رسماً یہ بات کہی کہ ہماری ایک ہی بیٹی ہے اور ہم اس کا نکاح دھوم سے کرنا چاہتے ہیں، اسے جہیز میں سامان دینا چاہتے ہیں، لیکن لڑکے والوں نے مزید اپنی بات دہرائی تو وحید اور سمیرہ کے چہرے پر خوشی کی مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔ انکار کی کوئی وجہ انہیں نظر نہیں آئی اور رشتہ وہیں طے ہوگیا۔ نکاح اور رخصتی دو دن بعد تھی۔
اسی رات وحید نے سمیرہ سے کہا، ’’مجھے لگتا ہے تمہیں اب یہ بھاگ دوڑ چھوڑ دینی چاہئے، دیکھو اللہ نے ہماری بیٹی کے نصیب کیسے چمکا دیئے ہیں! ہم دونوں کا گزر بسر تو میری تنخواہ میں بھی ہوسکتا ہے۔‘‘
اگلے دن شادی کی تیاری کی مصروفیت کے باوجود سمیرہ نے وقت نکال کر اپنے باس کو استعفیٰ ای میل کیا تو گویا اس کے دل میں خوشیوں کے ہزاروں تار بج رہے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:افسانہ : خود سے ملاقات
مصروفیت اور لاتعداد کاموں کے درمیان دو دن پَر لگا کر اُڑ گئے۔ رمشہ کی رخصتی کے بعد گھر میں ایک دم خاموشی گونجنے لگی۔ اپنی اکلوتی بیٹی کو اچانک اس طرح بیاہ کر اگرچہ وہ اداس بھی تھے لیکن لڑکے والوں کی سادگی اور ان کی نیک مزاجی کی وجہ سے رب کریم کے حضور سر بسجود بھی تھے۔ بہرحال یہ بات تو تھی کہ تنہائی گویا ان کے گھر کو اب ہر دن، ہر لمحہ ڈس رہی تھی۔ ادھر بیٹی کی جدائی نے وحید کو بھی خاموش خاموش کردیا تھا۔ وہ زیادہ تر وقت اپنی اسٹڈی روم میں ہی ہوتے۔ سمیرہ کی صبح اب آفس جانے کی گڑبڑ میں نہیں بلکہ فراغت سے پی جانے والی چائے اور پسندیدہ کتاب کے مطالعے میں ڈھل چکی تھی۔ اس کا پورا دن باغبانی، شاعری کی کتابیں پڑھنے اور پینٹنگ کرنے میں صرف ہوتا۔ دوپہر فراغت سے سونے اور شام چھت پر ڈوبتے سورج اور چائے کے جمبو سائز کپ کے ساتھ گزرتی۔ اس کے پورے ارمان، وہ زندگی جس کے خواب وہ نیند میں دیکھتی اب حقیقت میں تبدیل ہوچکی تھی۔ اس کی زندگی میں آخر وہ سکوت وہ ٹھہراؤ آہی گیا تھا، وہ لمحے آگئے تھے جنہیں وہ کبھی جی نہیں پائی تھی۔ اسے لگا جیسے پہلی بار اس کی خود سے ملاقات ہوئی ہے۔
کچھ ہی دنوں میں اسے اپنی زندگی کے فراغت کے لمحے پھیکے محسوس ہوئے۔ نہ جانے کیوں ٹیبل پر رکھے گلاب کے پھول بھی پھیکے اور مرجھائے سے لگتے؟ اس نے سوچا شاید انہیں پانی کی ضرورت تھی۔ لیکن اسے یہ احساس نہیں ہوا کہ پیاس تو اس کے اپنے دل میں لگی ہے۔ اس کا صحن بھی اکتوبر کے ہلکے پیلے پتوں سے بھر گیا تھا۔ اس کے کلر اور کینوس ایک کونے میں پڑے تھے۔ اس کا کچھ وقت کبھی رمشہ سے بات کرنے، کبھی کسی رشتے دار خاتون سے بات کرنے میں کٹ جاتا۔ لیکن کب تک؟ باقی وقت وہ پورے گھر میں کبھی یہ کام کرتی تو کبھی وہ۔ یہاں تک کے سارے کام ختم ہوجاتے، ساری باتیں ختم ہوجاتیں مگر اس کا دن تو ابھی اپنی پوری جوبن پر ہوتا۔ وہ چائے کا کپ لے کر بیٹھ جاتی۔ پرانی تصویریں اور رمشہ کی شادی کی تصویریں دیکھ کر ان مصروف اور خوش کن بیتے لمحوں کو یاد کرتی۔
آج بہت دنوں کے بعد سمیرہ کو پرانے دن شدت سے یاد آرہے تھے۔ اسے یاد آرہا تھا کہ جس مصروفیت اور جس بوجھ سے وہ حد درجہ نفرت کرتی تھی دراصل وہی اس کی زندگی کا ایندھن تھے۔ وہی اس کی زندگی کے باغ کی بہار تھے۔ اسی سے اس کا دن آسانی سے گزر جاتا تھا اور رات میں نیند بھی پرسکون ہوتی تھی۔ اسی سوچ کے درمیان اس نے اپنا چائے کا کپ صحن میں رکھی میز پر رکھا اور خزاں کے پتوں کو دیکھنے لگی۔ اس کی زندگی بھی ان درختوں کی طرح خالی ہوچکی تھی۔ وقت گزاری کے اس نے ہزار طریقے اپنائے لیکن کوئی کارگر نہ ہوا۔ وہ نوکری پر بھی واپس جانے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔ تبھی ایک دن اس نے اخبار میں دیکھا کہ ایک خاتون کسی نومولود بچی کو ایک سرکاری اسپتال کی دہلیز پر چھوڑ گئی ہے۔ سمیرہ کے دل میں پہلے خیال آیا کہ کیسی پتھر دل ماں ہوگی وہ! پھر اس کی مجبوری نے اس کو اس خیال کے متعلق کچھ اور سوچنے سے باز رکھا۔ لیکن اس خبر کے اخیر میں سرکاری ادارے کی طرف سے اعلان تھا، کہ اگر کوئی اس بچی کو گود لینا چاہتا ہو تو وہ اس پتہ پر رابطہ کرے۔ اعلان نے اس کے دل میں ایک ترنگ چھیڑ دی۔ اسے محسوس ہوا کبھی ختم نہ ہونے والے اس خزاں کے موسم میں وہ لاوارث بچی ضرور موسم ِ بہار کی پہلی کونپل بنے گی۔ یہ سوچ کر اس نے اخبار بند کیا اور اپنے شوہر سے بات کرنے کے لئے اس کی طرف چل دی۔