قرآن کریم میں نیک لوگوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے مال و دولت میں سے ضرورتمندوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری نہیں ہے کہ ہمارے پاس مال و دولت ہو تب ہی ہم دوسروں کی مدد کرسکتے ہیں۔ چونکہ معاشرہ کی اصلاح میں خواتین اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اس لئے انہیں دوسروں کی مدد کیلئے پیش پیش رہنا چاہئے۔
دوسروں کا دکھ درد سن لینا بھی اُن کا غم ہلکا کرنے کا ذریعہ ہے۔ کیا ہم اس جانب توجہ دیتی ہیں؟۔ تصویر : آئی این این
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا ہے اور انسان کی تخلیق کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایک انسان کے دل میں دوسرے انسان کیلئے محبت کا اور ہمدردی کا جذبہ بیدار ہو۔ یہ احساس ہی انسان کو اعلیٰ اخلاق سکھاتا ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ، درد کو سمجھنا اور اُسے محسوس کرنا اور اُس کا مداوا کرنا ایسا فعل ہے جو انسانوں کو فرشتوں سے بلند اور ممتاز کرتا ہے۔ اسلام نے ہمیں بہتر انداز میں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ انسان پر دو قسم کے حقوق ہیں: حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق اللہ یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دوسری عبادات میں کمی بیشی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ بڑا غفور الرحیم ہے ہمیں معاف کرسکتا ہے لیکن ہمیں جان بوجھ کر اُن حقوق سے گریز نہیں کرنا چاہئے جبکہ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق، والدین کے حقوق، پڑوسیوں اور رشتے داروں کے حقوق وغیرہ ان سب سے منہ موڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اللہ کو اپنے بندوں سے بہت پیار ہے اس لئے اگر کوئی انسان دوسرے انسان کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتا ہے اور اُس کا دل دکھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معاف کرنے کا حق اُس بندے کو دیا ہے جس کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک انسان اللہ کے بندوں سے محبت نہیں کرے گا تب تک وہ اللہ کا محبوب بندہ نہیں بن سکتا ہے۔
قرآن کریم میں نیک لوگوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے مال و دولت میں سے ضرورت مندوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرے گا اللہ اُس کی حاجت پوری کرے گا۔
مسلمانوں کی تاریخ، آداب و معاشرت کے مختلف پہلوؤں مثلاً ہمدردی، سخاوت، محبت، اخوت، ایثار، حسن ِ سلوک، احترام اور انسانیت کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ دُنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی طریقے سے دوسرے انسان کی مدد کرسکتا ہے۔ چونکہ معاشرہ کی اصلاح میں خواتین اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اس لئے انہیں دوسروں کی مدد کے لئے پیش پیش رہنا چاہئے تاکہ اہل ِ خانہ بھی ان سے ترغیب حاصل کریں۔ ہمیں اپنے اردگرد، گلی محلوں میں ضرورتمند نظر آتے ہیں ان کی خاطر خواہ مدد کرنی چاہئے۔ غریب خاندانوں کی مالی مدد کرکے اُن کو راحت پہنچائی جاسکتی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں بہت سے بچے ایسے ہیں جو غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جا پاتے۔ ہم انہیں تعلیم دلوا کر معاشرہ کا کارآمد اور بہترین شہری بنا سکتے ہیں۔ ہمارے محلے میں یا پڑوس میں کوئی بیمار ہے اور وہ غریبی کی وجہ سے اسپتال نہیں جاسکتا ہے تو ہم اُس کی اسپتال جانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ کسی نابینا یا معذور کو سڑک پار کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ کسی حادثے کے زخمیوں کی ابتدائی طبی امداد کے ذریعے اُن کی جان بچا سکتے ہیں۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمارے پاس مال و دولت ہو تب ہی ہم دوسروں کی مدد کرسکتے ہیں۔ ہم چھوٹی موٹی باتوں کا خیال رکھ کر بھی معاشرہ کو جنت کا نمونہ بنا سکتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے تو دوسرے بھی مشکل گھڑی میں ہماری مدد کریں گے۔ اس سے بھائی چارگی کو فروغ ملے گا اور معاشرہ ترقی کرے گا۔ اسلام بھی ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ اچھا انسان وہی ہے جو دوسروں کو فیض پہنچائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بہت سارے چرند و پرند جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں انہیں بھی پیدا کیا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دُنیا میں بھیجا تو اُسے اختیارات اور کچھ صلاحیتیں بھی عطا فرمائیں مثلاً فکر و عقل، شعور، محبت، خیر خواہی، ہمدردی وغیرہ۔ اللہ نے تو یہ جذبہ صرف اور صرف انسان کے دل میں پیدا کیا کیونکہ اُسے انسان کو دوسری مخلوقات سے بہتر ثابت کرنا تھا اس لئے انسان کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا ثبوت دے کہ واقعی اشرف المخلوقات ہے۔ جو خوشی کسی کے ساتھ ہمدردی اور پیار کرنے میں محسوس ہوتی ہے وہ اس سے برائی کرنے سے کبھی حاصل نہیں ہوتی۔ بیواؤں، یتیموں اور محتاجوں میں اپنی دولت تقسیم کرکے آپ کو جو خوشی ملے گی وہ کسی کا نقصان کرکے حاصل نہیں ہوگی۔
خواتین اپنے لہجے میں نرمی لائیں۔ اپنے رشتے داروں سے اپنائیت سے پیش آئیں۔ رشتوں کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کریں۔ اچھے اخلاق سے رشتوں کو باندھ کر رکھیں۔ دوسروں کے دکھ درد کو کم کرنے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں محبت و ہمدردی کا جذبہ رکھا ہے اور یہی بات انسان کو فرشتوں سے افضل بناتی ہے۔ اس لئے ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں۔ بقول شاعر:
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں!