• Mon, 04 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اوڑھنی اسپیشل: معاشرے میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کیلئے مَیں یہ کام کرنا چاہتی ہوں

Updated: September 05, 2024, 2:25 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

The evils in the society can be removed through education. Photo: INN.
تعلیم کے ذریعہ معاشرے میں پھیلی برائیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔تصویر: آئی این این۔

تعلیم کو عام کیا جائے


ہمارے معاشرے میں جو برائیاں موجود ہیں ان کا بنیادی سبب جہالت اور غربت ہے۔ ان برائیوں کا سدباب کرنے کیلئے لوگوں کے درمیان تعلیم کی اہمیت کو واضح کرنا بہت ضروری ہے جس قسم کے واقعات آج کل رونما ہورہے ہیں انہیں روکنے کے لئے تعلیم کو عام کرنا ہوگا۔ تعلیم سے میرا مقصد صرف کتابی اور ڈگری والی تعلیم نہیں ہے۔ ایسی تعلیم جس میں تہذیب اور شعور کو پختگی عطا کی جائے۔ ایسی تعلیم عام کی جائے جس میں ہر کسی کا احترام کرنا سکھایا جائے۔ مَیں چاہتی ہوں سوشل میڈیا کا استعمال صرف اور صرف صاف ستھری مثبت پوسٹس کیلئے کیا جائے۔ اس کے علاوہ منشیات کی خرید و فروخت بند کی جائے۔
رضوی نگار اشفاق (اندھیری، ممبئی)

صفائی کے تئیں بیداری مہم

معاشرہ کی ایک برائی یہ ہے کہ لوگ اپنی غلطی نہیں مانتے۔ اگر کوئی نصیحت کرتا ہے تو الٹا اسے جواب دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اصلاح کرنا چاہتی ہوں۔ اس کے علاوہ معاشرہ میں کئی جسمانی و ذہنی بیماریاں گندگی سے پھیل رہی ہیں۔ اس کیلئے ہمیں صفائی کے تئیں لوگوں کو بیدار کرنا ہوگا۔ سرکاری اسکولوں کے انتظامات بہتر ہونے چاہئیں۔ اس جانب توجہ دلانی چاہئے تاکہ بچوں کا مستقبل بہتر ہوسکے۔ موبائل فون کے بے جا استعمال سے بچنا چاہئے۔ اس سے معاشرہ میں کئی برائیاں پھیل رہی ہیں۔ بچوں کو اس کے بے جا استعمال کے نقصانات بتانا چاہئے۔
کلثوم سراج اشرف (جونپور، یوپی)
جہیز کی رسم پر پابندی


معاشرہ میں پھیلی برائیوں کیلئے میں یہ کام کرنا چاہتی ہوں: ٭ہمیں ایک اصول بنانا چاہئے کہ نہ تو اپنے بیٹوں کی شادی میں جہیز لیں گے اور نہ بیٹیوں کو جہیز دیں گے۔ اس طرح اس رسم پر پابندی لگ سکتی ہے۔ ٭بیٹیاں جتنا پڑھنا چاہے انہیں پڑھائیں۔ ٭رشتے کیلئے لڑکے کا لڑکی کو دیکھنے جانا اور وہاں جا کر لڑکی میں خامیاں نکالنا وغیرہ، رواج کو بند کرنا ہوگا۔ ٭بوڑھے والدین کی عزت کریں۔
سیدہ نوشاد بیگم (کلوا، تھانے)
تعلیم کی روشنی
معاشرے کی کئی برائیوں کا سبب تعلیم کا فقدان ہے۔ تعلیم انسان کیلئے انتہائی اہم ہے۔ دراصل تعلیم کے ذریعہ انسان کا شعور بیدار ہوتا ہے۔ اسے صحیح اور غلط کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ تعلیم کے ذریعہ ہم سماج کی آدھی سے زیادہ برائیاں ختم کرسکتے ہیں۔ تعلیم کے ذریعہ مَیں نے اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں محسوس کی ہیں جس میں میرے شوہر کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے ہی مجھے تعلیم کی اہمیت سمجھائی ہے۔ میں تعلیم کے ذریعہ خود کو ایک بہترانسان بنانا چاہتی ہوں اور ان لوگوں تک تعلیم پہنچانا چاہتی ہوں جو تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔
فائقہ حماد خان (ممبرا، تھانے)
موبائل فون کا سحر


موبائل فون کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا کا بچوں پر برا اثر پڑا ہے۔ ہمیں اس جانب توجہ دینی ہوگی۔ بچے سوشل میڈیا پر کیا دیکھتے ہیں، اس کی نگرانی کرنی چاہئے۔ انہیں نرم انداز میں سمجھانا چاہئے کہ سوشل میڈیا کا ایک حد تک استعمال کریں۔ دراصل سوشل میڈیا پر مسلسل ویڈیوز دیکھنے سے بچے کے مزاج پر برا اثر پڑتا ہے۔ وہ بات بات پر غصہ کرتے ہیں۔ بچوں کو مختلف سرگرمیوں میں مصروف رکھنا چاہئے۔
مرزا حبا ناظم (ممبئی، مہاراشٹر)
بچیوں کی شادی میں حائل دشواری


آج کل بیٹیوں کے رشتے اور نسبت طے ہونے کا دشوار ترین عمل اور پھر مشکل و مہنگی ترین بنتی جا رہی شادیاں ایک سنگین مسئلہ ہے لہٰذا اپنی تحریر اور عمل کے ذریعہ میں قوم کی بچیوں کی شادی میں حائل دشواریوں، شادی بیاہ میں رواج پانے والی خرافات اور عورتوں کیخلاف جرائم کے تئیں سماج میں بیداری اور ذہن سازی کے کار خیر میں پر خلوص افراد و اداروں کی معاونت اور ذاتی پیش قدمی کے ساتھ عملی کوشش کرنا چاہتی ہوں۔
خالدہ فوڈکر (جوگیشوری، ممبئی)
ٹیکنالوجی کا غلط استعمال


معاشرہ میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کیلئے مَیں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتی ہوں۔ تعلیم انسان کو اچھے برے میں فرق کرنا سکھاتی ہے۔ خواتین کے تحفظ کے لئے اپنی آواز بلند کرنا چاہتی ہوں۔ ان کے خلاف ہورہے مظالم کو روکنے کیلئے کوشش کرنا چاہتی ہوں۔ موبائل فون پر فحش مواد کو روکنے کے لئے کوشش کرنا چاہتی ہوں۔ ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہورہا ہے، اس جانب توجہ دلاناچاہتی ہوں۔
خان نرگس سجاد (جلگاؤں، مہاراشٹر)
رشتوں کی قدر


آج کل رشتے دار ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ معمولی باتوں پر لوگ رشتے توڑ دیتے ہیں۔ بھائی بہن ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا نہیں چاہتے۔ مَیں رشتوں کو جوڑنا چاہتی ہوں۔ ہمارے نبیؐ نے قطع تعلق کیلئے منع فرمایا ہے۔ اس لئے مَیں اس جانب کوشش کرنا چاہتی ہوں۔ لوگوں کی صلح کروانا چاہتی ہوں۔ رشتے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً اپنوں کی خیرت معلوم کریں اور محبت سے پیش آئیں۔
نوشین نہال مومن (بھیونڈی، تھانے)
اپنی تحریروں کے ذریعے اصلاح


معاشرہ میں سدھار تب آئیگا جب ذہن کی گندگی کو صاف کیا جائیگا اور ذہن کی گندگی دینی و صحیح تعلیم کے ذریعے ہی صاف کی جاسکتی ہے۔ میں نے کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں زندگی، رشتوں اور معاشرہ سے جڑی بہت ساری باتوں کا ذکر کیا ہے۔ دراصل مَیں اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں تک مثبت باتیں پہنچانا چاہتی ہوں۔ میرا کتابیں لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اسکے ذریعہ معاشرہ میں مثبت تبدیلی آئے۔
ہما انصاری (مولوی گنج، لکھنؤ، یوپی)
اجتماعی کوشش مؤثر ثابت ہوتی ہے
ہم میں سے جو جہاں ہیں وہ اپنے محلے سے اصلاح کی پہل کریں۔ جس کا طریقہ کار یہ ہوسکتا ہے کہ ایک ٹیم بنائی جائے جس میں باہمت، صبر و شکر کرنے والی اور چند پاکیزہ خیالات کی حامل اسلامی بہنیں ہوں۔ وہ گھر گھر جاکر پہلے ذہن سازی کریں۔ پھر اصلاح معاشرہ سے متعلق متعدد پروگرام کا انعقاد کریں۔ ان پروگراموں میں صحت کی اہمیت، لڑکیوں کی تعلیم، عدم مساوات، اخلاقی اور سماجی اقدار کی تعلیم، خدمت خلق، پیشہ ورانہ زندگی میں حصے داری جیسے موضوعات پر روشنی ڈالی جائے۔ اس طریقے پر عمل کرکے ہم معاشرے میں مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں۔
زیبا فاطمہ عطاریہ (امروہہ، یوپی)
فرسودہ رسمیں
معاشرے میں کئی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ دوسروں کی تہذیب اپنا کر ہم اندھی تقلید میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ مَیں ان کی سخت مخالف ہوں اور خود کو ان کاموں کو انجام دینے روکتی ہوں۔ مَیں لوگوں کو غیر ضروری رسموں سے آگاہ کرنا چاہتی ہوں۔ اس کے علاوہ جس شادی میں ایسی رسمیں ہوتی ہیں، وہاں مَیں شرکت نہیں کروں گی۔ اور دوسروں کو بھی سمجھاؤں گی کہ وہ بھی ایسی شادیوں میں نہ جائیں۔ اس کے علاوہ بچے موبائل فون کے عادی ہوگئے ہیں۔ مَیں والدین کو متوجہ کرنا چاہوں گی۔ بچوں کو موبائل فون سے دور رکھنے میں ان کی مدد کرنا چاہوں گی۔
ایس خان (اعظم گڑھ، یوپی)
دینی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے


میرا مقصد یہ ہے کہ ہر ایک کو توحید کی دعوت دوں۔ آج معاشرے میں ہر کوئی ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ان‌ تمام‌ کے بنیادی عنصر اور مقصد میں دینی تعلیمات کو مد نظر رکھا جائے کہ ہم سب ایسا کیا کریں کہ جنت کے دعویدار بن جائیں۔ نشہ جیسی لعنت پر سختی سے روک لگانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کے تحفظ کے لئے کوشش کرنا چاہتی ہوں۔ 
رضوانہ رشید انصاری (امبرناتھ، تھانے)
دیر تک سونا
معاشرے میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کیلئے مَیں یہ کام کرنا چاہتی ہوں: ٭سب سے اہم بات، ہمیں ایک دوسرے کا خیر خواہ بننا ہوگا۔ اس سے کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ٭ہم میں ایک برائی دیر تک سونا ہے۔ تھوڑی سی کوشش کی جائے تو اس برائی سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ صبح جلدی اٹھنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ صبح جلدی اٹھنے کے کئی فوائد ہیں۔ مَیں صبح جلد اٹھنے کی اہمیت بتا کر لوگوں کی اصلاح کرنا چاہوں گی۔ ٭ہم اپنا کام مقررہ وقت پر انجام نہیں دیتے ہیں۔ مَیں اس جانب بھی لوگوں کو متوجہ کرنا چاہوں گی۔ اُمید ہے مجھے کامیابی ملے گی۔
زہرہ جبین (ممبرا، تھانے)
بچوں کی رہنمائی کرکے
ایک اچھا معاشرہ تشکیل دینے کے لئے اس میں موجود ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا۔ چونکہ میں خود معاشرے کا ایک حصہ ہوں اس لئے اس میں موجود برائیوں کو دور کرنے کے لئے میں اپنی ذات سے شروعات کروں گی۔ میں ایک معلمہ ہوں تو میں اپنے اور اسکول کے بچوں کو بچپن ہی سے معاشرے کے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ کروں گی۔ ان میں احساس ذمہ داری پیدا کروں گی۔ کیونکہ مستقبل میں یہی بچے بڑے ہو کر ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کریں گے۔ اس طرح میں معاشرے میں پھیلی برائی کو دور کرنے میں اپنا رول ادا کروں گی۔
بنت سیّد (جلگاؤں، مہاراشٹر)
یہ ۴؍ نکات توجہ چاہتے ہیں
معاشرے میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کے لئے میں چاہتی ہوں کہ عورتیں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ خاص طور پر ان چار نکات پر توجہ دیں:
(۱)عورتیں علم حاصل کریں۔ خود بھی علم حاصل کریں اور بچوں کو بھی علم سکھائیں۔ دینی و دنیاوی، دونوں تعلیم حاصل کریں۔ ماں کی گود بچوں کا پہلا مدرسہ ہوتی ہے۔ (۲)’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ یعنی اچھے کام کرنا اور برے کاموں سے روکنا اپنی اولاد کو سکھائیں۔ (۳)اولاد کی تربیت پر پوری توجہ دیں۔ تربیت یافتہ اولاد ہی تاریخ کا رخ بدل سکتی ہے۔ لڑکا یا لڑکی دونوں ماں کی گود ہی سے پل کر نکلتے ہیں۔ دونوں کی اچھی تربیت کریں۔ (۴) باپردہ اور با حیا رہیں۔ سماج میں بے پردگی سے بہت سے فتنے پھیل رہے ہیں۔ اسلام میں لڑکوں کو بھی آنکھیں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ بہترین تربیت سے پالی گئی اولاد معاشرہ کو بدل سکتی ہے۔ ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ اللہ ہم کو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے والا بنائے۔
طلعت شفیق (دہلی گیٹ، علیگڑھ)
ذہن سازی


جتنی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ہمارا معاشرہ آگے بڑھ رہا ہے اتنی ہی تیزی سے اخلاقیات میں کمی واضح طور دیکھنے کو مل رہی ہے۔ـ اور ہم دھیرے دھیرے اپنے مذہب سے بھی دوری اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سماج میں کئی قسم کی برائیاں بھی جنم لے چکی ہیں جو ہماری نسل کو پوری طرح سے برباد کر رہی ہیں جیسے جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، احترام نہ کرنا، نشہ کرنا، سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنا، تعلیم پر توجہ نہ دینا وغیرہ اس لئے میں سب سے پہلے والدین، خصوصی طور پر والدہ کی تربیت کرنا چاہوں گی کیونکہ گھر اور بچوں کی تربیت ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اگر وہ دین سے آشنا ہوں گی تو اپنے بچوں کی پرورش اچھی طرح سے کرسکیں گی۔ اس کے علاوہ اس قوم کا مستقبل ہمارے نوجوان ہیں اسی لئے میں انہیں برائیوں کے مضر اثرات سے واقف کروانا چاہوں گی اور اپنے پیغمبروں، اسلاف، ولیوں کی باتیں ان کے اعلیٰ کردار کو بتانا چاہوں گی۔ اخلاقی اور مذہبی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا کروں گی۔ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرنے پر زور دوں گی۔ انہیں سمجھانے کی کہ اپنے آپ کو پہچانو، اس قیمتی زندگی کو ضائع نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھو۔ اگر ضرورت ہوئی تو میں کسی سماجی تنظیم کا بھی سہارا لینا چاہوں گی۔
نسیم رضوان شیخ (کرلا، ممبئی)
بد نیتی ام الخبائث ہے 
رب کی عطا کردہ نعمتوں کو دیکھ کر حسد کرنا بد نیتی ہے، خواہشات نفسانی کی پیروی میں انسانیت کو روند ڈالنا بد نیتی ہے، مسکراتی اور خوشحال زندگی کو دیکھ کر نفرت کی آگ ‌میں جھلسنا بد نیتی ہے، معاشرے کے امن و سکون کو اپنی سفاکیت سے خوفزدہ کرنا بدنیتی ہے۔ اگر بدنیتی کو معاشرے سے ختم کردیا جائے تو معاشرہ یکجہتی و امن و سلامتی کی مثال بن جائے گا۔ اگر بدنیتی کو نیست و نابود کر دیا جائے تو دوشیزاؤں کی عصمت مجروح نہیں ہوگی۔ ہر شخص اپنی زندگی کو راہ راست پر لانے کے لئے ذمہ دار ہے اور اپنے اندر سے ان تمام اخلاق رذیلہ کو ترک کریں جس سے معاشرہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے، اور معاشرے میں رہنے والے اس سے غیر محفوظ ہیں۔
ایم ممتاز اعظمی (اعظم گڑھ، یوپی)
صفائی پر توجہ دلانا چاہتی ہوں
بچوں کو صفائی کی تلقین کرنی چاہئے۔ بچے اکثر چیز کھانے کے بعد پیکٹس یونہی پھینک دیتے ہیں۔ یہ بری عادت ہے۔ بچوں کو کچرا کوڑے دان میں پھینکنے کی تلقین کریں۔ مَیں اس پر عمل کرتی ہوں اور دوسروں کو بھی تلقین کرتی ہوں۔
ایس انصاری (ممبئی)
دوسروں کی ٹوہ میں نہ رہیں


جہالت کو مٹانے کیلئے تعلیم کا حصول ازحد ضروری ہے کیونکہ تعلیم یافتہ انسان ہی تمام برائیوں سے دور رہ سکتا ہے۔ دوسروں کی عزت و احترام کریں۔ رشتوں کا احساس و یاس رکھیں۔ جھوٹ، غیبت اور فریب سے دور رہیں۔ اپنے اخلاق کو، اپنی شخصیت و اندازِ گفتگو کو بلند کریں۔ دوسروں کی ٹوہ میں نہ رہیں۔ سب سے مل جل کر رہیں۔ اپنی طرز زندگی کو سدھاریں۔ نئی نسل کو تعلیم یافتہ بنا کر ان میں بیداری جگائیں۔
ریحانہ قادری (جوہو اسکیم، ممبئی)
دینی تعلیم کے ذریعہ


معاشرہ میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کا بہترین طریقہ دینی تعلیم ہے۔ ہمیں آپؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہوگا۔ خاص طور پر بچوں کو دینی تعلیم سے روشناس کروانا ہوگا۔ بحیثیت معلمہ مَیں بچوں کو پڑھاتے وقت ان کی درست سمت میں ذہن سازی کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
منصوری رومانہ تبسّم (شہادہ، نندوربار)
تعلیم کو عام کرنا چاہتی ہوں


موجودہ دور میں ہماری ترقی اور امن کا راز علم کا حصول ہے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی نہایت ضروری ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ معاشرہ کے فلاح کیلئے تعلیم کو عام کروں۔ آداب و احترام کا سبق دوں تاکہ جاہلانہ حکمرانی اور مفاد پرستی کی گنجائش نہ ہو۔ ایک معلمہ ہونے کے ناطے میں کوشش کرونگی کہ اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کروں ان کو دین اخلاقیات سکھاؤں۔ ان کو امن آشتی ہم آہنگی کی تعلیم دوں۔ بدی، رذائل کے مضر اثرات سے واقف کراؤں۔ ان کو دین امن کا پیغامبر اور عالمی شہری بناؤں۔ دین کا داعی بناؤں تاکہ ایک صحتمند معاشرے کی تشکیل ہوسکے۔
عائشہ آبشار احمد (گرانٹ روڈ، ممبئی)
دینی تعلیم کے ذریعہ اصلاح


آج کل کے بچے ماڈرن بننا چاہتے ہیں۔ اس چاہت نے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ ہمیں اس جانب توجہ دینی چاہئے۔ بچوں کو بے حیائی سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دینی تعلیم کے ذریعے ان کی اصلاح کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ، بچے منشیات کے عادی ہو رہے ہیں۔ ہمیں بچوں کو اس کے نقصانات کے بارے میں بتانا چاہئے۔
گل شہانہ صدیقی (امین آباد، لکھنؤ، یوپی)
یہ مسئلہ ہماری توجہ چاہتا ہے


موجودہ دور کے بچے اپنے والدین کی عزت نہیں کرتے ہیں۔ اپنے والدین کو برا بھلا کہتے ہیں۔ انہیں بوجھ سمجھتے ہیں۔ بعض دفعہ غیر شادی شدہ بیٹیاں اپنے والدین کا خیال رکھتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں، مَیں بیٹوں کو ان فرض یاد دلانا چاہتی ہوں۔ انہیں تاکید کرنا چاہتی ہوں کہ بیوی اور بچوں کے ساتھ ساتھ بوڑھے والدین کا خیال رکھنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ ایسے بیٹوں سے میری التجا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کا خیال رکھیں۔ ان کی عزت کریں۔ کچھ وقت نکال کر ان سے باتیں کریں۔
سیّد شمشاد بی احمد علی (کرلا، ممبئی)
پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے
معاشرہ میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کیلئے سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ ہم اکثر کئی مسائل پر چرچا کرتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ برائیوں کو ختم کرنے کیلئے ہمیں اقدامات کرنے چاہئیں۔ سب سے اہم بات قرآن مجید کی تلاوت کریں، اس سے اچھے اور برے کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ ہمیشہ سچ بولیں۔ کسی کو بھی اچھی باتیں نرم انداز میں بتائیں۔ اس طرح معاشرہ میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
سلمہ صلاح الدین (دربھنگہ، بہار)
اپنا کردار درست کریں
موجودہ سماج کی اصلاح کیلئے میں وہی نسخہ کیمیا پیش کروں گی جو پندرہ سو سال پہلے نبیٔ برحقؐ نے گمراہ عربوں کیلئے پیش کیا تھا۔ بچوں سے پہلے والدین کو دین اسلام کی پیروی کرنی چاہئے۔ حق حلال رزق کو اپنی زندگی کا شعار بنانا چاہئے۔ جھوٹ، غیبت اور مغلظات سے بچنا چاہئے۔ اپنے دلوں میں یتیم، بیوہ اور غریبوں کیلئے ہمدردی کے جذبات پیدا کرنا چاہئے۔ قرابت داروں اور پڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ جب داخلی طور پر ہمارا کردار سنور جائیگا تو سماج خودبخود سدھر جائیگا۔
شیخ رابعہ عبدالغفور (ممبئی)
اخلاقی اقدار کا درس


معاشرہ میں پھیلی برائیوں کا سب سے اہم اور بنیادی سبب جہالت اور کم علمی ہے اور تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ سو سب سے پہلے ان برائیوں کے خاتمے کیلئے تعلیم کو عام کرنا چاہوں گی۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں انہیں اخلاقی اقدار کا درس بھی دیا جائے۔ کتابی تعلیم کے ساتھ ساتھ میں ادب و تہذیب بھی سکھانا چاہونگی۔ آج کل سوشل میڈیا معاشرہ میں برائیاں پھیلانے کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ والدین سے گزارش کرونگی کہ اپنے بچوں کو موبائل فون کم سے کم استعمال کرنے دیں۔
ناہید رضوی (جوگیشوری، ممبئی)
عملی کوشش کرنا چاہوں گی
معاشرہ میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کیلئے میری کوشش ہوگی کہ تمام لوگوں کو خاص طور سے نوجوانوں کو نماز اور قرآن سے جوڑوں۔ لوگوں سے ملوں گی اور انہیں معاشرے کی اصلاح کیلئے کوشش کرنے کیلئے آمادہ کروں گی۔ مَیں ایک کونسل سے جڑی ہوں جس کے ذریعے نئی نسل کی رہنمائی کر رہی ہوں۔ اس کونسل سے لوگوں کو بھی جوڑنے کی کوشش کروں گی۔ پیرنٹنگ سیشن آرگنائز کروں گی تاکہ ماں باپ کی بھی تربیت ہوسکے جو کہ آج کل کے حالات کی سخت ضرورت ہے۔ ماں باپ اپنے آپ کو ہی ہمیشہ صحیح سمجھتے ہیں اور بچوں کو اور حالات کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں جبکہ وہ خود غلط ہوتے ہیں!
فرزانہ ہاشمی (شہر کا نام نہیں لکھا)

تعلیم: بہترین ذریعہ

معاشرہ میں پھیلی ان برائیوں کو دور کرنے کیلئے میں چند اقدامات کرنا چاہوں گی: (۱)تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان میں شعوری بیداری پیدا کرتا ہے‌۔ (۲)مَیں معاشرہ کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلانےکی حتیٰ الامکان کوشش کرنا چاہوں گی۔ (۳)مَیں چاہتی ہوں کہ ہم ہمارے اخلاق کو بہتر سے بہتر بنائیں۔ جن اخلاقیات کا ذکر قرآن میں ہوا ہے ان کو اپنانے کی ترغیب دینا، جسے ’’امر بالمعروف‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ کہا گیا ہے۔ (۴)معاشرہ کے سامنے درست مثال پیش کرنے کی کوشش کروں گی۔ (۵)بیداری مہم کے مختلف پروگرامز کا انعقاد کرنا چاہوں گی۔
فردوس انجم (بلڈانہ مہاراشٹر)
فرسودہ روایات کا خاتمہ میرا مقصد


سب سے بڑی برائی جہیز ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں اپنی قیمتی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ مَیں اس برائی کو ختم کرنے کی شروعات اپنے گھر سے کرنا چاہتی ہوں اور اپنے بچوں کی شادیاں بغیر جہیز اور بنا کسی غیر اسلامی رسم و رواج کے کرنے کا عزم رکھتی ہوں اور اپنے قریبی ہم مزاج خواتین کے ساتھ مل کر نکاح کو آسان بنانے کی مہم شروع کرنا چاہتی ہوں تاکہ بیٹیاں جہیز جیسی برائی کی شکار نہ بنیں۔
ترنم صابری (سنبھل، یوپی)
منصفانہ برتاؤ


عدل و انصاف اور در گزر ہی برائیوں کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اگر کوئی برائی کرے تو اس کا جواب اچھائی سے دو۔ درگزر کرنا سنّت ہے۔ ہم اُمت رسولؐ ہے۔ اس لئے ہماری زندگی ایسی ہو کہ دوسرے اس کی مثال دیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی، اس کا اجر دنیا اور آخرت دونوں جگہ ملے گا۔ احسان کرنے اور منصفانہ برتاؤ اپنانے سے برائیاں دور ہوتی ہیں۔ میں اپنے عمل سے یہی کوشش کرنا چاہتی ہوں۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولاپور، مہاراشٹر)
تعلیم کی اہمیت سے واقفیت


بچوں اور عورتوں کی تعلیم کے فروغ کے ذریعے معاشرے میں شعور پیدا کیا جاسکتا ہے۔ جو سماجی برائیوں کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ قانون سازی اور پالیسی میں تبدیلی کی حمایت کے ذریعے اپنی آواز کو حکومت تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ تعلیمی مہمات قائم کی جاسکتی ہیں جس کے ذریعہ والدین اور معاشرہ کو تعلیم کی اہمیت سے واقفیت دلائی جاسکتی ہے۔ خواتین کے تحفظ کیلئے بیداری مہم شروع کی جاسکتی ہے۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
محبت کا پیغام
اس وقت معاشرے میں نفرت کا بازار گرم ہے۔ کچھ لوگ اپنے مفاد کے لئے معاشرے میں نفرت کا زہر گھول رہے ہیں۔ نفرت کے نام پر ہمیں بانٹا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں میری کوشش ہوگی کہ آپسی بھائی چارگی کو فروغ دوں۔ پیار و محبت اور حسن اخلاق کے ذریعے نفرت کی دیوار گرا دوں۔ معاشرے کو امن کا پیغام دینا چاہتی ہوں۔ دیکھا جائے لوگ آپس میں مل جل کر رہنا چاہتے ہیں۔ سبھی سکون سے اپنی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں مگر شر پسند عناصر لوگوں کو مذہب اور ذات کے نام پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ مَیں سب کو محبت سے جوڑنا چاہتی ہوں تا کہ معاشرہ میں امن قائم ہو۔
ام اسامہ (پونے، مہاراشٹر)
سیلف ہیلپ گروپ کی تشکیل


معاشرہ میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کیلئے خواتین کا ایک امدادی حلقہ یعنی سیلف ہیلپ گروپ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ گروپ قریب و جوار میں رہنے والے افراد کے ۲۵؍ یا ۳۰؍ مکانات پر ہی مشتمل ہوگا۔ نو عمر لڑکے لڑکیوں میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کو روکنے کیلئے یہ گروپ ان کو چھوٹے پیمانے پر کوئی روزگار کرنے کا یا تعلیم جاری رکھنے میں مدد اور کاؤنسلنگ کا کام کر سکے گا۔ ایسے ہی کسی گروپ کیلئے مَیں کام کر سکتی ہوں۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
موبائل فون کا بے جا استعمال


موبائل فون کی اہمیت و افادیت سے انكار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا بے جا استعمال نقصاندہ ثابت ہورہا ہے۔ گھر میں والدین، بھائی بہن، دادا دادی موجود ہیں مگر آج کے بچے ان سب کو نظر انداز کرکے موبائل میں منہمک رہتے ہیں۔ اسلئے ہم نے عہد کیا ہے کہ اس برائی کی روک تھام کیلئے اپنے قریبی سے اس موضوع پر گفتگو کرکے اس برائی سے ہم خود بھی بچیں گے اور دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کرینگے۔
درخشاں (ردولی، ایودھیا)
اپنی اصلاح کی فکر
جب کبھی ہم اصلاح کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد ہمیشہ دوسرے لوگ ہوتے ہیں۔ دراصل ہمیں اپنی ذات میں کوئی برائی نظر نہیں آتی ہے۔ ہمیں اس رویے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر معاشرے میں پھیلی برائیوں کو دور کرنا ہے تو پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ اپنے رویے کو درست کرنا ہوگا۔ اپنی اصلاح کی فکر کرنی ہوگی۔ اس طرح معاشرے میں پھیلی کئی برائیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ مَیں اس سوچ کو فروغ دینا چاہتی ہوں۔ اس کے علاوہ، مَیں چاہتی ہوں کہ بچوں کو دینی تعلیمات دی جانی چاہئے تاکہ ان کی راہ درست سمت پر گامزن رہے۔
ہاجرہ نور محمد (چکیا، حسین آباد، اعظم گڑھ، یوپی)
مادیت پرستی


سب سے بڑی برائی اخلاقیات کا فقدان ہے۔ اخلاقی تعلیم کسی بھی معاشرہ کی بنیاد ہوتی ہے۔ آج ہم سب مادیت کی طرف راغب ہے۔ اگر مجھے موقع ملے تو میں معاشرہ سے ایسے لوگوں کو ہٹانا چاہوں گی جن کا کام صرف افواہوں کے ذریعہ نفرت پھیلانا ہوتا ہے۔ دوسری بات ہم یہ کرسکتے ہیں کہ معاشرہ کے ہر بچے کو بچپن ہی سے زندگی گزارنے کی بیسٹ پالیسی سے آگاہ کر دیں تو ہر بچہ اچھا شہری کہلائے گا۔
عظمیٰ تجمل بیگ (مہاراشٹر)
ٹیکنالوجی کا بڑھتا استعمال اور نئی نسل


موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کا استعمال کافی بڑھ گیا ہے۔ جس کے منفی اثرات نئی نسل پر پڑ رہے ہیں۔ بعض دفعہ بچے سنگین قدم اٹھا لیتے ہیں۔ میری کوشش ہوگی کہ انہیں دینی تعلیمات سے آگاہ کروں۔ انہیں بتاؤں کہ زندگی کس طرح گزارتے ہیں۔ اس طرح سماج میں پھیلی برائیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ، بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کیلئے ان کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔
قاضی شازیہ رفیع الدین (دھولیہ، مہاراشٹر)
قرآن و سنّت سے دوری
ہمارے معاشرہ میں بہت سی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں لیکن ان میں سے بہت ساری برائیوں کی جڑ قرآن و سنّت سے دوری اور عقل اور ارادہ کا کمزور پڑ جانا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم برائیوں کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم اس لئے عام ہونی چاہئے کیونکہ اس میں معاشرتی برائیوں کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس کا علاج بھی تجویز کیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ قرآن پاک ہر اچھائی کی جزا بتا کر ہمیں اچھائی کی طرف مائل کرتا ہے اور برے کاموں کی سزا بتا کر ہمیں برائی سے نفرت اور دور رہنے کی ترغیب بھی دلاتا ہے۔
شازیہ رحمٰن (ہاپوڑ، یوپی)
اخلاقیات کو فروغ دینا میرا مقصد


معاشرے میں پھیلی برائیوں کا خاتمہ عملی اقدامات سے ممکن ہے۔ مَیں تعلیم اور اخلاقیات کو فروغ دینا چاہتی ہوں تاکہ آنیوالی نسلیں برائیوں سے محفوظ رہیں۔ الحمدللہ مجھے کمرۂ جماعت میں اس کے بھرپور مواقع میسر ہیں۔ طلبہ کو اخلاقیات کی تعلیم دیکر ہی معاشرتی اندھیروں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح میں اپنی اصلاح بھی کرنا چاہتی ہوں۔ ہر فرد اپنی اصلاح کریگا تو معاشرہ مجموعی طور پر بہتر ہو سکتا ہے۔
نکہت انجم ناظم الدین (مانا، مہاراشٹر)
تعلیم کے تئیں بیداری


ہم سب کی کوشش سے معاشرے میں پھیلی برائیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ سب سے اہم، ہمیں تعلیم کے تئیں بیداری لانی ہوگی۔ ہر بچے کیلئے تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ تعلیم ہی کے ذریعے انسان کو صحیح اور غلط کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ آج کل میڈیا جھوٹ پھیلا رہا ہے۔ میڈیا کے جھوٹ کو پکڑنے کیلئے ہمارا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ ہمیں غلط کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی ہوگی۔
خان نائلہ ذاکر حسین (ساکی ناکہ، ممبئی)
صحیح اور غلط میں فرق


موجودہ دور میں لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ صحیح اور غلط میں فرق کیا ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم خود کو ماڈرن بنانا چاہتے ہیں۔ ہر وقت دوسروں پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ زندگی میں کامیاب ہونے کیلئے درست راستے کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ایمانداری سے اپنا کام کرنا ہوگا۔ میری کوشش ہوگی کہ نئی نسل کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھاؤں تاکہ ایک بہتر معاشرے تشکیل پائے۔
جویریہ طارق (سنبھل، یوپی)
تعلیم کو عام کرنا چاہوں گی


آج کل معاشرہ میں برائیوں کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ برائیاں معاشرہ کو کھوکھلا بنا رہی ہیں۔ ان برائیوں سے نجات حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ معاشرے میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کے لئے میں معاشرے میں تعلیم کو عام کرنا چاہوں گی۔ احکام الٰہی اور فرمان رسولؐ کی روشنی میں معاشرہ کی تشکیل کروں گی۔ بہترین اور اعلیٰ تعلیم کے ذریعے معاشرہ کو سنوارنے کی کوشش کروں گی۔
ناز یاسمین سمن (پٹنہ، بہار)
دینی تعلیم کے پس منظر میں