گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
EPAPER
Updated: October 03, 2024, 2:06 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai
گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
فلاحی سرگرمیاں
بچوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کیلئے آن لائن پروجیکٹس، جیسے کہ ماحولیات کی آگاہی یا فلاحی سرگرمیوں میں شامل کرنا، انہیں سماجی طور پر ذمہ دار بناتا ہے اور ان کی خوداعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
ایڈوکیٹ طیبہ یعقوب کھانچے (ممبرا)
منفرد طریقہ
بچوں سے روزانہ بات چیت کریں اور معلوم کریں کہ ان کے دوستوں میں کون کون سی عادتیں ہیں۔ بچوں کے بتانے پر پہلے انہیں اچھی اور بری، عادتوں میں فرق بتائیں۔ اسکے بعد دوستوں کی اچھی عادتوں کو اپنانے کی تلقین کریں۔ اس طریقے سے بچے جلدی سیکھتے ہیں۔
شمع پروین (کوچہ پنڈت، دہلی)
ریسٹ واچ
بچوں سے چھوٹے موٹے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ کمرے سے نکلتے وقت لائٹ اور پنکھا بند کرنے کی تلقین کریں۔ انہیں ایک ریسٹ واچ دلائیں اور کھیلنے جانے سے پہلے تلقین کریں کہ اتنے بجے گھر آجانا ہے۔ اس سے ان میں احساس ذمہ داری کا جذبہ پروان چڑھے گا۔
ریحانہ قادری (جوہو اسکیم، ممبئی)
ہماری ذمہ داری
بچے اپنے بڑوں کی عادتوں اور حرکتوں پر نظر رکھتے ہیں۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے کردار کو کس طرح پیش کریں تاکہ آنے والی نسل کو ایک نئی روشنی ملے جس کے اجالے سے ہر کوئی فیض یاب ہوسکے۔
منصوری رومانہ تبسم (شہادہ، نندوربار)
کام سونپنا
والدین بچوں کو دھیرے دھیرے چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں دینا شروع کریں۔ جیسے، کتابوں کو الماری میں رکھنا، اپنا اسکول بیگ صاف کرنا، اسکول کیلئے خود تیار ہونا، خود سے ناشتہ کرنا وغیرہ۔ جب والدین بچوں کو کوئی کام سونپتے ہیں تو ان میں ایک جوش پیدا ہوجاتا ہے۔
سیّد شمشاد بی احمد علی (کرلا، ممبئی)
مشورہ کریں
والدین کو بچوں کے احساسات ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ ان کو صلاح دینے کے بجائے ان سے کسی بات کا مشورہ لیں۔ اپنے تجربہ اور نظریے کے مطابق اس مشورہ کی اصلاح کریں اور گفتگو کے دوران انہیں ذمہ داری کا احساس دلائیں۔ اس سے بچوں کو اپنے رویہ کو سدھارنے اور اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔
انصاری یاسمین محمد ایوب (بھیونڈی، تھانے)
وقت کی اہمیت
بچوں کو روزمرہ کے معاملات جیسے روپے کی قدر سکھائیں، بچت کے ذریعے انہیں احساس دلائیں کہ وسائل محدود ہیں۔ انہیں وقت کی قدر اور اس کا بہترین استعمال کرنا سکھائیں، انہیں ان کے کاموں کی ایک ترتیب بنا کر دیں تاکہ وہ وقت کیساتھ ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں۔
سمیرا اظہر سرگروہ (نوی ممبئی)
قابل اعتبار سمجھنا
سب سے پہلے ہمیں ان پر اعتبار کرنا ضروری ہے۔ ہمیں انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ ہم ان کو قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ بچپن ہی سے بچوں کو گھر کے چھوٹے چھوٹے کاموں کا عادی بنائیں۔ گھر کے معاملات میں بچوں سے مشورہ لینا اور اگر قابل قبول ہو تو اس مشورے پر عمل درآمد کرنا بھی انہیں ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے۔
رضوی نگار (اندھیری، ممبئی)
ان پر اعتماد کریں
سب سے اہم، ان پر اعتماد کیا جائے۔ انہیں چھوٹے چھوٹے کاموں کی ذمہ داری دی جائے۔ دیئے گئے کاموں کے تعلق سے ان کی ذہنی سازی اور رہنمائی کی جائے۔ گھریلو مسائل حل کرنے کیلئے بچوں سے مشورہ کریں۔ اس طرح ان میں احساس ذمہ داری پیدا کی جاسکتی ہے۔
فرزانہ بانو نذیر احمد (مالیگاؤں، ناسک)
اپنے سامان کی حفاظت کرنا
سب سے آسان اور مؤثر طریقہ ہے اپنے ساتھ بچوں کو روزمرہ کے کاموں میں شامل کریں۔ انہیں اس بات سے آگاہ کریں کہ اپنے سامان کی حفاظت کس طرح کی جاتی ہے۔ عمر کے مطابق کام ان کے ذمہ کریں لیکن نگرانی ضرور کریں۔
ڈاکٹر خان بریرہ ظفر احمد (چیتا کیمپ، ٹرامبے)
دینی ماحول
بچوں کی عمر کے مطابق ان کی ذہن سازی کی جانی چاہئے۔ انہیں عملی طور پر اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کا طریقہ سکھائیں۔ بڑوں سے ادب سے پیش آنے کی تلقین کریں۔ دینی ماحول فراہم کریں۔ ترغیبی کہانیاں سنائیں۔ اس سے ان کی ذہن سازی ہوتی ہے۔
انصاری آفرین غلام نبی (کرلا، ممبئی)
ان کی تعریف کریں
بچوں کو چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں دیں۔ گھر کے معالات میں ان کی رائے لیں۔ اچھا کام کرنے پر ان کی تعریف کریں۔ گھر میں بچوں کے ساتھ کھل کر باتیں کریں۔ ان اپنے سوالات کا اظہار کرنے دیں۔ ان طریقوں سے بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہوسکتی ہیں۔
نصرت سمیع (کرلا، ممبئی)
اپنا کام خود کرنے دیں
بچوں کو ذمہ دار بنانے کیلئے سب سے پہلے انہیں اپنا کام خود کرنے دیں۔ مثلاً اسکول بیگ تیار کرنا، ٹائم ٹیبل کے مطابق کتابیں رکھنا، یونیفارم کو جگہ پر رکھنا وغیرہ۔ ۱۰؍ سے ۱۲؍ کی عمر کے بچوں سے سودا سلف منگوائیں۔ گھر کا بجٹ کس طرح تیار ہوتا ہے؟ بچوں کو بتائیں۔ سب سے اہم بات، انہیں دینی تعلیم سے روشناس کروائیں۔
جویریہ طارق (سنبھل، یوپی)
مثبت پہلو کو ترجیح دیں
بچوں کو ذمہ دار بنانے سے قبل والدین کا ذمہ دار ہونا بے حد ضروری ہے۔ والدین کم عمری سے بچوں کو صحیح اور غلط کا فرق بتائیں۔ دوستانہ ماحول فراہم کریں۔ گھریلو معاملات میں مثبت پہلو کو ترجیح دیں۔ گھر کا ماحول ایسا ہو کہ ہر کوئی ایک دوسرے کا خیال رکھے۔ اس سے بچے میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
نشاط پروین (شاہ کالونی، مونگیر، بہار)
گھر کے ماحول کی اہمیت
بچوں کی تربیت میں گھر کا ماحول اہمیت رکھتا ہے۔ گھر کے بڑے جس طرح پیش آتے ہیں بچے بھی اسی طرح کا رویہ اپناتے ہیں۔ اس لئے عملی نمونہ پیش کریں۔ گھر کے بڑے چھوٹے سبھی کو اہمیت دیں۔ سبھی اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائیں۔ بچہ خود بخود ذمہ دار ہوجائیگا۔ اس کے علاوہ انہیں پودے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دی جاسکتی ہے۔ اس قسم کے کام بچے خوشی خوشی کرتے ہیں۔ اس سے ان میں ذمہ داری کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس کام میں ان کے دوستوں کو بھی شامل کرنا چاہئے۔
ہاجرہ نورمحمد (چکیا، حسین آباد، اعظم گڑھ)
بچوں سے مشورہ طلب کریں
بچے والدین کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ اس لئے والدین بچوں کو جیسا بنانا چاہتے ویسا خود بن جائیں۔ والدین گھر کے بزرگوں کی خدمت کریں۔ بچے خودبخود ان کی تقلید کریں گے۔ بیمار کی عیادت کریں اور بچوں کو احساس دلائیں کہ اللہ تعالیٰ اچھے کاموں کا اچھا صلہ دے گا۔ بچے بخوشی نیک کام انجام دیں گے۔ گھر کے معاملات میں بچوں سے مشورہ طلب کریں، اس طرح انہیں اپنی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ کفایت شعاری کے گُر سکھائیں۔ فضول خرچی سے دور ررہنا چاہئے، اس کی تلقین کریں۔
ام اسامہ (پونے، مہاراشٹر)
چھوٹے چھوٹے کام
بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو ہر چیز سے بے نیاز ہوتے ہیں، صرف کھیل کود، شرارتیں اور اپنی ضد پوری کروانا ہی اپنا حق سمجھتے ہیں۔ دھیرے دھیرے بچے بڑے ہوتے ہیں تب گھر والوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کے اندر صفائی کی عادت ڈالیں، چیزوں کو صحیح جگہ پر رکھنے کی عادت، بڑوں کی باتوں کو ماننے کی عادت اور بات کرنے کا سلیقہ دھیرے دھیرے ان کے اندر پروان چڑھائیں۔ جب والدین بچوں سے چھوٹے چھوٹے کام کروائیں گے تب ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہوگی۔
ایس خان (آعظم گڑھ، یوپی)
سیکھنے کا موقع فراہم کریں
بچوں کو گھر میں ایک اچھا ماحول فراہم کریں۔ ان کو گھر کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں شامل کریں، ان سے بات چیت کریں، ان کی رائے کو اہمیت دیں اور اہم معاملات پر گفتگو کریں۔ اس کے علاوہ انہیں معمولی نوعیت کے فیصلے کرنے دیں تاکہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرسکے جیسے کہ کیا پہننا ہے؟ کیا کھانا ہے؟ اگر وہ دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظرانداز کریں۔ انہیں ہمیشہ سیکھنے کا موقع فراہم کریں تاکہ ان کی شخصیت میں نکھار آئے۔
کلثوم سراج اشرف (جونپور، یوپی)
زبردستی نہیں کی جانی چاہئے
بچوں کو ذمہ دار بنانے کے لئے پہلے والدین کا ذمہ دار ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، کسی بھی معاملے میں بچوں کے ساتھ زبردستی نہیں کی جانی چاہئے۔ والدین کا انداز محبت بھرا ہونا چاہئے۔ اس سے بچے والدین کی بات جلد مان لیتے ہیں اور سارے کام بخوبی انجام دیتے ہیں۔ اس طرح بچوں کو ذمہ دار بنایا جاسکتا ہے۔
قاضی شازیہ رفیع الدین (دھولیہ)
وقت پر کام انجام دینا
بچوں میں دھیرے دھیرے ذمہ داری کا احساس پیدا کریں۔ انہیں اپنے کام کرنے کی تلقین کریں، جیسے کہ کھلونے اور کتابیں جگہ پر رکھنا، اسکول سے واپسی پر بستہ، یونیفارم اور جوتے وغیرہ کو ان کی مقررہ جگہ پر رکھنا۔ اسکے علاوہ، وقت پر پڑھنا، کھیلنا اور پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی بھی ان میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے میں معاون ہوگی۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولاپور)
اردگرد کا ماحول
بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنا درحقیقت ان کی نفسیاتی تربیت کا حصہ ہے۔ یہ احساس بچوں میں جگانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ان کی تعلیم اور غذا کا خیال رکھنا۔ بچوں میں مثبت اور منفی رویے بیدار کرنے میں گھر کی تربیت، اردگرد کا ماحول، اسکول اور بچے کے دوست، اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لئے ہر چیز پر نظر رکھنی چاہئے۔
تسنیم کوثر انصار پٹھان (کلیان)
پسندیدہ کاموں کی انجام دہی
بچے اپنے والدین کو جو کچھ کرتا ہوا دیکھتے ہیں وہی سیکھتے ہیں اس لئے وہ خود ذمہ دار بنیں۔ دو چار ایسے کام جو بچوں کی عمر کی مناسبت سے ہوں اور بچے شوق و آرام سے کرسکیں، شروع ہی سے ان کی عادت میں شامل کریں جیسے کتابوں، کاپیوں اور کھلونوں کو ان کی جگہوں پر رکھنا۔ انہیں اپنی پسند کے کام بھی کرنے دیں۔
ناز یاسمین سمن (پٹنہ، بہار)
وقت کی اہمیت
بچوں کو وقت کی اہمیت بتائیں۔ ہر کام وقت پر کرنے کی عادت ڈالیں۔ اس کے مثبت اثرات بچوں کے ذہن پر مرتب ہوں گے اور احساس ذمہ داری بھی پیدا ہوگی۔ اگر آپ نماز وقت پر ادا کریں گے تو بچے بھی ویسا ہی کریں گے کیونکہ بچوں میں نقل کرنے کی جبلت ہوتی ہے۔ بچوں کو بزرگوں کی خدمت بھی کرنے دیں۔
سیدہ نوشاد بیگم (کلوا، تھانے)
پڑھائی کے ساتھ ساتھ تربیت
بچے بہت جلد سیکھتے ہیں اسلئے کم عمری ہی سے ان سے چھوٹے موٹے کام کروائیں، جیسے کہ اپنے کپڑے خود تہ کرنا، اپنے کھانے کی پلیٹ دھونا، گھر کی صاف صفائی میں حصہ لینا وغیرہ۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ تربیت اہمیت رکھتی ہے۔ لہٰذا ان سے نرم لہجے میں بات کرنی چاہئے اور اچھا کام کرنے پرشاباشی دینی چاہئے۔
بی بشریٰ خاتون (نئی دہلی)
گھریلو کام کاج میں مدد
بچے وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے گھر میں دیکھتے ہیں۔ گھر کے ماحول کو بہتر بنائیں، گھریلو کام کاج میں اپنے ساتھ بچوں کو شامل کریں، بچوں کو اپنے ساتھ بازار لے جائیں، رشتہ داروں کے ساتھ میل جول بڑھائیں اور کسی بھی کام میں بچوں سے مشورہ کریں۔ اس طرح بچوں میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگا۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
بچوں کو فیصلے کرنے دیں
بچوں کی طبیعت میں تجسس شامل ہوتا ہے۔ اس لئے انہیں دلچسپ انداز میں سکھانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ اس طرح وہ بہت جلد سیکھتے ہیں۔ انہیں کوئی معاملہ بتا کر فیصلہ کرنے کا موقع دیں۔ اس سے انہیں اپنی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ ساتھ ہی احساس ذمہ داری پیدا ہوگی۔ اس کے علاوہ، گھریلو کام کاج میں ان کی مدد لیں۔
صبیحہ خان (ممبئی)
بچہ ماں کی تقلید کرتا ہے
ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ بچے ماں کی تقلید کرتے ہیں اس لئے ماں خود ذمہ دار بنے بچہ خودبخود ذمہ دار بن جائے گا۔ اس کے علاوہ ماں صبر سے کام لے۔ بچوں سے پرفیکٹ کام کی امید ہرگز نہ کرے۔ بچہ دھیرے دھیرے سیکھتا ہے اس لئے جلدبازی نہ کرے۔ اچھاکام کرنے پر اس کی حوصلہ افزائی کرے۔
عظمیٰ تجمل بیگ (مہاراشٹر)
۲؍ سے ۷؍ سال کی عمر اہم
ماہرین اطفال کہتے ہیں کہ بچے کو ۷؍ سال تک سکھایا جائے یہی وہ سنہرا باب ہوتا ہے جب ان کے دماغ میں ساری باتیں فٹ ہوجاتی ہیں۔ ۸؍ سال کی عمر میں ذہن میں پختگی آنے لگتی ہے، لہٰذا ۲؍ سال یا اس کے بعد ہی سے ان کو اپنے کھلونے سمیٹنا، چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا، سودا سلف لانا، جیسے کام کروائیں۔
رضوانہ رشید انصاری (امبرناتھ)
عمر کے اعتبار سے کام سونپیں
گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے سے بچے مضبوط ہوتے ہیں۔ ان میں قوت ارادی پیدا ہوتی ہے اور فیصلہ کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ البتہ کوئی بھی کام کرتے وقت روک ٹوک نہ کریں۔ بچوں کی عمر کے اعتبار سے انہیں کام سونپیں۔ بچوں کے کام کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے اس سے ان میں کام کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں رقم گننے کے لئے دیں، اس سے ان کی ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگا۔ پودے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دیں، یہ کام وہ بہت شوق سے کرتے ہیں۔
زہرہ جبین (ممبرا، تھانے)
پالتو جانور کی دیکھ بھال
بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کیلئے ان باتوں کا خیال رکھیں: ٭بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار نہ کریں، پانچ سال تک کی عمر بچوں کی بہترین تربیتی عمر ہوتی ہے۔ ٭بچوں کو چھوٹے چھوٹے کام دیں اور نوٹ کریں کہ وہ کیسے اس کو مکمل کرتے ہیں۔ ٭والدین بچوں سے وابستہ توقعات کے بارے میں انہیں واضح انداز میں بتائیں۔ ٭ذمہ داری نبھانے کے مواقع فراہم کریں جیسے پالتو جانور کی دیکھ بھال کرنا یا چھوٹے بہن بھائی کا خیال رکھنا وغیرہ۔ ٭ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
طلعت شفیق (علی گڑھ، یوپی)
نظم و ضبط کا پابند بنائیں
بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انہیں نظم و ضبط کا پابند بنائیں۔ بڑوں کا ادب، استاد کا احترام اور چھوٹے سے شفقت سے پیش آنا سکھائیں۔ ان میں اچھے اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ انہیں اپنی چیزوں کی حفاظت کرنا سکھائیں۔ ان باتوں پر دھیان دے کر بچوں کو کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔
خان نائلہ ذاکر حسین (ساکی ناکہ، ممبئی)
جو دیکھتے ہیں وہی سیکھتے ہیں
بچوں کو جیسا ماحول دیں گے وہ ویسا سیکھیں گے۔ وہ بڑوں کی توجہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ اسلئے والدین اپنے دل و دماغ کو صاف ستھرا رکھیں، اپنے طور طریقہ کو درست رکھیں۔ چونکہ عام طور پر بچے جو دیکھتے ہیں وہی سیکھتے ہیں۔ ابتدا ہی میں ان کی کوتاہی کو نظرانداز نہ کریں البتہ سیکھنے کا بھرپور وقت فراہم کریں۔
اسماء صنم نہسوی (علاقہ نہیں لکھا)
ہر کام کو مکمل کرنے کی تلقین
بچوں کو کم عمری میں چھوٹے چھوٹے کام کرنے دیں، اس سے وہ ہر کام ذمہ داری سے کرنے کے عادی ہوں گے۔ ہر کام وقت پر کرنا سکھائیں، اس طرح ان میں نظم و ضبط پیدا ہوگا۔ ساتھ ہی ہر کام کو مکمل کرنے کی تلقین کریں تاکہ وہ اس کی اہمیت سمجھ سکے۔ ضرورت پڑنے پر ان کی اصلاح ضرور کریں۔
گل افشاں شیخ (عثمان آباد، مہاراشٹر)
دوسروں کی مدد کرنا
بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں سونپی جائیں جنہیں وہ اپنی قابلیت کے مطابق انجام دے سکیں۔ اس سے نہ صرف ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ انہیں اپنے کام کی اہمیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ، انہیں دوسروں کی مدد کرنا سکھائیں۔
شبنم سلمان پٹھان (پونے، مہاراشٹر)
اچھا ماحول
بچے ہماری تربیت کا آئینہ ہوتے ہیں۔ اگر بچے گھر میں اچھے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں اور اپنے بڑوں کو ذمہ داری نبھاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ بھی خود بخود ذمہ دار بن جاتے ہیں۔ ہم سب اپنے گھروں کے ذمہ دار ہیں، ہم اپنا کردار کس طرح اپنے بزرگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں بچے بھی وہی کرتے ہیں۔ بچوں کے اندر دینی ماحول پیدا کریں۔ انہیں نظم و ضبط کا پابند بنائیں۔ عاجزی پیدا کریں۔ اپنے ساتھ کام کرتے وقت ان سے بھی چھوٹے موٹے کام کروائیں۔
ڈاکٹر ایس بانو (فیروز آباد، یوپی)
عملی مثالوں کے ذریعے
بچے، بڑوں کی تقلید کرتے ہیں۔ اس لئے جن بچوں کے والدین کو ہر چیز ذمہ داری سے کرنے کی عادت ہوتی ہے ان کا بچہ نہ چاہتے ہوئے بھی ذمہ دار بن جاتا ہے۔ اگر ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ ذمہ دار بنے تو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا روزمرہ کا کام وقت پر کریں اور باتوں ہی باتوں میں بچوں سے کہیں کہ دیکھو آج مَیں نے ہر نماز اول وقت پر ادا کی ہے، اس سے بچوں میں وقت پر کام کرنے کی ذمہ داری پیدا ہوگی۔ اگر آپ ملازمت پیشہ ہیں تو بچے کو اپنے دفتری معمولات ضرور بتائیں۔
مدحت فرقان سیّد (جلگاؤں)
چھوٹے چھوٹے کام کرنے دیں
بچوں کیلئے مثال بن جائیں۔ بچے اپنے والدین اور گھر کے بڑوں کی تقلید کرتے ہیں۔ اگر ہم خود ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے تو بچے بھی ہماری پیروی کریں گے۔ بچوں کو ان کی عمر کے مطابق چھوٹے چھوٹے کام کرنے دیں جیسے اپنے کھلونوں کو سمیٹنا، کتابیں ترتیب دینا، یا پانی کا گلاس خود سے لینا۔ اس سے ان میں خودمختاری اور ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگا۔اسی طرح جب بچے کوئی ذمہ داری صحیح طریقے سے نبھائیں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
نکہت انجم ناظم الدین (مانا، مہاراشٹر)
سامان کو ان کی جگہ پر رکھنا
بچوں کا تین سال کی عمر ہی سے شعور پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ان کی پرورش کے ساتھ ساتھ ان کے اندر چستی پھرتی پیدا کرنی چاہئے اس کیلئے کم عمری میں ہی چھوٹے موٹے کام کرانے کی کوشش کریں۔ جن سے ان کی جسمانی ساخت و طاقت میں اضافہ ہوگا۔ والدین بچوں میں یہ احساس پیدا کریں کہ سامان کو ان کی جگہ پر رکھیں۔ وقت پر سونے اور جاگنے کی تلقین کریں۔ ان باتوں کا اثر یہ ہوگا کہ ان کے اندر کام کی لگن کے ساتھ ساتھ ذمہ داری کا جذبہ خود بخود پیدا ہوگا۔
صبیحہ سلطانہ (دریا گنج، نئی دہلی)
عبادات کی عادت ڈالی جائے
اسلام میں بچوں کی تربیت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اس کیلئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ بچوں میں ابتدائی عمر سے ہی نماز، روزہ اور دیگر عبادات کی عادت ڈالی جائے۔ اس سے ان کے اندر وقت کی اہمیت کا احساس پیدا ہوگا اور کم عمری میں جو بچے پابندی کا خیال رکھتے ہیں، وہ عمر کے ساتھ ساتھ ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی بہترین کارکردگی اور اچھے کاموں پر ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کریں اس سے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوگی۔
عظمیٰ وہاب (بلی ماران، دہلی)
چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں دیں