Inquilab Logo Happiest Places to Work

اوڑھنی اسپیشل: بچپن کی پہلی بارش کی یادیں

Updated: June 13, 2024, 2:39 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Children enjoy the rainy season and stay drenched in the rain for hours. Photo: INN.
بچے بارش کے موسم کا خوب لطف اٹھاتے ہیں اور گھنٹوں بارش میں بھیگتے رہتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

ہر فکر سے آزاد وہ بچپن کی بارشیں آج بھی یاد ہیں

 
ہمارے زمانے میں چھاتے کا اتنا رواج نہیں تھا چھوٹے بچوں کو تو چھاتا صرف دیکھنے کوہی ملتا تھا اسکو چھونے اور کھولنے کی اجازت نہ تھی۔ ایک رین کوٹ ہوتا جو سال در سال چلایا جاتا۔ بستہ کے اوپر اسکو پہن کر، راستے پر جمع شدہ پانی پر کود کود کر چلنا تاکہ چھپا چھپ پانی اڑے۔ ہر فکر سے آزاد وہ بچپن کی بارشیں آج بھی یاد ہیں۔ اسکول پہنچ کر رین کوٹ کے سوکھنے کے بعد اسے بینچ پر پھیلا کرتہہ کرنا، حفاظت سے بستہ میں رکھنا کہ گم ہوگیا تو خیر نہیں ۔ 
 ہمارے گھر میں ایک ایلومینیم کی پیٹی( جسے بطور بستہ استعمال کیا جاتا جو بہت کم بچوں کے پاس ہوتی)تھی جو بڑے بھائیوں کے استعمال کے بعد مجھے میسر آئی تھی۔ رین کوٹ نہ ہونے کی صورت میں یا اچانک بن موسم برسات میں یہ پیٹی بڑا سہارا دیتی تھی۔ اس کو سر پر رکھ کر میں بارش سے بچنے کی اداکاری کرتی تاکہ ممی کی ڈانٹ سے بچ جاؤں کیونکہ دل تو بارش میں بھیگنے کے لئے مچلتا رہتا تھا۔ ایک بار نیا جوڑا پہن کر ہم لوگ آپا کے سسرال گئے تھے، بس سے اترتے ہی بارش ہونے لگی، میرے نئے جوڑے کا کچا رنگ چھوٹنے لگا۔ گھر پہنچنے تک تو جوڑا اپنی اصلی حالت کھو چکا تھا۔ مجھے تو بڑا مزہ آیا بھیگنے میں پر ممی کونیا جوڑا خراب ہونے کا غم ستائےجا رہا تھا۔ ماضی کے وہ یادگار لمحات ایسا لگتے ہیں جیسے آج کل ہی کی بات ہوں۔ 
رضوانہ رشید انصاری (بلجیم)
انگلی کا زخم آج بھی اُس بارش کی یاد تازہ کردیتاہے
بچپن کی بارش اور ان کی یادیں آج بھی میرے ذہن میں اچھی طرح تازہ ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ چاقو لے کر سب سے چھپ کر قلم بنانے کی چکر میں نے اپنی انگلی کاٹ لی تھی۔ تیز موسلا دھار بارش ہورہی تھی اور میں  بیچ آنگن میں کھڑی ہوکر درد سے چلا رہی تھی۔ انگلی سے بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا۔ امی کو پتہ چلا تو دوڑتی ہوئی آئیں۔ چاقو لے کر پھینکا اور انگلی کو دبائے ہوے برآمدے میں لےگئیں، دوا لگا کر پٹی باندھی اور پھرخوب ڈانٹا۔ انگلی کا نشان آج بھی اس بارش کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ 
ایس خان( اعظم گڈھ)
وہ پانچویں  جماعت میں  ہمارا پہلا دن !


پنجم میں  وہ ہمارا پہلا دن تھا۔ نئے دوست اور نئے اساتذہ، نیا ماحول۔ کندھے پر بیگ لٹکائے ہاتھ میں چھتری لیے چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ اسکول کے لئے تیزی سے روانہ ہونا۔ ہم ایسے خطے میں رہتے تھے جہاں بارش جلدی شروع ہو جاتی تھی۔ آسمان پر کالے گھنے بادل چھا گئے تھے۔ چاروں طرف پہاڑ اور اس میں سے گرتا ہوا آبشار کا پانی جو پہاڑوں کے درمیان اپنا راستہ بناتے ہوئے نکلتا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اور پہاڑوں پر برسات کے بعد آسمان کی طرف اُڑتا ہوا سفید کہرا۔ ہمارا اسکول چونکہ ایسی جگہ تھا جہاں سےکچھ ہی دور پانی کی بڑی کھاڑی تھی جس میں سے پانی میں چلتی کشتی کی آواز آتی رہتی تھی۔ کلاس روم میں بیٹھے ہم باہر بارش کے ماحول سے بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔ باہر گرتا ہوا بارش کا پانی اور کلاس روم میں بہتا علم کا سمندر، آسمان سے گرتی ہوئی بارش کی ہر بوند چمکتے ہوئے موتی کی مانند لگتی تھی۔ ایسا لگتا تھا نایاب موتی آسمان سے زمین پر گر رہے ہوں۔ جیسے ہی پانی کے قطرے زمین پر گرتے ٹپک ٹپک کی آواز آتی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہر بوند کے ساتھ آسمان سے فرشتے زمین پر آرہے ہوں۔ دوپہر میں کھانے کی چھٹی کے دوران ہم کلاس کے باہر گراؤنڈ میں آ کر چھوٹی چھوٹی کاغذ کی کشتیاں بناتے اور درختوں کی جڑوں میں جمع شدہ پانی پر تیرنے کے لئے چھوڑ دیتے اور پھر انہیں  تیرتا ہوا دیکھ کر خوشی سے تالی بجاتے۔ اسکول کی چھٹی کے بعددوستوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے گھر کیلئے روانہ ہوتے اور ایک دوسرے کے اُوپر پانی اچھالتے ہوئے اپنے اپنے گھروں پر پہنچ جاتے۔ راستے سے چلتے ہوئے چھتری کھولنا اور بند کرنا تیز ہوا کی وجہ سے بڑا لطف اندوز ماحول لگتا تھا۔ 
کبھی کبھی ہم جان بوجھ کر بھیگ جایا کرتے تھے۔ زیادہ بارش کی وجہ سے پانی ندیوں سے راستوں تک آجاتا، اس دوران ہم دو باتوں سے خوش ہوتے تھے، ایک تو اسکول کی چھٹی اور دوسرا زیادہ پانی دیکھنے والا منظر۔ وہ یادیں آسمان سے گرتا ہوا پانی اور کا لے بادل جو بارش کے بعد قوس قزح  کے ۷؍ رنگوں میں تبدیل ہو جاتے تھے۔ پہاڑوں سے گرتا ہوا آبشار اور آسمان تک پہنچتا ہوا کہرا، بھیگے ہوئے راستے اور پانی سے لبالب ندی اور کنوئیں، گھروں سے نکلتا ہوا دھواں جو گرم چولہے کے بنائے ہوئے کھانوں کا ہوتا تھا۔ پانی میں تیرتی ہوئی ننھی مچھلیاں اور کاغذ کی بنی ہماری کشتیاں۔ رنگ برنگے چھتریاں لیےوہ بچپن کی بارش وہ بچپن کی یادیں آج بھی دل و دماغ کو تازگی بخشتی ہیں۔ 
آفرین عبدالمنان شیخ( شو لا پور مہاراشٹر)
بارش کی یادیں  لبوں  پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں

 
پچپن کی یادیں ہر ایک کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں۔ پچپن میں   بارش کا ہم نے خوب لطف اٹھایا۔ بارش سے پہلے بادلوں کا گرجنا، بجلیوں کا کڑکنا، زور دار ہواؤں کا چلنا اور بجلی کا اچانک غائب ہو جانا، ہر طرف اندھیرا چھا جانا۔ 
تھوڑا ڈر محسوس ہوتا تھا لیکن خوشی سےبارش میں بھیگنے اور کاغذ کی ناؤ بنا کر پانی میں چھوڑنے میں  بڑا مزہ آتا تھا۔ بارش کی رم جھم اور چھاتے سے کھیلنا، تیز ہواؤں کے سبب چھاتے کا ہاتھ سے چھوٹ جانا اور پھر اس کے پیچھے دوڑنا، مٹی کی سوندھی خوشبو سے آنگن کا مہک اٹھنا، پیڑ پودوں کا دھل جانا۔ بارش کا پانی جمع، بلا وجہ بارش میں بھیگنا سب کچھ ذہن میں  اب بھی تازہ ہے۔ 
خان نرگس سجاد(جلگاؤں، مہاراشٹر)
’’ ہم چھت پہ چڑھ جاتے اور خوب نہاتے ‘‘
بچپن کی پہلی بارش کی یادیں ذہن میں نقش ہیں۔ جب ماضی کی حسین یادیں دل کے جھروکوں پہ دستک دیتی ہیں تو بچپن کی وہ بارش کبھی نہیں بھولتی۔ ہمارا گھر گاؤں سے باہر تھا جہاں سے ہمیں بارش کے بعد کا دلکش نظارہ دیکھنے کو ملتا۔ 
برستی بارش میں ہم چھت پہ چڑھ جاتے اور خوب نہاتے۔ امی منع کرتی رہتیں   مگربھیگتے رہتے۔ ہمارے بچپن میں بارشیں بھی خوب ہوتی تھیں۔ ہمارے گا ں کے خاص تالاب اور کھیت کھلیان اسطرح بھر جاتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہر طرف برف کی سفید چادر بچھی جا رہی ہو۔ یہ حسین منظر ہمیں اپنی چھت سے دکھائی دیتا تھا۔ ایک بار موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ ہم نے اس جا لطف لینے کا نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ اپنی چھت سے پانی کے نکلنے کے سارے راستے بند کردیا جس کے بعد وہ ایک سوئمنگ پول یا تالاب جیسا بن گیااور پھر اس میں ہم بھائی بہن دیر تک نہاتے رہے۔ اب احساس ہوتا ہے کہ یہ حرکت ٹھیک نہیں  تھی۔ بہت دیر تک نہانے کے بعد میرے کان میں ایسا درد اٹھا کہ کی آج تک یاد ہے۔ امی سے خوب ڈانٹ بھی پڑی تھی۔ بچپن کی وہ حسین یادیں دل پر بہت اچھا اثر کرتی ہیں۔ اب تو ترس گئے ہیں۔ بچپن کتنا بھولا ہوتا ہے۔ کاغذ کی کشتی سے بھی کتنی خوشی ہوتی تھی اب تو خواہشات بے لگام ہیں خوش رہنے کیلئے لاکھوں درکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیاوی خواہشاتِ سے آزاد کر دے۔ آمین
ایمن سمیر( اعظم گڑھ یوپی)
بارش اللہ کی رحمت اور سب سے بڑی نعمت ہے


بچپن کی بارش کی یادیں لا محدود ہیں۔ جوں ہی شدید گرمی کا موسم ختم ہوتا، میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ گاؤں میں اپنی خا لہ امی کے گھر چلی جایا کرتی تھی۔ کھیت میں پہلی بارش کا خوب مزہ لیتی۔ اس وقت کھیچ میں بیج بونا شروع ہو جاتا تھا۔ اس میں آموں کا موسم بہت لطف دیتا تھا۔ جون کے آخر میں اسکول شروع ہوتی تھی۔ ہم بہن بھائی اپنی پڑھائی میں مشغول ہو جاتے۔ ایک باربارش ہورہی تھی۔ میرے چھوٹے بھائی نے میری ہوم ورک کی بُک کے ورق نکال کر کا غذ کی کشتی بنائی اور پانی میں بہا دی۔ اگلے دن کلاس میں ٹیچر کی ڈانٹ مجھے کھانی پڑی۔ اس کے ساتھ ہی بعد میں   ساتھ میں امی جان ابو جان کی ڈانٹ بھی ملی۔ بچپن کی یادیں تو میرے لیے انمول اور زندگی کا سنہرا اثاثہ ہیں۔ ذکر جب شرارتوں کا ہو تو اداس لمحوں میں مسکان بن کر چہرے پر جگمگانے لگتی ہیں۔ بارش کے موسم میں  آسمان میں قوس قزح کا جلوہ افروز ھونا اوراسے دیکھ کر ہمارا مچل جانا، آج بھی یاد ہے۔ 
فرحین انجم(امراوتی۔ مہاراشٹر)
بارش کی وہ خوبصورت شام!


میں بہت چھوٹی تھی۔ ہم (میں، ابو، امی اور دادی) جمشید پور میں  مقیم تھے۔ ٹاٹا والوں کی طرف سے میرے ابو کو ۲؍ کمروں کا گھر ملا ہواتھا۔ گھر میں  ڈرائنگ روم، کشادہ کچن، ایک چھوٹا سا اسٹور روم، دو الگ الگ باتھ رومس (ایک اندر اور ایک باہر) اور اندر باہر صحن بھی تھا۔ باہر کا صحن باؤنڈری اور میرے ابو کے مزاج سے مماثلت رکھتا ہوا پھولوں کی کیاریوں سے مزین تھا۔ لیموں کا ایک پیڑ اور پپیتوں کے چند پیڑ اس کے حسن میں نکھار پیدا کرتے تھے جس کی دیکھ بھال کیلئے میرے ابو نے ذاتی طور پر ایک جز وقتی مالی رکھا ہوا تھا۔ ایک دن میں  باہر کھیل رہی تھی کہ اچانک آسمان پر بادل چھا گئے اور ہلکی ہلکی بوندیں پڑنی شروع ہوگئیں۔ امی کے مطابق نیلی اورگلابی رنگ کے فراک میں میں  بالکل گڑیالگ رہی تھی۔ موسم سہانا تھا۔ میں دھیرے سے پھولوں کی کیاریوں کے پاس چلی گئی۔ مین گیٹ بند تھا۔ سوگھی زمین پر جب بوندیں پڑنے لگیں تو عجب سی مہک اٹھی۔ سوندھی سوندھی سی خوشبو۔ دیکھتے ہی دیکھتے تیز بارش ہونے لگی۔ 
میں اپنی ننھی ننھی جوتیوں سمیت لان کی گھاس پر پانی میں چھپ چھپ کھیلنے لگی۔ سارے کپڑے پانی سے تربتر ہوگئے۔ اندرگھر میں اچانک دادی یاد آئی کہ پوتی کہاں  ہے۔ ڈھونڈتے ہوئے باہر لان میں  آئیں اور مجھے یوں  بھیگتا ہوا دیکھ کر چیخ پڑیں۔ اپنی پروا کئے بغیر بارش میں بھیگتی ہوئی فوراً آکرمجھے گود میں اٹھا لیا۔ سائبان میں آکر میری امی کو آواز دی۔ وہ دوڑ کر تولیه لائیں اور دادی نے سر سے پاؤں تک پانی پونچھ کر خشک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اتنی دیر میں امی دوسری فراک اور چڈی لے کر آچکی تھیں۔ دونوں نے مسکراتے ہوئے تھوڑی سی سرزنش بھی کی اور بے انتہا پیار بھی کیا۔ بارش رکنے کے بعد جب ابو باہر سے آئے تو انہیں  پوری تفصیل بتائی گئی۔ اس واقعے کا انہیں علم ہوا تو ان کا پیار ایسے امڈا کہ وہ اپنی چائے وائے بھی بھول گئے اور مجھے بہت دیر تک اپنے سینے سے لگائے بیٹھے رہے۔ بارش وہ خوبصورت شام کو میں آج تک نہیں بھول پاتی۔ 
ناز یاسمین سمن (پٹنه)
رین کوٹ پہن کے چھم چھم کرنا

 
بچپن وہ قیمتی شے ہے جس کے کھو جانے کا غم ہر انسان کو تاعمر ستاتا رہتا ہے۔ انسان دنیا میں چاہے کتنی ہی نعمتیں حاصل کر لے، بلند سے بلند مقام و مرتبہ پر فائز ہوجائے مگر بچپن کا رنگ کبھی نہیں  بھول سکتا۔ وہ اس کے دل و دماغ پر چھایا رہتا ہے۔ بچپن یادوں  میں ایک سنہری دور کی طرح جگمگاتا رہتا ہے۔ انگریزی کے مشہور شاعر جان ملٹن نے بچپن کو ’’جنت ِ گمشدہ‘‘ کہا ہے یعنی کھوئی ہوئی جنت۔ اس دور میں نہ جانے کیا کچھ چھپا ہوا ہے حمایت شرارت شوقیہ اور سب سے بڑھ کر اپنوں کی محبت۔ بچپن کی پہلی بارش میں پانی میں کاغذ کی کشتی بنا کر اترانا، گرما گرم پکوڑے کھانا، رین کوٹ پہن کے چھم چھم کرنا اور نہ جانے کتنی ڈھیر ساری یادیں ہم جب بھی بارش کے موسم میں تازہ ہوجاتی ہیں اور یہ یادیں  کبھی لبوں  پر مسکان تو کبھی آنکھوں میں  آنسو لے آتے ہیں۔ 
فرح عمیر انصاری (آگری پاڑہ، ممبئی)
بچپن میں چھتری لے کر نکلنے کا الگ ہی لطف ہوتا
بچپن میں جب برسات کا موسم آتا تو مجھے بارش میں چھتری لے کر باہر نکلنے میں  بڑا مزہ آتاتھا۔ کبھی کبھی جب بارش ہورہی ہوتی تو سب سے آنکھیں  بچا کر چھپ کر صحن میں جاکر بیٹھ جایا کرتی تھی۔ بارش کے قطروں کی آواز مجھے بہت بھلی لگتی تھی۔ ایک عجیب سی موسیقیت اورسرور سا محسوس ہوتا تھا۔ کالج کے دنوں میں بارش کے وقت ایسی جگہ بیٹھ جاتی تھی جہاں پر بارش کے قطرے ہوا کے دوش پر اُڑ کر مجھے گیلا کردیتے تھے۔ بس یہ دو باتیں میرے لاشعور میں   اس وقت سے ذہن میں بیٹھ گئی تھیں اس لیے بچپن میں بارش مجھے بہت ہی اچھی لگتی تھی اس لیے مَیں چھتری لے کر بارش میں نکلتی۔ 
نکہت پروین (عمرگنج بلیا، یوپی)
بچپن کی پہلی بارش کی یادیں 
بچپن کی پہلی بارش کی یادوں کو ماضی کے اوراق میں ڈھونڈاا تو مجھے اپنے ہاں کا وہ کھپریل کا مکان یاد آیا جو بارش آتے ہی کہیں نہ کہیں سے ٹپکنا شروع ہوجاتا تھا۔ یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب بارش اور آندھی ایک ساتھ آتی، گرجتے بادل کڑکتی بجلی سے سہم کر ہم بچے گھر کے اندر چلے جاتے یا بستر میں دبک جاتے، اس وقت اباگھر کے چوکھٹ پر کھڑے ہوکر اذان دیتے، اذان کی آواز ہم سب کے سہمے ہوئے دل کو تقویت پہنچاتی، آندھی کا زور کم ہوتا تو جان میں جان آجاتی۔ کچی مٹی کے آنگن میں بارش کے بعد پھسلن ہوجاتی تھی جس پر احتیاط سے چلنا پڑتا تھا، ذرا دھیان بھٹکتا پھسل کر گر جاتے۔ چوٹ جو لگتی سو الگ۔ کپڑا کیچڑ میں لت پت ہوجاتا۔ اب وہ کچا مکاں اوراس کے مکیں بہت یاد آتے ہیں۔ 
بنت شبیر احمد (  ارریہ، بہار)
کاش !وہ بارش اور بچپن پھر سے لوٹ آتا
مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن کا وہ ایک سہانا دن تھا جب میں اسکول سے اپنے دوستوں کے ساتھ گھر لوٹ رہی تھی۔ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا پھر موسلادھاربارش ہونے لگی۔ اس باش میں ہم دوڑتے، کھیلتے اور سرسے پیر تک بھیگتے اپنے اپنے گھروں کو پہنچے۔ اماں مجھے دیکھتے ہی فکرمند ہوگئیں اور کہنے لگیں کہ سردی ہوجائے گی۔ انہوں نے مجھے نہلایا، سرکو اچھی طرح خشک کیا، کپڑے پہنائے اور گرما گرم کھانا دیا۔ 
تسنیم کوثر نوید (ارریہ، بہار)
بچپن کی پہلی بارش بھلائے نہیں بھولتی


بچپن انسانی زندگی کا وہ دور ہے جسے انسان کبھی فراموش نہیں کرسکتا اور بات جب بچپن کی بارش کی ہوتو یہ لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ مئی کی جھلسادینے والی گرمی کے بعد جب آسمان پر کالے بادل چھاجاتے ہوں اور پھر جھما جھم بوندوں کا سلسلہ شروع ہوتا تو ہم سارے بچے بے قرار ہوکر گھروں سے باہر نکل آتے۔ پیاسی زمین پر جب بارش کی بوندیں پڑتی تو مٹی سے اٹھنے والی سوندھی سوندھی خوشبو ہم سب کو دیوانہ کردیتی۔ ہنستے کھکھلاتے ایک دوسرے پر پانی اچھالتے ہم خوب خوب ہنگامہ کرتے۔ ہماری امی دروازے پر کھڑی آوازیں لگاتی رہتیں :’’ ارے بچوں اندر آجاؤ بیمار پڑ جاؤ گے۔ ‘‘ مگر ہم ان سنی کرکے اپنے مشغلے میں مصروف رہتے۔ آخر جب تھک جاتے تب ہی اپنے گھروں کا رخ کرتے۔ امی ہمارے لئے تولیہ اور کپڑے تیاررکھتیں جب کپڑے بد ل کر باہر آتے تو گرما گرم چائے کا کپ پکڑا دیتیں۔ بچپن کی پہلی بارش بھلائے نہیں بھولتی۔ 
رضو ی نگار اشفاق( اندھیری)
بچپن کی بارش کی یادیں 
جب پہلی بارش ہوتی تھی تو ہم لوگ خوب نہایا کرتے تھے۔ چھت پر چڑھ کر ہم سارے بہن بھائی خالہ وغیرہ نانی کے گھر کی چھت پر کپڑا نالی میں لگا کر پانی روکتےا وراسی پانی گھنٹوں نہاتے تھے۔ تیز بارش میں پھر نیچے آکر لکڑی کے پالنے میں بیٹھ کر بیسن کی روٹی اور پیاز مرچی کروندے کی سبزی کھایا کرتے تھے۔ گرم گرم روٹیاں اور آم پوری کے ساتھ کھایا کرتے تھے۔ ہماری دادی جو بے پناہ صلاحیتوں کی مالک اور بے پناہ نیک سیرت تھیں، جیسے ہی بارش شروع ہوتی بغیر کسی جھنجھلاہٹ کے خوشی خوشی پکوان بناتی تھیں اور ہم سب محلے کی عورتیں اور بچے نیم کے پیڑ کے نیچے جھولے میں خوب جھولتے تھے اورایک بار جھولتے ہوئے ہماری چھوٹی بہن ریشم جو واقعی ریشم کی طرح ملائم دل ودماغ کی مالک ہے اس کے ناک میں ہمارا پیر لگنے سے ناک سے خون آگیا تھا جس کی وجہ سے مار کے ڈر سے ہم لوگ چھپ گئے تھے چونکہ ہماری امی جان کا غصہ بہت تیز تھا جو آج بھی ہے تب ہمیں ہماری دادی نے بچایا تھا۔ 
شاہین قریشی ( لکھنؤ)
بچپن کی پہلی بارش کی میٹھی یادیں 
بچے ہوں یا بوڑھے بارش کا موسم ہر عمر کے لوگوں کو پسند ہوتا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ بارش کا موسم اچھا لگتا ہے۔ میر ے بچپن کی پہلی بارش کی بہت میٹھی یادیں ہیں۔ جب بھی موسم کی پہلی بارش ہوتی تو ہم سب بھائی بہن گھر کے باہر دوڑ کرجاتے اور جھوم جھوم کر بارش میں بھیگتے تھے۔ میں اور میری بہن اپنے اسکول بیگ میں کاپی کے صفحہ کو پھاڑ کر کاغذ کی ناؤ بناتے اور گھرکے باہر جو پانی جمع ہوتا اس میں اپنی اپنی ناؤ بہاتے اور مقابلہ کرتے۔ بارش کےموسم میں مٹی کی بھینی بھینی خوشبو مجھے بہت پسند ہے۔ بچپن میں سبھی بھائی بہن ساتھ مل کر بارش کے موسم میں خوب کھیلتے اور مزے کرتے تھے۔ آج بچپن کی پہلی بارش کی یادیں صرف یادیں بن کر رہ گئی ہیں۔ سچ کہتے ہیں لوگ کہ بچپن کے دن سنہرے ہوتے ہیں۔ جو کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ 
سید شمشاد بی احمد علی (کرلا)
برسات کا موسم عید سے کم نہ تھا
بچپن میں برسات کا موسم عید سے کم نہ تھا۔ جب موسم کی پہلی بارش ہوتی تو سبھی کے چہرے کھل اٹھتے تھے۔ کبھی کبھی بادل ایسا برستا تھا کہ ہفتہ بھر رکنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ جب آسمان میں بجلی کی چمک اور گرج ہوتی تو ایسا معلوم ہوتا کہ قدرت بھی برسات کا جشن آتش بازی کے ساتھ منا رہی ہے۔ برسات جب تیز ہوتی تو چھٹی ہوجاتی ہم سب بچے موسم کا پورا لطف اٹھاتے، کبھی بارش میں نہاتے، کبھی کاغذ کی ناؤ بناکر پانی پر ڈالتے۔ ان سب کے بیچ امی کی مصروفیت کافی بڑھ جاتی۔ کبھی ناشتے میں بیسن کا چیلا، کبھی چنے کی دال کے پراٹھے، کبھی بیسن کی روٹی بناتیں۔ بالٹی میں آم بھیگے رہتے، پراٹھا آم، مرچ کا اچار اور بھیگے آم خوب مزے سے کھاتے۔ شام کی چائے کے ساتھ پکوڑے کا مزہ لیتے۔ نیم کے پیڑ پر جھولا پڑا ہوتا اس پر بیٹھ کر بارش کی پھوار کا مزہ لیتے۔ کالی کالی جامن کھاتے جاتے، جھولے پر بیٹھتے آم کے پیڑ پر دوپہر کو کوئل کی سریلی آوازکانوں میں رس گھولتی۔ کبھی کبھی چھت پر مور آجاتا۔ اسے بڑ ے شوق سے دیکھتے۔ ادھر لان میں رات کی رانی، بیلا چمیلی اپنی خوشبو سے موسم کو بھی خوشنما بنادیتیں۔ ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے دل کو لبھاتے، ان سب باتوں کو یاد کرکے دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ کاش وہ دن پھر آجائے۔ 
ڈاکٹر حسنیٰ جعفری (علی گڑھ ) 
جب بچپن اور ساون یکجا ہوجاتے تو...
بچپن اور ساون جب یکجا ہوجاتے ہیں تو نہلے پہ دہلا ہوجاتا ہے۔ جیسے ہی بارش کی بوندوں کی ٹپ ٹپ کی آواز آتی ہے کسی بھی طرح گھر سے نکل جاتے اور جب واپس لوٹتے تو پانی میں شرابور کانپتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے کبھی تو گھر والے نظرانداز کردیتے اورکبھی بری طرح پٹائی ہوتی اورکئی دن تک بخار نہیں اترتا تھا۔ بچپن میں آم کھانے کا مزہ ہی انوکھا ہوتا تھا، کبھی درختوں پر جھولا ڈال کر جھولتے۔ کبھی گلہری پکڑتے، کبھی تتلی کو قابو میں کرنے کی کوشش کی جاتی۔ کبھی جگنو کو بوتل میں بند کردیتے۔ ایسے میں پپیہے کی پی کہاں اور مینڈک کی ٹرٹر بھی بہت لطف دیتی تھی۔ نالے کے پانی میں تیری کاغذ کی کشتی آج بھی یاد آجاتی ہے تو دل بے قرار ہوکر یادِ ماضی میں گم ہوجاتا ہے۔ 
رابعہ عبدالغفور شیخ

بارش میں بھیگتے ہوئے اسکول جاتے


کوکن کا علاقہ جہاں میرا بچپن گزرا چاہ کر بھی بھول نہیں سکتی۔ وہاں کا ہر موسم آج بھی ذہن میں اپنی ایک الگ چھاپ رکھے ہوئے ہے۔ آج بھی وہ میٹھی میٹھی یادیں ماضی میں لے جاتی ہیں۔ برسات کے موسم میں جب ہم تیز بارش میں اپنے دوستوں کے ساتھ، بھیگتے، راستے سے شرارت کرتے اسکول جایا کرتے تھے وہ لمحہ کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ راستے کے دونوں جانب بنے دھان کے کھیت اپنی مستی میں جھومتے بھلے معلوم ہوتے تھے۔ پہاڑوں کو چیرتا صاف شفاف پانی اپنی دھن فضا میں بکھیرتا۔ بارش کا پانی درختوں کے پتوں پر موتی کی مانند ٹھہر سا جاتا۔ زیادہ بارش کے بعد جب آسمان بادلوں سے چھٹ جاتا تو پہاڑوں پر سفید کہر اپنی چادر اوڑھ لیتی تھی۔ کبھی کبھی مور کی آواز سنائی دیتی۔ ایسے موسم میں ایک ڈر اور خوشی کے ملے جلے جذبات ہوتے۔ ڈر اس بات کا کہ تیز بارش کہی کوئی بڑا نقصان نہ کر دے اور خوشی اس بات کی کہ تیز بارش کی وجہ سے اسکول سے چھٹی پاکر موسم کے مزے لیں۔ آنگن میں جمع پانی پر کاغذ کی ناؤ بنا کر اسے تھوڑی دور تیرتا دیکھ کر چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتی۔ یہ حسین یادیں دل کے بہت قریب ہیں۔ 
تسنیم کوثر انصار پٹھان (کلیان، تھانے)
بارش، نئے تعلیمی سال کی دستک جیسی تھی


بچپن اور بارش، ان دونوں کے امتزاج میں ہی زندگی کے سنہرے دنوں کی یادیں پوشیدہ ہیں۔ بچپن میں جب موسم باراں کی آمد ہوتی تو ایک عجب کیفیت ہوتی۔ یہ نئے تعلیمی سال کی دستک جیسی تھی ہمارے لئے، کتابیں کھولنے کی آہٹ تھی۔ ساتھیوں سے ملنے کی خوشی تھی، نئی کلاس دیکھنے کی جستجو تھی۔ اسکول سے واپسی پر بارش میں نہانے کا انتظار ختم ہونے کو ہوتا۔ کاغذ کی ناؤ بنا کر پانی میں کشتی چلانے کی پوری تیاری رہتی۔ وہیں دوسری جانب موسم گرما کی طویل چھٹیاں رخصت ہونے کے در پر ہوتیں۔ بے فکری کے دن وداع ہونے کو ہوتے۔ اپنے معمول کے شب و روز پر آنے کا وقت ہو جاتا۔ بیک وقت دو مختلف کیفیتیں ہوتی تھیں۔ کبھی خوشی حاوی ہوتی تو کبھی غم۔ کبھی اسکول یاد آتا تو کبھی چھٹیاں یاد آتیں۔ اور یوں بارش کا موسم شروع ہوتا تھا۔ 
شیخ رابعہ تبریز عالم (ممبئی)
پچپن میں بھیگنے کے بہانے تلاش کرتے تھے


پچپن کی پہلی بارش، وہ بھی کیا دن تھے۔ جب شدید گرمی سے مزاحمت کے بعد ہم پہلی بارش سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ہر مو سم اپنے آپ میں اور اپنے فوائد میں منفرد ہے اور ضروری بھی ہے۔ البتہ برسات کا موسم اپنے ساتھ دل لبھانے والی بہار لئے آتا ہے۔ پہلی بارش آنے سے پہلے بادلوں کی گرج کانوں میں پڑتے ہی ہم اپنے گھروں سے باہر بارش میں بھیگنے جاتے تھے۔ سہیلیاں ہم کو بلانے آتیں اور ہم اور ہماری سہیلیاں والدہ سے اجازت طلب کرتے ہوئے اپنے نکات پیش کرتے تھے۔ البتہ کوئی بھی نقطہ کام نہ آتا اور آخر میں ہمارے قیمتی آنسو بہا کر ہی بھیگنے کی اجازت مل پاتی تھی۔ عجیب بات ہے پچپن میں بھیگنے کے بہانے تلاش کرتے تھے اور اب بھیگنے سے بچتے ہیں۔ 
ارجینا اشرف علی انصاری (بھیونڈی، تھانے)
چائے اور پکوان بارش کے لطف کو دوبالا کردیتے


بارش کی بوندیں جیسے ہی گرنا شروع ہوتیں ہم بچے بڑوں کی ڈانٹ کی پروا کئے بغیر باہر میدان میں آجاتے، بارش میں نہاتے اور کاغذ کی ناؤ پانی میں چلاتے۔ بارش کے بعد دھلے دھلے پیڑ پودے دل کو بے حد لبھاتے۔ بارش کے بعد دھنک کا نظر آنا بے حد حیرت انگیز منظر ہوتا۔ مٹی سے اٹھنے والی مہک دل و دماغ کو معطر کردیتی۔ چائے اور پکوان بارش کے لطف کو دوبالا کردیتے۔ مجھے بچپن سے لے کر آج تک بارش کی بوندوں سے اٹھنے والی مٹی کی مہک، چائے، پکوڑے اور گلگلے بے حد پسند ہیں۔ بچپن کی پہلی بارش کی یادیں آج بھی دل کو خوش کرتی ہیں۔ یہ بچپن کی معصومیت، خوشیاں اور بے فکر لمحات آج کی مصروف زندگی میں بے حد یاد آتے ہیں۔ آج بھی جب بارش ہوتی ہے، تو وہی خوشبو، وہی منظر، وہی احساسات ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں اور ہم ایک لمحے کے لئے پھر سے بچے بن جاتے ہیں۔ 
نکہت انجم ناظم الدین (مانا، مہاراشٹر)
بارش میں بھیگنا اور ابّا کا امی کی ڈانٹ سے بچانا


بارش اللہ کی ہم انسانوں پر خاص عنایت ہے۔ مجھے بچپن ہی سے بھیگنا بے حد پسند ہے۔ میرے ابو کی چھٹی پیر کے دن رہتی تھی تو اس دن سہیلی کے ساتھ اسکول سے بارش میں بھیگتے ہوئے گھر آتی یہ جانتی تھی کہ امی ڈانٹ نہیں پائیں گی کیونکہ ابو گھر میں بچانے کے لئے جو ہیں۔ آج بھی بلڈنگ کی چھت پر پہلی بارش میں بھیگتے ہوئے اپنے ابا کا ساتھ یاد آتا ہے۔ اللہ کا کرم ہے ابا حیات ہیں۔ 
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
چھت میں جمع پانی میں چھپاک چھپاک نہاتے
اس دنیا میں آنے کے بعد کی پہلی بارش تو ذہن کے نہاں خانوں میں موجود نہیں مگر بچپن کی اولین بارشوں کے مٹے مٹے نقوش جو ذہن میں بنتے بگڑتے ہیں کچھ یوں ہیں کہ بارش کو ہمیشہ چھت پر انجوائے کیا جاتا تھا۔ سارے کزنز مل کر بارش میں خوب اودھم مچاتے، چھت سے پانی کی نکاسی والے پائپ کا منہ کپڑے سے بند کرکے پانی کو نیچے گرنے سے روک دیتے اور اپنے تئیں ندی بناتے، اس میں چھپاک چھپاک نہاتے، ایک دوسرے پر پانی کے چھینٹے اڑاتے، سڑک پر نہانے والے بچوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے، اسکول کے وقت میں جو بارش ہوجاتی تو بچوں کی چھٹی کردی جاتی پھر ہم اپنی کتابیں اور کاپیاں ایک شاپر میں رکھ کر بیگ میں رکھتے اور بھیگتے بھیگتے واپس آتے۔ بالکونی سے سڑک پر بارش میں بھیگتے جاتے لوگوں کا نظارہ کرتے وقت ہماری خواہش ہوتی کہ پانی گھٹنوں تک بھر جائے پھر اس میں لوگوں کو گزرتا دیکھیں اور پہلے اکثر برسات میں یہ منظر دیکھنے کو بھی مل جاتا مگر اب سڑکیں پختہ ہوجانے کی وجہ سے یہ نوبت نہیں آتی مگر بچپن کی بارشیں مزیدار تھیں۔ 
سحر اسعد رحمانی (بنارس، یوپی)
اور ہمارے گھر کی دیوار بھی گر گئی....


آج سے ۲۵؍ سے ۳۰؍ سال پہلے کی بات ہے جب میں بچپن کے دور سے گزر رہی تھی۔ ان دنوں ہمارے خطے میں بہت بارش ہوتی تھی۔ کئی دن بارش مسلسل ہوتی تھی۔ کئی دن سورج نہیں نکلتا تھا۔ بستی کے بیشتر گھر مٹی کے بنے ہوئے تھے جو مسلسل ہوتی بارش کو سہن نہیں کر پاتے تھے۔ ان کی چھت اور دیواریں کبھی بھی زمین بوس ہو جاتی تھیں۔ اتفاق سے ہمارا گھر بھی مٹی کا بنا ہوا تھا اور برسات میں ٹپکتا تھا۔ والدین برسات کے آنے سے پہلے چھت پر مٹی ڈال کر اس کی مرمت کرتے تھے۔ ان دنوں بجلی بھی بہت کم آتی تھی اور وہ راتیں اندھیری ہونے کی وجہ سے اور ڈراؤنی ہوجاتی تھیں۔ آس پاس کے گھروں کی دیوار کے گرنے کی آوازیں سن کر دل کانپ جاتا تھا کہ کہیں ہمارے گھر کی دیوار نہ گرجائے۔ ایک رات بہت تیز بارش میں ہمارے گھر کی دیوار بھی گر گئی۔ مجھے اس رات بہت ڈر لگا۔ ہم اپنے گھر کی دیوار سے محروم ہوگئے تھے۔ اللہ اللہ کرکے اس رات کی سحر ہوئی۔ 
ترنم صابری (سنبھل، یوپی)
خود کو بھگو کرخوب لطف اندوز ہوتے


اپنے بچپن میں جب موسم میں برسات کا انتظار ہوتا تھا تو میں مسرت سے بارش کے ہونے کا انتظار کرتی۔ وہ پہلی بارش کی بوند زمین پر پڑتے ہی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو دل سے روح تک کو مہکا دیتی۔ امی کے بنائے سینڈوِچ اور پکوڑے ساری باتیں ذہن میں تازہ ہوگئیں۔ بارش کے شروع ہوتے ہی ہم سب بلڈنگ کی گیلری یا ٹیریس پر جاتے اور گیلی نرم بوندوں سے خود کو بھگو کرخوب لطف اندوز ہوتے۔ یہ وہ یادیں ہیں جو دل سے کبھی نہیں مٹیں گی۔ 
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانہ)
بچپن کی وہ بارش بھلائی نہیں جا سکتی....


گرمیوں کی تعطیل میں ہم چاروں بہن بھائی اپنے اپنے بیگ سنبھال کر والدین کے ساتھ اُتر پردیش میں اپنے آبائی قصبہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ شاید جون کا آخری ہفتہ رہا ہوگا۔ اچانک اس دن کالا اندھیرا چھا گیا اور بجلی کڑکنے لگی آسمان بھورے بادلوں سے گھر گیا۔ ایک زور دار دھماکہ تیز روشنی کے ساتھ ہوا۔ ایسا لگا جیسے کہیں بجلی گری ہو۔ اس کے بعد تیز موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ حالانکہ ہمارا گھر اچھی خاصی اونچائی پر تھا۔ لیکن بارش اتنی زیادہ تھی کہ پانی گھر کے اندر آگیا اور ہم ایک پلنگ پر بیٹھنے پر مجبور ہوگئے۔ چھوٹی موٹی چیزیں پانی میں بہنے لگیں جن کو بڑی مشکل سے اکٹھا کرکے مچان پر رکھ دیا کہ مینڈک نمودار ہو گئے جنہیں دیکھ کر بہت مزہ آیا۔ کچھ ہی دیر میں بجلی گل ہوگئی۔ اب تو ڈر کے مارے برا حال تھا۔ صبح ہوتے ہوتے پانی اُتر چکا تھا۔ ہلکی دھوپ بھی نکل آئی۔ ہمارے والدین جو ہمارے آرام سے سونے کے بعد ساری رات سامان کو سمیٹتے اور سلیقے سے رکھتے رہے ہوں گے۔ دن میں دیواروں پر گیلی چادریں، تکیے، اور گدے سکھانے کے لئے ڈال رہے تھے۔ بچپن کی وہ بارش بھلائی نہیں جا سکتی۔ ایک پر کیف یادداشت بن چکی ہے۔ 
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
بچپن کی بارش اور خوف


اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد جو پہلی بارش ہلکی ہلکی یاد ہے وہ ایسی تھی جس نے میرے ذہن میں اچھا تاثر نہیں چھوڑا تھا۔ ایسی زبردست بارش ہوئی تھی کہ ہر طرف پانی بھرا تھا۔ پورے شہر میں، ہم لوگوں کے گھر میں بھی پانی بھر گیا تھا جس میں بہت نقصان ہوا۔ بس پھر ہر بارش میں وہی خوف طاری ہو جاتا کہ پانی بھر جائے گا۔ اگر اسکول میں ہوتے تو رونے لگتے کہ گھر کیسے جا پائیں گے۔ سب سہیلیاں بارش کا مزہ لیتی اور ہم خوفزدہ رہتے، دھیرے دھیرے وقت کے ساتھ سمجھ گئے اور خوف بھی دل سے نکل گیا ہے۔ اب ہم بھی سب کی طرح بارش کا مزہ لیتے ہیں۔ 
فرح حیدر (اندرا نگر، لکھنؤ)
بچپن ہی سے بارش میں بھیگنے کا شوق رہا ہے
بچپن کی یادوں میں بارش کی یادیں خوبصورت اور خوشگوار یادیں ہیں۔ مجھے بارش بہت پسند ہے اور بچپن ہی سے بارش میں بھیگنے کا شوق رہا ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب پہلی بارش ہوتی تو میں بوندا باندی شروع ہوتے ہی گھر کے صحن میں کھڑی ہوجاتی اور تیز بارش ہونے تک بھیگتے رہتی۔ مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو اور بارش میں بھیگنے کا لطف دونوں ہی مجھے سرشار کر دیتے تھے۔ محلے میں بچوں کی ادھم مستی اور چلا پکار ساتھ ہی نظم کے یہ بول ’’سہیلیاں سہیلیاں مل کر چلو پانی آیا ڈوب کر چلو‘‘ پوری اداکاری کرتے ہوئے مزے سے گانا، لکھتے ہوئے بھی وہ منظر آنکھوں میں رقص کر رہا ہے۔   
فردوس انجم (بلڈانہ مہاراشٹر)
بارش کی پہلی پھوار اور مٹی کی سوندھی خوشبو


مَیں وہ دن نہیں بھولتی جب پہلی بارش کی بوندیں پڑتیں اور مٹی کی سوندھی خوشبو فضا کو خوشگوار بنا دیتی تھی۔ ہم بچے بارش میں سر سے پیر تک بھیگ جاتے۔ بارش کی ان بوندوں کو ہاتھ پر لیکر جمع کرتے۔ وہ موسم بڑا سہانا ہوتا تھا۔ آسمان میں کالے کالے بادل چھائے رہتے اور تیز ہوائیں چلتی رہتیں۔ کیا مزے کے دن تھے۔ اس وقت ہم ہر فکر و غم سے آزاد تھے۔ بچپن کی زندگی بھی کیا خوب زندگی ہوتی ہے۔ وہ چھما چھم بارش، وہ بوندوں کا راگ، وہ ہواؤں کی چھم چھم۔ بارش شروع ہوتے ہی ہم بچے آنگن میں اتر جاتے اور مستی میں خوب نہاتے۔ امی دالان میں بیٹھی ڈانٹتی رہتیں۔ لیکن ہم کہاں سننے والے تھے۔ پھر جب آنگن میں پانی بھر جاتا تو اس میں ہم کاغذ کی کشتی چلاتے۔ جب کشتی ہولے ہولے چلتی تو ہم لوگ اچھل اچھل کر تالیاں بجاتے۔ اب نہ بچپن رہا اور نہ اب پہلے جیسی بارشیں ہوتی ہیں۔ کاش! بچپن کے وہ دن پھر سے لوٹ آتے اور بارشیں پہلے جیسی ہونے لگتیں۔ 
نشاط پروین (شاہ کالونی، شاہ زبیر روڈ، مونگیر، بہار)
بارش اور امی


مجھے یاد ہے جب میں چار سال کی تھی تو میری وہ پہلی بارش تھی جس میں میں نے اپنی امی کے ساتھ بہت مزے کئے۔ بارش بہت تیز ہورہی تھی۔ امی نے مجھے کاغذ کی ناؤ بنا کر دی اور ناؤ کو پانی میں ڈالنے کو کہہ رہی تھی انہوں بتایا یہ ڈوبتی نہیں تیرتی ہے۔ پھر میں نے خوش ہو کر ناؤ کو پانی میں ڈال دی۔ اور بہت مزے کئے پھر امی نے گرما گرم پکوڑے بنائے اور ہم سب نے بارش کا مزہ بہت لیا.... آج بھی بارش ہوتے ہی امی کی بہت یاد آجاتی ہے۔ کاش وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہوتی۔ 
بی بشریٰ خاتون (جامعہ نگر، نئی دہلی)
بارش کا موسم اور گرم گرم بھجیا
بچپن کی پہلی بارش زندگی میں کبھی نہیں بھولوں گی۔ بارش میں سہیلیوں کے ساتھ بھیگنا، مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سے لطف اندوز ہونا، کاغذ سے ناؤ بنانا اور اسے بہتے ہوئے پانی میں تیرتے ہوئے دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ کوکن کی بارش ایک بار شروع ہوئی تو رکنے کا نام نہیں لیتی۔ بارش کے پانی میں بھیگ کر بہت بھوگ لگتی اور امی ہمیں گرم گرم بھجیا تل کر دیتیں اور ہم سب بڑے مزے لے کر کھاتے اور بہت مزہ کرتے۔ کبھی امی ڈانٹیں کہ اتنا نہ نہاؤں زکام ہوجائے گا۔ بارش کے موسم میں سہیلیوں کے ساتھ لطف اٹھانا بہت یاد آتا ہے۔ 
شیخ صالحہ عبدالموحد (مہاپولی، مہاراشٹر)
بچپن کی پہلی بارش کی یادیں اور ہمارا اسکول
بچپن کی پہلی بارش مجھے یاد دلاتی ہے اپنے اسکول کی۔ جون کی وہ پہلی بارش اور جون میں ہمارے اسکول کے وہ شروعاتی دنوں کی جس میں ہم اپنی سہیلیوں کے ساتھ بارش میں کھیل کود کیا کرتے تھے۔ بچپن سے ہماری کئی یادیں وابستہ ہوتی ہے لیکن بچپن کی بارش کی یادیں کوئی بھلا نہیں سکتا۔ بچپن کی بارش مجھے اکثر اپنی دادی اماں کی بھی یاد دلاتی ہے۔ جب ہم اسکول جاتے تھے تو بارش میں بھیگ کر جانا بےحد اچھا لگتا تھا۔ جیسے ہی اسکول سے چھٹی کا وقت ہوتا تھا دادی اماں چھاتا لے کر ہمیں اسکول سے گھر لے جانے آتی تھیں۔ دادی اماں چاہتی تھیں کہ ہم بارش میں نہ بھیگ جائیں اور ہم چاہتے تھے کہ بارش میں بھیگ جائیں۔ دادی اماں کے چھاتا لے آکر آنے کے باوجود ہم کسی نہ کسی طرح بارش میں کھیل کود کرکے بھیگ کر ہی گھر جاتے تھے۔ اسکول چھوٹتے وقت ہی کاغذ کی ناؤ بنا لیتے تھے اور راستے سے بارش کے پانی میں ناؤ چلاتے تھے۔ 
گل افشاں شیخ (عثمان آباد، مہاراشٹر)
بارش اور اسکول نہ جانے کا بہانہ
بچپن کی پہلی بارش تو یاد نہیں، لیکن ہاں یہ یاد ہے کہ بچپن کی بارشیں بڑی سہانی اور پر لطف ہوتی تھیں۔ صبح کے وقت اگر بارش ہوئی تو دل مزید خوشی و مسرت سے لبریز ہوجاتا تھا کیونکہ اسکول جانے سے بچ جانے کی کافی امید ہوتی تھی لیکن یہ امید پر جوش اس وقت ماند پڑ جاتی تھی جب ابو چھتری لے کر ہمیں اسکول پہنچا دیتے تھے۔ بچپن کی بارش کی ایک خوبصورت یاد یہ بھی ہے کہ بارش سے پہلے اگر آندھی چل رہی ہے، ایسے اگر کوئی آئس کریم والا آگیا تو وہ کافی رعایت بھی مل جاتی تھی۔ بارش تو اب بھی ہوتی ہے مگر وہ بچپن والی خوشی نہیں لاتی جب بارشوں میں نہاتے ہوئے اپنے ’جہاز‘ چلایا کرتے تھے اور اس وقت ہم سے زیادہ امیر کوئی نہیں ہوتا تھا۔ 
بنت رفیق (جوکھن پور، بریلی)
بارش میرا سب سے زیادہ پسندیدہ موسم تھا
بارش خدا کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ جس کے ذریعہ اس دنیا کے تمام مخلوقات فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ بچپن میں مجھے بارش کا شدت سے انتظار رہتا تھا، کیونکہ بارش میرا سب سے زیادہ پسندیدہ موسم تھا۔ جب بارش ہوتی ہے تو موسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے، خوب ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتی ہیں، کھیتوں درختوں میں جان آجاتی ہے سب کچھ ہرا بھرا ہو جاتا ہے، بچپن میں اسکول سے آتے وقت بارش میں بھیگ جانے کا الگ ہی شوق اور مزہ ہوتا تھا اور قوس و قزح کو دیکھنے کا الگ جذبہ اور بارش میں مٹی کی بھینی بھینی خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے گرم گرم چائے اور پکوڑے کھانے میں خوب مزہ آتا تھا۔ 
فائقہ حماد خان (بنکٹوا، بلرامپور، یوپی)
کیا ہی زبردست بچپن تھا اور کیا ہی سہانا موسم
بڑے انتظار کے بعد موسم کی پہلی بارش برسنا شروع ہوئی ہے۔ شروع ہونے والی بوندا باندی سے مٹی کی سوندھی خوشبو آنے سے آپ کو وہ بچپن کے بے فکری کے دن یاد آرہے ہیں جب آپ اس طرح کے موسم میں بارش میں نہاتے تھے۔ کیا ہی زبردست بچپن تھا اور کیا ہی سہانا موسم۔ مجھے بارش میں چھتری لیکر چلنا اچھا لگتا تھا۔ غالباً کم عمری میں برساتی میں چھپ کر بارش کے دوران میں صحن میں بیٹھ جاتی تھی۔ بارش کے قطروں کی آواز مجھے بہت بھلی لگتی تھی۔ پڑھائی کے دنوں میں مَیں اپنے جامعہ میں اپنی کتابوں کو لے کر ایسی جگہ بیٹھ جاتی تھی جہاں پر بارش کے قطرے ہوا کے دوش پر اُڑ کر مجھے گیلا کر دیتے۔ بس یہ دو باتیں میرے لاشعور میں بیٹھ گئی تھیں اسلئے اب بھی مَیں چھتری لے کر بارش میں نکلتی ہوں اور جامعہ کے ایک سرے سے دوسرے تک چکر لگا کر واپس آجاتی ہوں۔ 
ہاجرہ نورمحمد (چکیا، حسین آباد، اعظم گڑھ)
پیڑ پودے اور فضا دھلی دھلی سی اچھی لگتی تھی
بچپن میں جب بارش ہوتی تھی وہ بے فکری کی عمر اس کے مزے ہی نرالے تھے۔ بارش میں مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو بہت اچھی لگتی تھی۔ سب دوست مل کر آپس میں چھت پر نہاتے تھے خوب اودھم مچاتے تھے۔ خوش ہوتے تھے اور اماں ابا کی ڈانٹ بھی سنتے تھے۔ بارش میں پکوڑے کھانے کا مزہ ہی الگ تھا اور جب زیادہ بارش ہوتی تھی تو اگلے دن اسکول کی چھٹی ہو جاتی تھی پھر تو بہت ہی مزہ آتا تھا۔ بارش میں کاغذ کی ناؤ بنا کر چلانے کا بھی مزہ بہت تھا۔ سا رے پیڑ پودے اور فضا دھلی دھلی سی اچھی لگتی تھی۔ بچپن کی وہ پہلی بارش آج بھی بہت یاد آتی ہے۔ 
طلعت شفیق (دہلی گیٹ، علی گڑھ)

اگلے ہفتے کا عنوان: خواتین کو سماجی طور پر متحرک کیوں ہونا چاہئے؟ اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK