Inquilab Logo

اوڑھنی اسپیشل: مجھے وہ رمضان کبھی نہیں بھولتا

Updated: March 21, 2024, 2:10 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔

Memories of Ramadan spent in childhood are imprinted on the mind. Photo: INN
بچپن میں گزارے رمضان کی یادیں ذہن پر نقش ہوجاتی ہیں۔ تصویر: آئی این این

بچپن کا وہ خوبصورت دور


رمضان کا مہینہ اللہ کے قرب کو حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ لیکن یہ باتیں تو ہمیں شعور میں آنے کے بعد پتہ چلی ہیں۔ بچپن میں ہم پر کسی کام کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ نہ ہی سحری بنانے کی کوئی فکر اور نہ ہی افطار کی کوئی ذمہ داری۔ بس آرام سے بابا اور بھائی بہنوں کے درمیان افطاری کرنا۔ دل کیا تو دسترخوان سمیٹنا اور دل نہ کرے تو آرام سے طبیعت کی خرابی کا بہانہ۔ سارا دن شرارتیں کرکے گزارنا اور صرف والدہ کی ڈانٹ سے بچنے کیلئے نمازوں کی پابندی اور قرآن کی تلاوت کا اہتمام۔ اب وہ دور یاد آتا ہے تو دل کرتا ہے کہ کاش ہم کبھی بڑے ہی نہ ہوئے ہوتے۔ آج ذمہ داریوں اور مصروفیت سے بھرا ہوا دن بچپن کی بہت یاد دلاتا ہے۔ بچپن میں گزارا ہوا رمضان یادوں کے خانے میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔
خان امرین حفاظت (ممبرا، تھانے)
مئی کا روزہ
مئی ۲۰۱۸ء کا رمضان مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ اس سال میں ماسٹرز کے فرسٹ ایئر کی طالب علم تھی۔ مَیں اور میری سہیلی مصباح ہم دونوں روزہ رکھ کر پیپر دینے جاتے تھے۔ صبح ۸؍ بجے ہم گھر سے نکلتے تھے مگر واپسی میں گھر پہنچتے ہوئے ہمیں شام کے کبھی پانچ تو کبھی چھ بج جاتے تھے۔ اللہ کے فضل سے ہمارا پیپر اور روزہ دونوں ہی خیریت سے گزر گیا مگر وہ رمضان اب بھی یاد ہے۔
انصاری کے ایس (بھیونڈی، تھانے)
وہ رمضان بیٹی اور والدہ کی دلجوئی میں گزرا
وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا جس میں میری بیٹی اور امی جان ایک ہی وقت میں عدت کے دن گزار رہی تھیں۔ بیشتر وقت میرا دونوں کی دلجوئی میں گزرتا تھا۔ بیٹی کی نئی شادی تھی صرف چالیس دن کا عرصہ گزرا تھا کہ مشیت ایزدی عزیز داماد ہم سے جدا ہوگئے اور اس کے تھوڑے دنوں بعد ہی میرے ابا جان بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے (آمین)۔
بنت شبیر احمد (ارریہ، بہار)
پوتی کا روزے کی حالت میں تڑپ جانا


یہ اس وقت کی بات ہے جب میری پوتی پہلی جماعت میں پڑھتی تھی۔ اس کا روزہ تھا۔ مَیں اسے اسکول سے لا رہی تھی۔ ٹریفک کی وجہ سے راستے میں افطار کا وقت ہوگیا۔ گاڑی ایسی جگہ رکی جہاں دکانوں میں لوگ افطار کر رہے تھے۔ میری پوتی کو بہت پیاس لگ رہی تھی۔ اُس نے جس نظروں سے ہمیں دیکھا وہ نظریں میرے دل میں دھنس گئیں۔ دکان والوں سے پانی اور کھجور مانگا اور بچی نے روزہ کھولا۔ آج وہ بچی بڑی ہوچکی ہے اور اس کی اپنی بوتیک ہے۔ آج بھی وہ وقت یاد آتا ہے تو دل درد سے بھر جاتا ہے۔
بدرالنساء عبدالقدیر شیخ (شہر کا نام نہیں لکھا)
والد کا ہم سے جدا ہونا


۲۰۱۱ء کا رمضان ذہن پر نقش ہے۔ ۲۰۱۱ء کے رمضان میں میرے والد کا انتقال ہوا تھا۔ مجھے اچھے سے یاد ہے۔ ۲۲؍ ویں روزے کی سحری تھی اور تاریخ ۲۲؍ اگست تھی۔ ابو کی طبیعت بہت خراب تھی۔ لیکن اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اچانک چلے جائیں گے۔ تکلیف اس بات کی ہے کہ اس وقت مَیں والد صاحب کے پاس موجود نہیں تھی۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے (آمین)۔
قریشی عربینہ محمد اسلام (بھیونڈی، تھانے)
رمضان، عبادتیں اور سہیلیاں
وہ رمضان میرے لئے بہت یادگار ہے جب ہم سب سہیلیاں ایک ساتھ جمع ہوتیں اور اکٹھے افطار کرتیں۔ جب مَیں ششم جماعت میں تھی تب ہم سہیلیوں نے ایک ساتھ رمضان گزارا تھا۔ اس وقت ہمارے گھر پر افطار کا نظم تھا۔ اس دوران سبھی عبادت میں مشغول رہتی تھیں۔ بہت لطف آتا تھا۔ اس طرح مجھے وہ رمضان کبھی نہیں بھولتا۔
غازیہ نہر شیخ جاوید (جلگاؤں، مہاراشٹر)

بچپن میں پاپا کے ساتھ مسجد جانا


بچپن میں گزارے ہوئے رمضان مجھے اکثر یاد آتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب گھر ماں باپ کے وجود سے روشن تھا۔ آج بھلے ہی مختلف اور منفرد قسم کے کھانوں سے دسترخوان سجے ہوں لیکن اصل مزہ اور مہک امی کے محبت سے بنائے ہوئے کھانوں میں تھی۔ امی سحری میں گرم روٹیاں پروستیں اور پیار محبت سے کھلاتیں۔ اور آج خود ہی سحری کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ عصر کے بعد جب پاپا قران پاک کی تلاوت کرتے ان کا انداز اور آواز گھر کے کونے کونے سے رمضان ہونے کی صدا بلند کرتا۔ امی پاپا دونوں رمضان کی اہمیت اور خصوصیت بیان کرتے اور بچپن ہی سے روزہ رکھنے کی تلقین کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی یادیں ہیں جو ہر سال رمضان میں دل و دماغ پر طاری رہتی ہیں۔
جویریہ طارق (سنبھل، یوپی)
پڑوسیوں کے ساتھ افطاری


میرے والدین کو ہمیشہ ہی سے پڑوسیوں کا بڑا خیال رہا ہے۔ پڑوسیوں کو افطار کیلئے مدعو کیا گیا۔ طے شدہ وقت اور دن کے مطابق تمام لوگ آگئے۔ ٹیرس پر افطار کاانتظام کیا گیا۔ وہ افطاری کی رونق کا منظر آج بھی مجھے یاد ہے۔ میں کوئی گیارہ یا بارہ سال کی رہی ہوگی۔ بڑا سا دسترخوان بچھایا گیا۔ عصر کے بعد سے تیاریاں شروع کی گئیں۔ ایک طرف پڑوسی خواتین پھلوں کو کاٹنے میں لگی تھی تو گھر کے افراد مختلف پکوان بنانے میں مصروف تھے۔ بچے بڑوں کی مدد کر رہے تھے۔ دسترخوان پر افطاری کے سامان رکھ رہے تھے۔ سب اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ افطاری کا وقت ہونے تک اجتماعی دعا کا اہتمام کیا گیا اور خوشگوار ماحول میں افطاری کی گئی جو حسن سلوک اور رواداری اور آپسی میل جول کا بہترین نمونہ تھی۔
سیمیں صدف میر نوید علی (جلگاؤں، مہاراشٹر)
لاک ڈاؤن اور سب کا گھر پر ہونا


مَیں وہ رمضان کبھی نہیں بھول سکتی جو میں نے لاک ڈاؤن میں گزارا۔ لاک ڈاؤن کے سبب رمضان میں کافی دقتیں پیش آئیں لیکن گھر کے تمام افراد کا ساتھ ہونے سے آسانی ہوئی۔ میرا وہ رمضان عبادتوں میں گزرا کیونکہ ہر جگہ آنے جانے پر پابندی عائد تھی۔ ڈر و خوف کا ماحول تھا جس کی وجہ سے ہر ایک فرد ذکر الٰہی میں مصروف تھا اور رب کو راضی کرنے میں لگا ہوا تھا۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میرے گھر کے تمام افراد نے وہ رمضان ایک ساتھ گزارا ورنہ ذریعۂ معاش کے لئے ہر کوئی الگ الگ ہوتا۔ میرے گھر کے تمام افراد کا ایک ساتھ مل کر ذکر الٰہی کرنا، تلاوت، عبادات اور سحر و افطار کرنا، ایک دوسرے کی مدد کرنا، یہ میرے لئے خوشی کا باعث اور یادگار بن گئے۔
خان نرگس سجاد (جلگاؤں، مہاراشٹر)
میری بڑی بہن کا ایک قابل ِ تعریف قدم


ماہِ رمضان کے اہتمام سے متعلق چند سال قبل میری بڑی بہن کا ایک قابلِ تعریف قدم مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ یہ افطار اور طعام کا ایک ایسا انوکھا طریقہ تھا۔ ہماری رہائش سے کچھ فاصلے پر کچی بستی میں محنت کش غرباء لوگوں کی آبادی ہے اور ان کی خواتین اس علاقے کے مکانوں میں جھاڑو پونچھا، برتن دھونے کا کام کرکے اپنی روزی روٹی کماتی ہیں۔ باجی نے اپنے گھر میں کام کرنے والی خادمہ سے کہا کہ کل آپ سب لوگوں کی افطار اور رات کے کھانے کی دعوت ہے۔ سبھی مرد خواتین بچوں کے ساتھ آئیں۔ اگلے روز وہ لوگ گھر پہنچ گئے۔ اس افطار کی خاص بات یہ رہی کہ ان سبھی افراد کو اسی دسترخوان پر مکمل احترام اور اہتمام کے ساتھ افطار اور عشائیہ دیا گیا جو خاص مہمانوں کیلئے ہو سکتا ہے۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
۱۹۹۶ء کا رمضان میرا یادگار رمضان


یاد آتا ہے مجھے ۱۹۹۶ء کا رمضان جب میرے والدین ۴؍ مہینے کیلئے حج کے سفر پر گئے ہوئے تھے۔ میں اپنے تین بھائیوں کے ساتھ گھر میں تھی۔ والدین کی غیر موجودگی میں کافی ذمہ داریاں بڑھ گئی تھیں اور جب رمضان کے مہینےکا آغاز ہوا تو میری ذمہ داریوں میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ میری والدہ کا معمول تھا آس پاس کے روزگار دکانداروں کو افطاری تقسیم کرنا، ان کی غیر موجودگی میں میں نے ساری ذمہ داری بخوبی نبھائی۔ افطاری تقسیم کی، مستحب تک زکوٰۃ فطرہ پہنچایا، مہمان نوازی کی، خود روزہ رکھ کر بھائیوں کیلئے روزانہ ان کی پسندیدہ سحری اور افطار کا انتظام کیا اور اپنی بیمار ضعیف نانی کی خدمت بھی کی۔ سب کو خوش کیا، خوب دعائیں بٹوری اور بہت اچھے سے رمضان رخصت ہوئے۔ 
ہما انصاری ( مولوی گنج لکھنو)
بچپن کا رمضان اور پھپھو کی آمد


جب مَیں چھوٹی تھی اور میری دادی اور والد صاحب حیات تھے۔ سر پر نہ ذمہ داریوں کا بوجھ تھا نہ کوئی دوسری فکر۔ بس ہر وقت ایک سر مستی کا عالم رہتا تھا۔ اور یہ خوشی اس وقت دوبالا ہوجاتی جب پھپھو کی آمد ہوتی تھی۔ انہیں نت نئے پکوان بنانے کا شوق تھا ساتھ میں ہم سب کو بھی چھوٹے موٹے کام پکڑا دیتیں۔ وہ کام کرتے کرتے دنیا جہان کی باتیں کرنا اور ایک ایک بات پر گھنٹوں ہنسنا۔ ہر وقت شرارت اور دھما چوکڑی مچی رہتی۔ دادی کی ہلکی پھلکی ڈانٹ جسے ہم کبھی خاطر میں نہ لاتے۔ شام ہوتے ہی سارے محلے میں افطاری بانٹنے جانا۔ ایک ایک پکوڑے اور سموسے کیلئے جھوٹ موٹ کا لڑنا۔ تراویح کے وقت بہترین جگہ کے حصول کیلئے لڑنا اور لڑتے لڑتے خوب ہنسنا۔ سچ مجھے وہ رمضان کبھی نہیں بھولتا۔
رضوی نگار اشفاق (اندھیری، ممبئی)
سحری میں ۱۵؍ منٹ ہاتھ آئے تو....


مرد حضرات سے زیادہ گھر کی مستورات رمضان کے مہینے میں کچھ زیادہ مصروف رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ میں خواتین کا اپنے گھر والوں کی خدمت کے لئے بہت اجر رکھا ہے۔ رمضان میں وقت کی پابندی کا خیال رکھا جائے تو ہر کام آسان ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی تھکان ایسی چیز ہے جہاں انسان مجبور ہو جاتا ہے اور اپنے کاموں میں ہمیشہ کامیاب نہیں ہو پاتا۔ اگر آپ کو سحری میں ۱۵؍ منٹ ہاتھ آئے تو ظاہر ہے گھر کے سبھی افراد کو صرف چائے پر سحری کرنی پڑے گی۔ روزے کی خاطر یہ بھی کر جاتے ہیں یا صرف پانی پی کر بھی روزہ رکھ لیتے ہیں۔ ایک رمضان ایسا ہی کچھ یادیں میری زندگی میں چھوڑ گیا جسے میں ہمیشہ یاد کرکے مسکراتی ہوں۔ وہ رمضان مجھے کبھی نہیں بھولتا۔
شگفتہ منصوری (شہادہ، نندوربار)
ایک نئی شروعات


۲۰۲۱ء کا رمضان مجھے کبھی نہیں بھولتا۔ کیونکہ اس رمضان میں ہمارے خود کے بزنس کے برانڈ کا افتتاح ہوا تھا۔ جس کی بنیاد کافی دلچسپ، حیرت انگیز اور قابل ِ تعریف ہے۔ اور خاص یادگار بھی اس لئے ہے کیونکہ برانڈ کا نام ہمارے نام سے منسوب کیا گیا۔ اور جس دن اس کا افتتاح تھا اسی دن میرا جنم دن بھی تھا اور ستائیسواں روزہ بھی تھا۔ اور اس کی افتتاح ہم نے افطار پارٹی سے ہی کی تھی۔ اس لئے ۲۰۲۱ء کا رمضان ہمارے لئے یادگار بن گیا۔
شیخ تحسین حبیب (گھنسولی، نوی ممبئی)
رمضان، سنگھاڑا اور بچہ کا تالاب میں ڈوبنا
میری شادی کے بعد وہ پہلا رمضان تھا اور شاید نومبر کا مہینہ تھا۔ میں نے اپنی ساس اماں سے کہا کہ سنگھاڑا منگوا دیجئے۔ ابال کر کھایا جائے گا۔ انہوں نے میرے شوہر کو اس کے لئے بھیجا۔ وہ تازہ لانے کے چکر میں بازار کے بجائے تالاب پر گھر کے ایک بچے کو ساتھ لیکر پہنچ گئے۔ وہ تولنے میں مصروف تھے کہ تبھی بچہ سنگھاڑا پودے سے توڑنے کے چکر میں تالاب میں ڈوبنے لگا۔ میرے شوہر فوراً تالاب میں کود کر بچے کو باہر لے آئے۔ جب گھر پہنچے تو دونوں کیچڑ اور پانی سے لت پت تھے۔ میں نے فوراً پانی گرم کیا۔ دونوں نہا چکے تب میں نے پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا؟ تو انہوں نے پورا ماجرا بیان کیا۔ اس پر میں اور میری ساس اماں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ ہر سال رمضان آنے پر مجھے وہ واقعہ یاد آجاتا ہے۔
پروین افتخار (نزد ہندوستانی مسجد، بھیونڈی)
نانی کے ساتھ گزرا رمضان اور اجتماع
مَیں اپنی ننھیال میں رہتی تھی۔ اور میری نانی صاحبہ اجتماع کرتی تھیں اور ہر سال رمضان میں بہار چلی جاتی تھیں۔ مَیں بھی ان کے ساتھ جاتی تھی۔ صبح ۱۰؍ بجے سے ظہر تک اجتماع ہوتا اور زیادہ تر ہماری افطار کی دعوت رہتی تھی۔ وہاں کی عورتیں میری نانی کی بہت عزت کرتی تھیں اور مجھے بھی عزت اور پیار ملتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک عورت آئی اس کی بیٹی جس کی عمر ۶؍ سال تھی مجھ سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگی اور نانی سے بولی آج اپی میرے ساتھ افطار کریں گی۔ پھر نانی نے مجھے اجازت دیدی۔ اس کا معصوم چہرہ آج بھی مَیں نہیں بھول پائی۔ اور اتنی عزت جو مجھے شاید اپنی نانی مرحومہ کی وجہ سے ملی تھی۔ یہ بات تقریباً ۱۲؍ سال پرانی ہے۔ لیکن آج بھی وہ رمضان مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کل کی بات ہے۔ کاش! نانی ہم سے نہیں بچھڑتیں اور ہمیشہ میرے ساتھ رہتیں مگر افسوس یہ ناممکن ہے۔
سمیہ معتضد (اعظم گڑھ، یوپی)
لاک ڈاؤن میں گزرا رمضان


لاک ڈاؤن کے دوران رمضان کا مہینہ بھی گزرا۔ اس دوران کئی پابندیاں عائد تھیں۔ لوگ مسجد نہیں جا پا رہے تھے۔ البتہ ہر گھر مسجد کا منظر پیش کر رہا تھا۔ گھروں میں خوب عبادتیں ہو رہی تھیں۔ اللہ کی ہر نعمت سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ایک دوسرے کیلئے ہمدردی پیدا ہوگئی تھی۔ یہ کبھی فراموش نہ کرنے والے لمحات تھے۔ اور گرمیوں کے روزے یاد آتے ہیں۔ تڑپتی دھوپ، کپڑا گیلا کرکے پہننا اور دیگر کام انجام دینا وغیرہ کبھی نہیں بھولتے۔
شمع پروین فرید (کوچہ پنڈت، دہلی)
ایسا رمضان کبھی نہیں دیکھا


کورونا وباء میں گزرا رمضان کبھی نہیں بھولتا۔ اس رمضان میں ہماری مسجدوں میں تالے لگے ہوئے تھے۔ لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھ رہے تھے۔ رمضان میں عام طور پر ہم کھانے پینے کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں لیکن اس جان لیوا وائرس کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء کم دستیاب ہوتی تھیں۔ سوچ سمجھ کر چیزیں استعمال کرنی پڑتی تھی کہ کہیں یہ ختم نہ ہوجائے اور پھر نہ ملے تو رمضان میں گزارا کیسے ہوگا۔ لوگوں کے کاروبار بھی ٹھپ ہوگئے تھے۔ عید کے موقع پر اپنے عزیزوں سے بھی ملنے نہیں جاسکے تھے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا رمضان کبھی نہیں دیکھا۔ یا اللہ! ایسا رمضان امت ِ مسلمہ کو پھر کبھی نہ دکھائے (آمین)۔
سمیرا اظہر سرگروہ (نوی ممبئی)
رمضان کے ۲؍ واقعات


رمضان کے مہینے کی دو یادیں ایسی ہیں جو مَیں زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔ ۱۹۹۹ء میں میرے گھر پہلی اولاد میری بیٹی کی پیدائش ہوئی اس وجہ سے اُس سال رمضان کے ایک بھی روزے نہیں رکھ پائی تھی۔ ۲۰۲۰ء میں جب کورونا کی پہلی وباء میں میری امی کا انتقال ہوگیا۔ اس دن دوسرا روزہ تھا۔ یہ واقعات ہمیشہ یاد رہیں گے۔
شاہدہ وارثیہ(وسئی، پال گھر)

یہ رمضان کیسے بھولوں گی بابا!
پچھلا رمضان تھا کہ چاند نظر آتے ہی والد صاحب کی مبارکباد اور بے شمار دعائیں میرے وجود کو ایک تحفظ فراہم کر رہی تھی۔ اور ایک یہ رمضان ہے جہاں میں تنہا ہوں میرے اطراف ان کی دعاؤں کا کوئی حصار نہیں بس میں اور میری ذات۔ کاش کوئی یہ سمجھ پاتا کہ یتیم کا کوئی ہمدرد نہیں ہوتا۔ ان کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ دنیا کی کوئی بھی چیز آپ کا خلاپورا نہیں کرسکتی۔ آپ کے ساتھ کا وہ آخری رمضان اور آپ کے بغیر یہ پہلا رمضان میں کیسے بھولوں گی بابا!
ڈاکٹر ایس ایس خان (ممبئی)
میرے بچپن کا رمضان
یہ واقعہ میرے بچپن کے رمضان کا ہے۔ جب میری عمر دس اور میرے بھائی عدنان کی عمر ساڑھے گیارہ برس تھی۔ اُس سال ہم دونوں نے روزہ رکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ میرے والد کی خاص تاکید ہوتی تھی کہ سحری میں ذرا بھی شور نہ کیا جائے تاکہ بچے نہ اٹھیں۔ لیکن پھر بھی ہم اٹھ جاتے تھے۔ ایک رات میرے ابا ہم دونوں کی نگرانی کر رہے تھے اور ایسی خاموشی سے سبھی نے سحری کی کہ ہمیں احساس نہ ہوسکا۔ جب نیند کھلی تو ۸؍ بج رہے تھے۔ امی جان ہمارے لئے ناشتہ تیار کر رہی تھی۔ مَیں جلدی جلدی منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ یونیفارم اور اسکول کے وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی اسکول چلی گئی۔ یقیناً عدنان نے بھی ایسا ہی کرنے کا سوچا ہوگا لیکن پکڑا گیا۔ جب میں اسکول سے گھر آئی تو بیچارہ میرا بھائی نم آنکھوں کے ساتھ والدہ کے زیر سایہ کھانا کھا رہا تھا۔ مجھے بڑا افسوس ہوا اور ساتھ ہی خوب ڈانٹ بھی سننے کو ملی۔ اس طرح یہ رمضان مجھے کبھی نہیں بھولتا۔
عریشہ کوکب (مظفر پور، بہار)
والدہ کے بغیر رمضان اور عید ادھوری
۴؍ سال پہلے ہم سب بہن بھائیوں کیلئے رمضان کے معنی بدل گئے۔ مَیں کبھی نہیں بھول پاؤں گی۔ اُس رمضان امی ہمارا ساتھ چھوڑ گئیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے ان کے بغیر ہماری پہلی سحری۔ دسترخوان پر ان کی جگہ خالی دیکھ کر ہمارے نوالے آنسوؤں کے ساتھ ہمارے حلق میں ہی اٹک گئے تھے۔ رشتے دار آتے تھے تسلیاں دے کر چلے جاتے، کسی کے بھی آنے سے ان کی خالی جگہ پُر نہیں ہوسکتی تھی۔ امی ہمارے گھر میں سب سے پہلے بیدار ہونے والی ہستی تھیں۔ رمضان ہو یا کوئی عام دن وہ تہجد میں اٹھ جاتی تھیں۔ ہم دسترخوان پر بیٹھے ہوتے اور وہ گرم گرم روٹیاں اتار کر دیتیں، ساتھ ساتھ ان کی نصیحت بھی جاری رہتی، ’’ایک روٹی اور کھاؤ، روزہ رکھنا ہے ورنہ بھوک لگ جائے گی تو پڑھائی کیسے کرو گے۔‘‘ اب اس طرح ضد کرکے کھلانے والا کوئی نہیں رہا۔ ان کے جانے سے ہماری زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ ہم سب بکھر گئے ہیں۔ ان کے بغیر ہمارا رمضان اور عید سب ادھوری ہے۔
مرزا تقدیس جاوید بیگ (غیبی نگر، بھیونڈی)
سہیلیوں سے نیکی میں آگے نکل جانا....
ذہن پر بچپن کے رمضان کی رونقیں ہر سال رمضان آنے پر اپنے نقش و نگار کے رنگ روشن کرنے لگتی ہیں۔ وہ امی کا افطار کی پلیٹ میں رنگ برنگ کے لوازمات رکھ کر چھت پر بھیجنا کہ جاؤ اذان سن کر بتانا اور اسکول جا کر سہیلیوں سے پوچھنا کہ تمہارا کتنا پارہ اور روزہ ہوا، اگر سہیلی کا ہم سے کم ہوتا تو ہم بڑے خوش ہو جاتے کہ ہمارا زیادہ ہوا ہے۔ نیکیوں میں آگے بڑھ جانے کا شوق بڑا خوبصورت ہوتا۔
ساریہ عبدالقیس (جونپورہ، یوپی)
سب کے ساتھ مل کر افطار کرنا
اُس وقت ہماری عمر تقریباً پندرہ سولہ سال رہی ہوگی۔ گرمی کی شدت میں ماہ رمضان برکت ورحمت لےکر نازل ہوتا۔ روزہ رکھ کر اسکول جاتے پھر شام کو آتے سورج کی تمازت سے بے حال ہوجاتے مگر روزہ رکھنے کا جذبہ کم نہیں ہوتا۔ آزاد پنچھی والی زندگی تھی۔ ہم بھائی بہن ایک ساتھ ہوتے۔ شام کو رونقیں عروج پر ہوتی۔ سب کے ساتھ مل کر افطار کرتے۔ وہ خوبصورت پل اب خواب بن گئے اب تو ہماری شادی کو کئی سال ہوگئے۔ بہنوں سے ملاقات ہوئے عرصہ بیت گیا مگر رمضان کے وہ پل آج بھی دل پر نقش ہے۔ ہاں ایک اور رمضان ایسا گزرا جو بھولتا ہی نہیں وہ ہے جو کورو نا وبا کے دوران گزرا۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔چاروں طرف موت کا سناٹا گونج رہا تھا۔ اللہ کا شکر وہ وقت بھی گزر گیا۔
ایمن سمیر (اعظم گڑھ، یوپی)
بغیر سحری کا روزہ
رمضان المبارک رحمت، برکت، مغفرت، اپنے ساتھ ہر سال ایک بار لے کر آتا ہے۔ یہ بھولنے والا مہینہ نہیں ہے۔ کیونکہ رمضان ہی ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ہم سب کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔ یہ واقعہ ہر رمضان میں پیش آتا ہے۔ واقعہ اس طرح ہے کہ سحری کے وقت ہم میں سے کسی کی آنکھ نہیں کھلی۔ اور ہم لوگوں میں سے کسی نے سحری نہیں کیا۔ جب فجر کی اذان کی آواز کان میں پہنچی تو ہم لوگ بیدار ہوئے۔ اور سب لوگ اپنے کمرے سے نکلے۔ اور ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔ تم نے سحری کیا تو سب کا جواب ایک ہی تھا نہیں۔ اس واقعے کو کئی سال گزر گئے۔ لیکن ہر رمضان میں اس واقعے کو یاد کیا جاتا ہے۔
گلنازمطیع الرحمٰن قاسمی (مدھوبنی، بہار)
وہ پریشانی بھرا رمضان کبھی نہیں بھولتا
روزوں کے دوران میری امی کی طبیعت کافی خراب ہو گئی تھی۔ تب ہم کو پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ مجھے اور میرے پاپا کو تو کچھ کام کرنا ہی نہیں آتا تھا۔ ہم لوگ افطار کی تیاری بھی جیسے تیسے کرتے اور سحری کی بھی۔ مجھے اپنی امی کی خدمت اور دوا کی فکر بھی کرنی پڑتی تھی اور ان کی طبیعت کا خیال ۲۴؍ گھنٹے میرے ذہن میں رہتا تھا۔ پورے رمضان میری امی کی طبیعت نہیں سنبھلی تھی۔ جب میں اس رمضان کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے اپنے اوپر یقین نہیں آتا کہ میں اتنا سارا کام اتنے اچھے طریقے اور سلیقے کے ساتھ انجام دیئے۔ وہ رمضان مجھے کبھی نہیں بھولتا۔
مزنہ ذیشان (جمال پور، علی گڑھ)
سحری کیلئے دیر سے اٹھنا اور چائے پینا
رمضان میں مصروفیت اور تھکان کی وجہ سے کبھی کبھار ہمارے کام کی ترتیب آگے پیچھے ہوجاتی ہے۔ رمضان میں سحری کا وقت بڑی تیزی سے نکلتا ہے۔ ایسے میں اگر ۱۰؍ یا ۱۵؍ منٹ آپ کے ہاتھ آئے تو ہماری بھاگ دوڑ دیکھتے بنتی ہے۔ ظاہر ہے پانی یا چائے پر روزہ رکھنے کی نوبت آتی ہے۔ ایسا ہی ایک رمضان مجھے جب یاد آیا ہے تو مَیں اپنی ہنسی نہیں روک پاتی۔
منصوری رومانہ تبسم (شہادہ، نندوربار)
سہیلیوں کو روزہ کی اہمیت بتائی تھی
’’جس طرح ہر فصل اپنا موسم آنے پر پھلتی پھولتی ہے اسی طرح رمضان شریف بھی خیر و سلامتی کا موسم ہے۔‘‘ یہ جملہ مجھ سے میری امی نے کہا تھا۔ میں پانچویں جماعت میں تھی۔ مَیں ضد کرنے لگی کہ امی مجھے بھی روزہ رکھنا ہے۔ میری امی نے مجھے روزہ رکھنے کیلئے ’ہاں‘ کر دی۔ جب میں نے روزہ رکھی تو مجھے دیکھ کر میری ساری سہیلیوں نے بھی روزہ رکھا۔ مجھے اپنے دین سے واقف بھی ہونا تھا اور دوسروں کو بھی کروانا تھا۔ میں نے اپنی سہیلیوں سے کہا کہ اسلام کا تیسرا ہم رکن روزہ ہے اس لئے مسلمانوں کے نزدیک ماہ رمضان کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ روزہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہر پیغمبر کی تعلیمات میں ضروری اور فرض قرار دیا گیا۔ یہ بات ہم اپنے بھائی بہنوں تک پہنچائیں گے تاکہ وہ بھی روزہ رکھیں۔ میری تمام سہیلیوں نے یہ پیغام پہنچانے کیلئے ہاں کر دی۔ میں نے کہا جاؤ جا کر بچوں سے کہو کہ تم پر بھی روزہ فرض ہے۔ یہ کام کرنے سے میرے اور میری سہیلیوں کے دل میں اپنے دین کیلئے ایک جذبہ پیدا ہوا کہ ہمارا دین کسی سے کم نہیں۔ 
شفا ناز شیخ عقیل (جلگاؤں، مہاراشٹر)
مشترکہ کنبہ اور رمضان


مجھے اپنے بچپن کے رمضان ہمیشہ یاد رہیں گے۔ جب ہم مشترکہ کنبے میں رہتے تھے۔ ایک چھت کے نیچے ۲۸؍ افراد۔ سحر کو جاگنے سے لے کر تراویح تک ہر ایک لمحہ اتنا روحانی اور پرکیف محسوس ہوتا کہ میرا دل چاہتا تھا ماہ رمضان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹھہر جائے۔ ۲۶؍ رمضان المبارک کو ہمارے گھر سے پورے محلے میں افطاری تقسیم کی جاتی۔ زردہ اور پلاؤ پکایا جاتا۔ جب افطار کا وقت ہوتا تو وسیع و عریض دستر خوان لگایا جاتا۔ بچے، بڑے سب ایک دستر خوان پر جمع ہوتے۔ ایک ساتھ افطار ہوتا۔ نماز کے وقت گھر کے مرد مسجد چلے جاتے اور عورتیں اور بچے ایک کمرہ میں ساتھ نماز پڑھتے۔ لیلۃ القدر کے قیام کا اپنا مزہ تھا۔ میری والدہ، چاچی یا بڑی امی چائے بناتی تھیں۔ جب بھی نیند کا احساس ہوتا ہم وقفہ لیکر چائے پیتے اور پھر سے نماز پڑھتے۔ مجھے وہ دن کبھی نہیں بھولتے ہیں۔ 
نکہت انجم ناظم الدین (مانا، مہاراشٹر)
رمضان المبارک اورمیرے مخلص کی یاد
زندگی میں کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جو بھلائے نہیں جاتے اور ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ مجھے اپنے عزیز دادا جان کیساتھ گزارا ہوا رمضان نہیں بھولتا۔ نیکیوں کا موسم آتے ہی ذہن میں ماضی کی یادیں گردش کرنے لگتی ہیں۔ زندگی کے وہ ایام جن میں محترم و مخلص دادا ساتھ تھے بڑے حسین تھے۔ خاص کر رمضان میں مغرب کی نماز کے بعد سب کا ان کے ارد گرد جمع ہونا بہت یاد آتا ہے۔ افطار کے وقت دسترخوان پر محترم دادا کے قریب بیٹھنا سب بچوں کی خواہش ہوتی تھی جسے میں آج بھی یاد کرکے نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا اٹھتی ہوں۔ محترم دادا کے ساتھ بتایا ہوا رمضان مجھے نہیں بھولتا ہے کیونکہ اس بابرکت مہینہ میں ان کے ذریعہ کی گئی نیکیوں اور نصیحتوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ انسانوں سے روابط کی صلاحیت، دوسروں کے ساتھ تعلق، لوگوں کی مدد و رہنمائی غرض بہت ساری چیزیں عزیز دادا جان کیساتھ بتائے ہوئے رمضان کی خاص یادیں ہیں جو ہر بار مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں۔ اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے (آمین)۔
بنت شکیل احمد (مئو ناتھ بھنجن، یوپی)
جب والد صاحب دوسرے شہر میں تھے


جس سال لاک ڈاؤن نافذ ہوا تھا۔ اس سال کا رمضان میں کبھی بھول نہیں سکتی کیونکہ اس سال میرے والد محترم میرے ساتھ نہیں تھے اور یہ میری زندگی کا ان کے بغیر پہلا رمضان تھا۔ وہ اس وقت کلکتہ میں لاک ڈاون میں پھنس گئے تھے۔ چونکہ اس وقت عام لوگوں کو باہر نکلنے کیلئے منع کیا گیا تھا اس لئے والد صاحب گھر نہیں آسکے تھے۔ ان کے بغیر رمضان گزارنا مشکل تھا۔ لیکن اللہ رب العزت نے اس رمضان میں وہ وہ نعمتیں کھلائی جن کا ہم کبھی بھی شکر ادا نہیں کر سکتے اور وہ رمضان ہماری زندگی کا یادگار رمضان بن گیا۔
توحیدہ خاتون (دریاباد، بارہ بنکی)
کورونا کے دور کا رمضان


مجھے ۲۰۲۱ء کا رمضان نہیں بھولتا جب کورونا کی وباء کی دوسری لہر شباب پر تھی، ہر شہر اور محلے میں مریض تھے۔ نہ مسجدوں میں رونق تھی اور نہ ہی بازاروں میں، ہر شخص بس اپنی خیر منا رہا تھا۔ مصافحہ کرنا تو دور کی بات کوئی کسی سے زیادہ دیر مل کر بات بھی نہیں کرتا تھا۔ بس ہر طرف موت کی آہٹ تھی۔ کسی کا فون یا میسیج آنے پر ڈر محسوس ہوتا تھا کہ اللہ سب خیر کرے، کوئی بری خبر نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر روزہ دار کو سلامت رکھے، ا ور اس ماہ مبارک کی برکت کو برقرار رکھے (آمین)۔
نور فاطمہ رضوی (لکھنؤ، یوپی)
اُس رمضان کو مَیں کیسے بھلا پاؤں گی 


بات کچھ سال پہلے کی ہے کہ میں سحری پکا کر کھانے کے لئے میں نے اپنے شوہر کو آواز دی تو کچھ آواز نہیں آئی۔ قریب گئی تو دیکھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب روانہ ہوچکے ہیں۔ میرا دل اس غم کو برداشت نہیں کرسکا۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں مَیں اپنے شوہر ابرار کے نام پر خوب خرچ کرتی ہوں اور پروردگار کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ابرار کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ہمارے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہر بار جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔
شریفا بیگم عرف مرو (بلگرام، یوپی)
بچپن کے دن اور رمضان


بچپن کی یادیں اور رمضان بہت ہی سہانے دن تھے۔ میں اور میری بہن افطار کے وقت ہمارے گھر کے باہر مسجد میں لال بتی جلتی اس کا مطلب تھا روزے کا وقت ہو گیا ہے اور ہم سب بچے دوڑتے ہوئے کہتے ’’بتی جل گئی روزہ کھولو‘‘ اور میرے لئے خاص افطار میں رگڑے کا انتظام رہتا تھا۔ امی ہمارے لئے بہت ساری افطار بناتیں اور ہم بہت خوشی خوشی روزہ کھولتے۔ امی افطار کے پلیٹ بنا تیں اور میں اور میری بہن افطار پڑوسیوں کو دے کر آتیں۔ بہت ہی اچھے دن تھے۔ کاش وہ دن پھر زندگی میں آ سکتے!
صدف الیاس شیخ (تلوجہ)
ماں کی خدمت گزاری کبھی نہیں  بھول سکتی


ہمارے یہاں ایک بیوہ ملازمہ رہتی تھیں۔ ان کا ہمارے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ ان کے دانت نہیں تھے۔ میری والدہ ان کیلئے گرم گرم چپاتی بناتی تھیں اور میرے دادا جو نابینا تھا ان کو بھی سحری میں آسانی سے ہضم ہونے والی غذا دیتی تھیں۔ افطار میں بھی نرم غذا ان کو دیتی تھیں۔ سبھی روز داروں کا خیال رکھتی تھیں۔ یتیموں اور مسکینوں کو ان کے پسند کے کپڑے دلاتی تھیں تاکہ وہ لوگ بھی عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ رمضان آتے ہی ان کی خدمت گزاری یاد آتی ہے۔ اللہ ان کو صحت دے (آمین)۔
صبیحہ خان (ممبئی)
بھتیجے سے دوری


بڑی خوشی کیسا تھ وہ رمضان گزر رہا تھا۔ اللہ نے میرے بھتیجے کو رمضان میں میرے گھر کی رونق اور خوشیاں بنایا۔ افطار کے وقت اس کا گھر پر آنا۔ اذان کی آواز سن کر ہم سے افطار کھانے کا اشارہ کرنا۔ ۱۸؍ ویں روزے کی شام بڑی درد ناک تھی۔ بخار نے دو سالہ معصوم جسم کو جکڑ کر اسے اسپتال کی چار دیواری میں قید کر لیا۔ دو دن اس کیفیت سے لڑ رہا بالآخر وہ اس فانی دنیا سے کوچ کر گیا۔ وہ ۲۰؍ رمضان المبارک کا دن تھا۔ جس دن وہ ہم سب کو چھوڑ کر جنت کے باغ کا پھول بن گیا۔ یہ وہ رمضان تھا جیسے میں کبھی نہیں بھولتی۔ 
ملا رفعنا مجیب ( بھیونڈی)
۲۰۲۰ء کا رمضان


لاک ڈاؤن ۲۰۲۰ء میں جو رمضان آیا اس نے کسی حد تک سبھی کو دن میں تارے دکھا دیئے۔ حتی الامکان یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہی تھی۔ جو اللہ کے ہر بندے نے اپنی برداشت کے مطابق سر کی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہم اس عرصے میں اکٹھا نہیں ہوسکتے تھے۔ یہاں تک کہ اجتماعی تراویح کی بھی ممانعت تھی۔ مومن مسجد نہیں جا سکتا تھا۔ پھر بھی ہم نے عبادت اور اللہ کی حمد و ثنا کی کوشش کی اور اللہ کی راہ میں دعا گو رہے۔ آخر اللہ نے اپنے کرم سے ہمیں اس آزمائش سے آزاد کیا اور ہم نے پرامن ماحول میں سانس لی۔ آج ہم پھر سے رمضان کی رحمت نعمت و برکت سے مالامال ہو رہے ہیں۔ عبادت اور تراویح، قران کی تلاوت کی چاشنی روح میں روشنی بھر رہی ہے۔ 
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانے)
لاک ڈاؤن اور رمضان


۲۰۲۰ء میں گزارا ہوا رمضان ہم سبھی کے لئے ناقابل فراموش ہے۔ ساری دنیا میں کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافد کیا گیا تھا۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے ماہ رمضان کی عبادتیں اور اس کے معمولات بھی تبدیل کرہوگئے تھے اور اس کے سبب ہم چا ہ کر بھی کسی مذہبی سرگرمی کو اجتماعی طور پر انجام نہیں دے سکتے تھے لیکن ہر لمحہ ہر دن اللہ کے فضل ہی سے نمودار ہوتا ہے۔ اس کی حکمت بندو ں پر رحمت ہوتی ہے۔ مسجدو ں میں اگر تعداد کم کر دی گئی تو سبھی نے اپنے گھرو ں میں عبادت کی اور حالات نے بھی ایک دوسرے کی مدد کرنے جذبہ پیدا کر دیا۔ اس وقت انسان کو انسان کی قدر ہوگئی تھی۔ لاک ڈاؤن میں رمضان کی تشریف آواری نے ہمیں صبر اور سادگی پر آمادہ کیا۔
انصاری عالیہ ترنم محمد انیس (کرلا، ممبئی)
وہ رمضان مصیبتوں سے بھرا تھا مگر....


۲۰۲۰ء کا وہ رمضان جب ساری دنیاکورونا وبا سے گزر رہی تھی۔ اس وقت بہت ساری بندشیں عائد تھیں۔ اور ایسے میں ماہ صیام کی آمد نے مزید پریشانی میں ڈال دیا تھا۔ سحر و افطاری کیلئے لوگ پریشان ہو رہے تھے، کوئی کسی مشکل سے گزر رہا تھا تو کوئی دوسری مشکل سے، کسی کے گھر سے فاقہ کشی کی آواز آتی تھی تو کسی کے گھر سے کسی اپنے کے جدا ہونے کی چیخیں سنائی دیتیں۔ اس وقت انسان کو اپنی حیثیت معلوم ہوئی۔ ان حالات میں محبت، فراخ دلی، رواداری، اور در گزر کو فروغ دیا گیا۔ اور ان لوگوں کا خاص خیال رکھا گیا جو گھروں میں بند ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھے۔ لوگوں کیلئے راشن کا بند و بست کیا گیا۔ جب بھی اس رمضان کو یاد کرتی ہوں تو دل میں ٹھیس اٹھتی ہے۔
فردوس انجم ( بلڈانہ)
میرا پہلا روزہ اور دعوتِ افطار کا نظم


بچپن سے یہی دیکھا کہ گھر میں سب روزہ رکھتے اور افطاری کا بہت اہتمام ہوتا۔ مجھے یاد ہے میری امّی جان ڈرائی فروٹ، میوہ اور دودھ سے بنی ترّی بناتی تھیں جسے سب شوق سے پیتے تھے۔ بچپن میں میرے روزہ رکھنے پر میرے ابّا جان (جو خالق ِ کائنات سے جا ملے اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین!) نے دعوت افطار کا نظم کیا۔ ابّا جان نے افطاری کا اہتمام بڑی خوشنودی سے کیا۔ دعوتِ افطار میں آئے میرے دوستوں نے دلی مسرت اور لطف اندوزی کا مظاہرہ کیا۔ افطاری کی اذان سے پہلے ہم سبھی نے دعائیں مانگی اور اللہ رب العالمین کا شکر ادا کیا اور روزہ یہ وہ رمضان ہے جسے میں کبھی بھول نہیں سکتی۔
انصاری رفعنا حفیظ الرحمٰن (نائیگائوں، بھیونڈی)
خوف کے سایہ میں گزرا وہ رمضان


روزہ رکھ کر اکثر روزے دار افطار اور سحری کی تیاری کے ساتھ ساتھ عید کی خریداری کی بھی تیاری کرتے ہیں۔ مگر ایک ایسا روزہ ہم کبھی نہیں بھول سکتے جس میں ایسا ماحول بن گیا تھا جہاں بڑے سے لے کر بچّے تک ڈر اور خوف سے رمضان گزار رہے تھے۔ یہ لاک ڈاؤن کا رمضان جس میں فضا میں ایک عجیب سی کیفیت تھی۔ وہ خوف کا نظارہ۔ سارے لوگ گھروں میں قید نہ گھر میں رونق تھی اور نہ بازاروں میں نہ مسجد میں نمازی تھے نہ سڑکوں پر کسی کی آمد رفت۔ بس ایسا محسوس ہوتا تھا مانو دنیا ختم ہو جائے گی۔ ایسا لگتا تھا جیسے صرف میں تنہا ہوں۔ پڑوس سے بھی کوئی آواز نہیں آتی تھی۔ صرف اپنی آواز سنائی دیتی تھی۔ یہ زندگی کا سب سے خوفناک منظر تھا جسے میں کبھی بھی نہیں بھول سکتی۔ 
بی بشریٰ خاتون (جامعہ نگر، نئی دہلی)
ابّا کا ہم سے جدا ہونا
مجھے وہ رمضان کبھی نہیں بھولتا، جو ہمارے والد صاحب کے ساتھ آخری رمضان تھا۔ ۲۰۱۷ء کے رمضان المبارک کے مہینے میں ۲۶؍ ویں روزہ کو والد محترم اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ وہ آ خر ی رمضان تھا جب ہم نے افطار کے دستر خوان پر اپنے والد کی دعاؤ ں پر آمین کہا تھا۔
انصاری ارجينا اشرف علی (بھیونڈی، تھانے)
پہلا روزہ، روزہ کشائی اور تحفہ
رمضان میں ہر طرف عبادت کا ماحول ہوتا ہے اور میرے گھر پر بھی رمضان کے مہینے میں خاص عبادتوں یعنی نماز، قرآن تلاوت، روزہ اور تراویح کا اہتمام ہوتا ہے۔ جب میں چھوٹی تھی تو میں بھی امی جان کے ساتھ نماز اور تراویح کا اہتمام کرتی تھی اور اس وقت مجھے سب کے ساتھ روزہ رکھنے کا بھی بہت شوق ہوتا تھا لیکن گھر پر سب منع کرتے تھے کہ ابھی تم چھوٹی ہو بعد میں رکھنا۔ لیکن سب کو دیکھ کر میرا بھی روزہ رکھنا کا بہت دل چاہتا تھا۔ سب کے منع کرنے کے باوجود میں نے گھر میں کسی کو بتائے بغیر روزہ رکھ لیا۔ پھر جب امی جان نے صبح ناشتہ کا کہا تو میں نے انہیں بتایا کہ میرا روزہ ہے۔ مجھے لگا اب تو امی جان سے ڈانٹ پڑے گی لیکن امی جان نے تو کچھ نہیں کہا۔ وہ تو خوش ہوئیں اور میری روزہ کشائی کیلئے افطار بھی تقسیم کیں اور مجھ کو تحفے بھی ملے اس لئے وہ رمضان مجھے کبھی نہیں بھولتا۔
شازیہ رحمٰن (غازی آباد، یوپی)
والد صاحب کی دکان پر افطار
ماہ رمضاں رحمتوں برکتوں اور ڈھیروں نیکیاں کمانے کا مہینہ ہے، ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ عبادت کریں اور نیکیوں کا ذخیرہ اکٹھا کریں `اور رمضان کی معنویت پر پورا اتریں رمضان کے روزے اللہ کو بہت پسند ہیں۔ خاص کر گرمیوں کے روزے۔ ایسی ہی ایک یاد جب میں ہائی اسکول میں تھی مئی کی گرمی اور امتحان۔ میرے والد محترم کی کپڑے کی دکان تھی اتفاق یہ کہ وہیں قریب میں سینٹر بھی لگا تھا۔ شام چھ بجے ہم چھوٹتے تو دکان پر آتے جہاں میرے والد محترم افطار کا بہت ہی اعلیٰ انتظام کئے ہوتے تھے۔ میری دوست، ان کے گھر والے اور بھی بہت سے جاننے والے افطار میں شامل ہوتے پھر نماز کے بعد سبھی گھر کو لوٹتے۔ وہ بالٹی بھر بھر شربت، کھجوریں، سموسے اور ڈھیروں چیزیں، جن میں والد محترم کا خلوص محبت اور قربانی شامل تھی آج بھی نہیں بھولتا۔
ایس خان( اعظم گڑھ، یوپی)
پچھلے سال کا رمضان بہت یاد آتا ہے 
کیونکہ اُس رمضان میں بابا جان ساتھ تھے اور پچھلے رمضان کے ایک ایک پل سے میرے بابا کی یادیں جڑی ہیں۔ یہ رمضان ان کی بہت یاد دلاتا ہے۔ ان کا شفقت بھرا لہجہ اور بار بار سحری وافطار کا وقت بتانا بہت یاد آتا ہے۔ ہر رمضان بابا ساتھ ہوتے تھے اور اب کی بار ان کی نشست خالی ہے۔ افسوس کہ بابا ہم سب کو چھوڑ کر ہمیشہ رہنے والی دنیا میں چلے گئے۔ پچھلے رمضان میں بابا کے ساتھ گزرے ہوئے لمحے بہت یاد آتے ہیں۔ مجھے اپنے پیارے بابا جان کی ابدی جدائی مسلسل تڑپاتی ہے۔ بابا جان کی جدائی میرے گھر کو ویران کر گئی۔ اب صرف صبر کے سوا ہم کچھ نہیں کر سکتے، اور یہ صبر.... ہی بہت مشکل کام ہے۔ ہر رمضان ایک الگ ہی خوشی اور ایک الگ ہی لطف رہتا تھا کیونکہ بابا ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ اس رمضان کی سحری وافطار میں جب بابا کی جگہ خالی پاتی ہوں تو اچھے سے اچھا کھانا بھی لطف نہیں دیتا ہےہے۔ بابا کے بغیر سحری وافطاری سب ادھوری ہیں۔ مجھے بابا کے ساتھ گزارے ہوئے رمضان بہت یاد آتے ہیں۔
عفیفہ بنت اسرار احمد (بیریڈیھ، یوپی)
رمضان اور ہوسٹل کے سحور و افطار 
وہ بھی کیا دن تھے جب ہم ہوسٹل میں رہتے تھے۔ ہوسٹل سے جڑی ہر یاد تو صفحات ذہن و دل پر روز اول کی طرح منقش ہے مگر ہوسٹل کے رمضان کی بات کچھ الگ ہوتی تھی۔ رمضان کی رونقیں کچھ الگ ہی ہوتی تھیں۔ ہم جولیوں کا مل جل کر افطار کرنا، سحری کرنا، عبادت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اور ان سب سے پہلے رمضان کا چاند دیکھنے کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ ویسے تو افطاری کافی اچھی ملتی تھی لیکن گوشت کی پکوڑیوں کا الگ مزہ ہوتا تھا اور اس کے لئے کبھی کبھار چھین جھپٹ بھی کر لیتے تھے۔ رمضان کے اواخر میں کسی ایک دن افطار پارٹی کا خاص اہتمام.... آہ.... اسے کبھی بھولا نہیں جا سکتا۔
کاش! وہ لمحے پھر لوٹ آئیں اور ہم ساری ہمجولیاں ان خوشیوں کو دوبارہ جئیں۔ 
بنت رفیق (جوکھن پور، بریلی)
شدید گرمی اور افطار میں شربت کا گلاس
واقعی مجھے وہ بچپن کا رمضان نہیں بھلایا جاتا۔ وہ گرمیوں کے دن تھے۔ جب روزہ لگتا تو کبھی پاؤں بالٹی میں پانی بھر کے ڈال دیئے جاتے اور کبھی گیلا دوپٹہ کر کے اوڑھ لیا جاتا۔ ایک دن تو حد ہی ہو گئی افطار کے وقت سب دسترخوان لگا رہے تھے۔ میں نے بھی اپنا گلاس شربت سے بھر دیا اور جیسے ہی روزے کا وقت ہوا میں نے گلاس اٹھایا تو گلاس کی تلی ہی نکل گئی سارا شربت نیچے گر گیا۔
سب خوب ہنسے اور مجھے اپنا وہ جھینپ جانا ابھی تک یاد آتا ہے۔
طلعت شفیق (دہلی گیٹ، علیگڑھ)

اگلے ہفتے کا عنوان: رمضان المبارک کا خاص پکوان (مع مختصر ترکیب)۔

اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK