دنیا زوروشور سےاس نووارد ٹیکنالوجی پر داؤ لگا رہی ہے، مگر ڈیٹا کی کمی ، بڑھتی انفراسٹرکچر لاگت اور بھرپور منافع کی توقع کے سبب ماہرین معیشت فکرمند ہیں۔
صنعتی انقلاب نے جسمانی محنت کو خودکار کیا تھا، مگر جنریٹیو اے آئی ذہنی محنت اور فیصلہ سازی کو بھی خودکار کر رہا ہے۔ تصویر:آئی این این
ہم’چیٹ جی پی ٹی‘ کے جاری ہونے کی تیسری سالگرہ کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ جب اوپن اے آئی نے اسے لانچ کیا تھا، تب دنیا حیران رہ گئی تھی۔ پہلی بار عام لوگوں کو براہِ راست جنریٹیو آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا تجربہ ملا، لارج لینگویج ماڈلز(ایل ایم ایز)کی بدولت مختصر الفاظ میں ہدایت پاکر درست، مربوط اور سیاق و سباق پر مبنی جواب دینے والی تکنیک سے ہر خاص و عام متاثر ہوئے بنا نہیں رہے ۔اس انقلاب کو برپا ہوئے اب تین سال ہوچکے ہیں،آج ہم ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیںجو صرف عالمی معیشت کیلئے نہیں بلکہ انسانی تہذیب کے مستقبل کیلئے بھی ہے۔ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ جنریٹیو اے آئی وہ تکنالوجی ہے جو تعلیم سے لے کر کاروبار تک زندگی کے ہر پہلو کو بدل رہی ہے۔
درحقیقت جنریٹیو اے آئی پچھلے ہر تکنیکی انقلاب سے بنیادی اعتبار سے قدرے مختلف ہے۔ اس کا استعمال تیزی سے سے دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔ اوپن اے آئی کے نئے اے پی آئی صارفین میں سے تقریباً۷۰؍ فیصد اب امریکہ سے باہر کے ہیں۔ پچھلی پانچ دہائیوں میں کسی امریکی ٹیکنالوجی نے اتنی تیزی سے عالمی رسائی حاصل نہیں کی۔ مزید یہ کہ ری انفورسمنٹ لرننگ اور مسلسل اپگریڈز کی وجہ سے’ایل ایل ایم‘وقت کے ساتھ خود کو بہتر بنا رہے ہیں۔ صنعتی انقلاب نے جسمانی محنت کو خودکار کیا تھا، مگر جنریٹیو اے آئی ذہنی محنت اور فیصلہ سازی کو بھی خودکار کر رہا ہے،جو کبھی انسانوں کی خاص صلاحیت سمجھی جاتی تھی۔ایس آئی ایس کولکاتا کے پروفیسر دِگنتا مکھرجی کے مطابق’’ کمپیوٹرائزیشن کے بعد اے آئی اگلا سب سے بڑا انقلاب ہے۔ جس طرح۱۹۹۰ء کی دہائی میں ہم نے نچلی سطح کے دہرائے جانے والے کام خودکار کیے تھے، اب اے آئی اعلیٰ سطح کے فیصلوں کو بھی سنبھال رہا ہے۔‘‘
سرمایہ کاری کا دباؤ اور بڑھتی ہوئی تشویش
اے آئی میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع بے مثال ہیں۔ الفا بیٹ، این وِڈیا، ایپل، مائیکروسافٹ اور امیزون اے آئی تکنیک میںنئی حصولیابیوں کیلئے سرگرداں ہیں، ان پانچوں کمپنیوںکا امریکی شیئر بازار کے ایس اینڈ پی ۵۰۰؍انڈیکس میں مجموعی طور پر ایک تہائی شراکت داری ہے۔۲۰۲۵ء میں ایس اینڈ پی ۵۰۰؍کے تقریباً۸۰؍ فیصد منافع کا محرک بھی اے آئی کمپنیاں رہی ہیں۔مگر مسلسل اپ ڈیٹ ہونیوالے ایل ایل ایم میں بہتری اب عام صارف کیلئے کم نمایاں محسوس ہو رہی ہے۔
اے آئی کی تین بڑی مشکلات
(۱) ڈیٹا ایگزوشن: سبھی ایل ایل ایم اب تقریباً تمام دستیاب عوامی ڈیٹا پر تربیت پا چکے ہیں۔ایسے میں نئے انسانی ڈیٹا کی کمی ہے، اور اے آئی کے بنائے ہوئے مواد سے بہت کم فائدہ ہوتا ہے۔یہ مسئلہ اخلاقی تنازعات کو بھی جنم دیتا ہے۔۲۰۲۳ء میں فنکار سارہ اینڈرسن، کیلی میکرنن اور کارلا اورٹیز نے اے آئی کمپنیوں کے خلاف مقدمہ کیا کہ ان کے فن پارے بغیر اجازت ٹریننگ میں استعمال کیے گئے۔ یہ مقدمہ مستقبل میں اے آئی کے ڈیٹا سورسنگ قوانین کا رخ بدل سکتا ہے۔
(۲) حقیقی کاروباروں میں اے آئی کو منافع بخش بنانا مشکل: ایل ایل ایم چیٹ بوٹس نے کلریکل کاموں سے راحت تو دی ہے۔ کوڈنگ میں اے آئی کی مدد سے کارکردگی بھی بڑھی ہے۔ ویڈیو جنریشن ٹولز کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے، مگر ان فوائد کا گراف رک گیا ہے۔ ایم آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق۹۵؍ فیصد کارپوریٹ اے آئی پائلٹ پروجیکٹس ناکام ہو چکے ہیں۔
(۳) جنریٹیو اے آئی کی لاگت بہت زیادہ ہے: کیونکہ ایل ایل ایم کو چلانے کیلئے روزانہ کروڑوں اے پی آئی کالز، بجلی کا بہت زیادہ استعمال، ڈیٹا سینٹرز کی کولنگ کے لیے پانی اور توانائی، تیزی سے بدلتی چپ ٹیکنالوجی جس سے مہنگا ہارڈویئر جلد متروک ہو جاتا ہے۔ ۲۰۳۰ء تک امریکہ میں بجلی کا ۱۰؍ فیصد حصہ ڈیٹا سینٹرز استعمال کریں گے۔
امیدیں قیاس آرائی نہ بن جائیں
اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود یہ شبہاب پیدا ہورہے ہیں کہیں یہ سب hype تو نہیں؟ اگر جنریٹیو اے آئی وہ تبدیلی نہ لا سکا جس کا وعدہ کیا جا رہا ہے، تو معاشی، سماجی اور سیاسی سطح پر بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔بیشتر ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ایل ایل ایم پر حد سے زیادہ سرمایہ لگا کر دیگر اے آئی میتھڈزکو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ چونکہ ایل ایل ایم صرف زبان سے سیکھتے ہیں اور حقیقی دنیا سے براہِ راست جڑتے نہیں، اسلئے ’جنرل آرٹی فیشیل انٹیلی جنس‘ابھی بھی دور ہے۔
کیا اے آئی بلبلہ ہے؟
ماہرین معیشت بھی اس حوالے سے فکرمند ہیں، کیونکہ اے آئی سیکٹر میں بلبلے کی تمام علامات نظر آرہی ہیں،مثلاً این وِیڈیا ، اوپن اے آئی کو چپس فروخت کرتی ہے،اوپن اے آئی کا ایک بڑا حصص مائیکروسافٹ کے پاس ہے،این وِیڈیا دوبارہ سرمایہ کاری کرتی ہےیوں ایک بند مالیاتی چکر بنتا ہے، جو ماضی کے’ڈاٹ کوم ببل‘ کی یاد دلاتا ہے۔اپنی کتاب’ببلز اینڈ کریش‘ میں برینٹ گولڈفارپ اور ڈیوڈ اے کرش نے درج ذیل چار بڑے خطرات کے اشارے بتائے ہیں:(۱) غیر یقینی صورتِ حال(۲) ’پیور پلے‘ کمپنیاں(۳) ناتجربہ کار سرمایہ کاراور(۴) نیریٹیو فیور۔بفیٹ انڈیکس۲۰۰؍فیصد سے بھی اوپر جا چکا ہے، جو ڈاٹ کام کریش سے پہلے کی سطح سے بھی زیادہ ہے۔اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹ مین نے کبھی اے آئی انقلاب کو’ مین ہٹن پروجیکٹ ‘سے مشابہ قرار دیا تھا۔ اس پیش رفت نے تاریخ بدل دی ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو آج ہمارااے آئی پر لگا داؤ اتنا بڑا ہے کہ اس کا نتیجہ صرف مارکیٹ یا الیکشن پر نہیں پڑے گا، بلکہ انسانی تہذیب کی سمت بھی متعین کر سکتا ہے۔
دونوں ہی مضمون نگار مارشل اسکول آف بزنس، یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے پروفیسرزہیں۔(بشکریہ: ڈیکن ہیرالڈ)