• Fri, 08 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اوڑھنی اسپیشل: سن بلوغت کو پہنچنے والے ’باغی بچوں‘ کو کیسے سنبھالیں؟

Updated: October 10, 2024, 2:29 PM IST | Odhani Desk | Mumbai

’ٹین ایجرز‘ وہ بچے نہیں  رہ جاتےجنہیں   ڈانٹ پھٹکار کر چپ کرایا جاسکے، وہ خود کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں اورچاہتے ہیں  کہ گھر کے بڑے بھی انہیں سنجیدگی سے لیں، تاہم ان کے رویے اور مزاج میں آنے والی تبدیلیوں کو والدین ٹھنڈے دماغ سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش نہیں  کرتے، اور وہ اہل خانہ سے دور ہونے لگتے ہیں۔

If your personality includes kindness, tolerance, respect and love, relationships will always be strong. Photo: INN.
اگر آپ کی شخصیت میں صلہ رحمی، برداشت، عزت اور پیار شامل ہیں تو رشتے ہمیشہ مضبوط رہیں گے۔ تصویر: آئی این این۔

نوعمروں (ٹین ایجرز )کو سنبھالنا، بچوں  کا کھیل نہیں  ہے۔ کیونکہ اب تک جو بچے نٹ کھٹ، چلبلے اور پیارے لگتے تھے، وہ اچانک عمرکے اس پڑاؤ میں والدین اور گھر والوں  کو عجیب و غریب لگنے لگتے ہیں۔ وہ خود کو بڑا سمجھنے والا ایٹی ٹیوڈ دکھاتے ہیں۔ بڑوں کا مذاق، ان کی بے عزتی، باتیں نہ ماننا، گھر والوں سے گفتگو نہ کرنا، جیسے کام بھی کرنے لگتے ہیں۔ بات تب ہاتھ سے نکلتی ہے جب وہ بات بے بات پر بحث اور غصہ کرنے لگتے ہیں۔ آپ کو سمجھ میں   آنے لگتا ہے کہ اب وہ اس عمر کے نہیں  رہے، جب انہیں   ڈانٹ پھٹکار کر چپ کرایا جاسکے۔ سن بلوغت میں  قدم رکھتے ہی بچے باغی ہونے لگتے ہیں۔ انہیں  ہرچیز سے شکایت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ سے یعنی ماں  باپ سے بھی شکایت ہوگی۔ آئیے جانتے ہیں  کہ ایسے بچوں  کو کیسے سنبھالا جاسکتا ہے۔ 
ٹین ایجرز کو سمجھیں 
اپنے ٹین ایجرز بچوں  کا خراب رویہ یا ہمیشہ غصے میں  رہنا آپ کیلئے تکلیف دہ ہوتا ہے۔ لیکن ان کے غصے کو اپنے غصے سےسنبھالنے کی کوشش سمجھداری نہیں  ہے۔ چونکہ آپ خود اس دور سے گزرچکے ہیں، اسلئے آپ کو اپنا دماغ ٹھنڈا رکھنا ہوگا اور ان کے غصے کو منطقی ڈھنگ سے سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ دیکھئے، بچے کے رویہ میں آنے والی اچانک تبدیلی یہ ثابت کرتی ہے کہ اب وہ بچے نہیں  رہے ہیں۔ ان میں  جسمانی اور ذہنی تغیر آرہے ہیں۔ ان پر پڑھائی لکھائی اور کریئر کی فکر حاوی ہونے لگی ہے۔ اب وہ آپ سے زیادہ اپنے دوستوں  سے سیکھتے ہیں۔ بے شک بچوں  کا برا برتاؤ برداشت نہیں  کیا جانا چاہئے، لیکن ضرورت ہے کہ آپ صبراور ہوشمندی سے کام لے کر انہیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ 
آپ خود اچھی مثال بنیں 
آپ اتنے سالوں  کی پیرینٹنگ میں یہ بات تو سمجھ ہی گئے ہوں  کہ بچے مثالوں سے ہی سیکھتے ہیں۔ بھلے ہی وہ اپنی ذاتی شخصیت کو ڈیولپ کررہے ہوں، لیکن وہ جانے انجانے میں سیکھتے آپ سے ہی ہیں تو ان کے ساتھ آپ کو سنبھلا ہوا اندازاور دوستانہ رویہ رکھنا چاہئے۔ اگر آپ انہیں بات بات پر چلائیں گے تو کسی دن وہ پلٹ کر جواب دے دیں تو آپ کو حیرت نہیں  ہونی چاہئے۔ انکے ساتھ آپ کا جارحانہ سلوک انہیں  بطور ٹین ایجر متشدد بنا سکتا ہے۔ ان کی باتیں آپ کو بھلے ہی بری اور غلط لگیں لیکن اس کا جواب غصہ، جھنجلاہٹ سے دینے کے بجائے انہیں  پاس بٹھاکر ٹھنڈے دماغ سے سمجھائیں ۔ ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کریں۔ ایسا نہیں  ہوگا کہ ہمیشہ آپ کا نظریہ ہی صحیح ہو۔ ممکن ہے کہ آپ کو بھی ان کی کچھ باتیں  بے حد منطقی لگیں۔ جب بچے والدین کے ساتھ لاجیکل باتیں کرتے ہیں تب ان کی سماجی نشوونما بھی ہوتی ہے۔ وہ سماج میں لوگوں  سے بات چیت کرنے، اپنی بات کو دلائل کے ساتھ بیان کرنے کا فن سیکھتے ہیں۔ وہ دوسروں  کی باتوں اور نظریات کی بھی قدر کرنا سیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں  کہ بچہ اسلئے باغی بنتا ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ گھر اور سماج میں اسے سنجیدی سے نہیں  لیا جاتا ہے۔ 
کھلی چھوٹ دینا صحیح نہیں 
سن بلوغت میں  بچوں  میں آنے والی تبدیلیوں کے تئیں کچھ والدین اتنے زیادہ ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں کہ وہ بچوں میں  رونما ہونیوالی تبدیلیوں  کو معمول کی تبدیلی سمجھ کر ان کی جانب توجہ نہیں  دیتے۔ انہیں ان کے مسائل سے جوجھنے، اور ان سے باہر نکلنے کے لئے انہیں  اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ طرزعمل زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ غلط راہ پر جاسکتےہیں۔ بے شک روک ٹوک سے بچے کے ساتھ آپ کے تعلقات تھوڑے ترش ہوسکتے ہیں۔ انہیں بے لگام چھوڑ دینے کے خطرے کہیں   زیادہ ہیں۔ آپ کو ان کی زندگی میں مداخلت کرنی ہوگی ہے اور ان کیلئے کچھ ضوابط بنانے ہوں  گے۔ یہ یقینی بنانا ہوگا کہ بچے ان پر عمل پیرا ہوں۔ 
سنگت پر نظر رکھیں 
آپ کو اس بات پر کڑی نظر رکھنی چاہئے کہ آپ کا بیٹا /بیٹی کن دوستوں /سہیلیوں کی سنگت میں رہتا/رہتی ہے۔ کیونکہ بچے کی بگڑنے کی عمر ٹین ایج ہی ہوتی ہے۔ اسلئے اپنے بچوں  کے دوستوں / سہیلیوں سے ملیں۔ اسکول اور کوچنگ کی سنگت پتہ کریں۔ یہ کام آپ براہ راست کرنے کی بجائے، خاموشی سے انجا م دیں۔ 
لکچر نہ دیں 
جب بچے کسی کام میں ناکام ہوں، یا کسی بات پر افسردہ ہوں تو انہیں لیکچر دینے/باتیں سنانے سے گریز کرنا چاہئے، ایسا کرکے آپ ان کی دل میں اپنے لئے دوری پیدا کررہے ہیں۔ کیونکہ بچوں  کو لگتا ہے کہ امی/ابو میرے جذبات کو سمجھ نہیں رہے ہیں۔ ہر بات میں  پانے بچپن یا اسکول کالج کے دنوں کی مثال دینا بھی ٹھیک نہیں  ہے۔ آپ کے اسکول کالج کے زمانے سے ان کی دنیا کافی الگ ہے۔ آپ یہ بات مانیں یا نہ مانیں لیکن آپ کے ایام بلوغت کے مقابلے میں آپ کے بچے ٹین ایج میں  کافی اسمارٹ ہیں۔ بس آپ کو کرنا یہ ہے کہ انہیں درست راہ پر صحیح طریقے سے آگے بڑھنے کی ترغیب و تحریک دیں، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کا باغی بچہ دھیرے دھیرے سمجھدار اوراپنے مقصد کے حصول میں  سرگرم نوجوان میں  تبدیل ہوجائےگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK