گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
EPAPER
Updated: July 01, 2024, 5:26 PM IST | Saaima Shaikh | Mumbai
گزشتہ ہفتے مذکورہ بالا عنوان دیتے ہوئے ہم نے ’’اوڑھنی‘‘ کی قارئین سے گزارش کی تھی کہ اِس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں۔ باعث مسرت ہے کہ ہمیں کئی خواتین کی تحریریں موصول ہوئیں۔ ان میں سے چند حاضر خدمت ہیں۔
مجھے اسکول جانا بہت اچھا لگتا تھا
مجھے بہت اچھی طرح تو یاد نہیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ مجھے اسکول جانا بہت اچھا لگتا تھا بلکہ اپنے ہم جماعت چند بچوں کو روتا دیکھ میں ورطہ حیرت میں پڑ جاتی کہ بھلا انہیں اسکول آنے میں کیا مسئلہ ہے۔ شروع شروع کے دنوں میں تو پڑھائی نہیں ہوتی تھی بلکہ ٹیچرس بڑے پیار سے ہمیں مختلف کھیل کھلاتی رہیں کھیل کھیل میں سب سے تعارف بھی ہوگیا۔ وقفہ کے دوران دوستوں کے ساتھ مل کر ٹفن ختم کیا۔ مجھے اپنی ٹیچر بڑی پیار لگیں، اتفاقاً ان کی قد و قامت میری امی سے مشابہ تھی تب تو مجھے ان کے ساتھ اور زیادہ مزہ آنے لگا۔ سہیلیوں کے ساتھ باتیں کرتے کھیلتے کودتے وہ یادگار دن اختتام پذیر ہوا۔
رضوی نگار اشفاق (اندھیری، ممبئی)
مارے خوشی کے نیند ہی نہیں آرہی تھی
اس وقت عموماً جولائی میں داخلے شروع ہوتے تھے۔ وہ بارش کا موسم اور نئی نئی کتابوں کی بے پناہ خوشی۔ رات میں والد صاحب دکان سے آتے ہوئے کتابیں اور کاپیاں لائے۔ مارے خوشی کے نیند ہی نہیں آرہی تھی، بس لگ رہا تھا کب صبح ہو اور اسکول جائیں۔ خیر سے صبح ہوئی ہم اسکول گئے۔ وہاں پر سب ٹیچروں نے کلاس لی۔ میتھ اور انگریزی کے ٹیچر بہت اچھا پڑھاتے تھے۔ وہ ہمیشہ میرے پسندیدہ رہے۔ پہلے ہی دن اگلی صف میں بیٹھنے کے لئے ایک لڑکی نے مجھے ہٹانا چاہا۔ میرے نہ ہٹنے پر اس نے میرا نام بگاڑ کر مجھے ہٹانے کی کوشش کی۔ میں نے سَر سے شکایت لگائی۔ سَر نے اس کو ڈانٹ کر اور دو تین چھڑی لگا کر پیچھے بیٹھنے کو کہا۔ اس پٹائی کا بدلہ لینے کے لئے وہ ہمیشہ سَر سے میری شکایت لگائی لیکن ناکام ہی رہی۔ اب تو جب کبھی ہم ملتے ہیں تو وہ باتیں یاد کرکے ہنستے ہیں۔
ایس خان (اعظم گڑھ، یوپی)
راستے میں والد صاحب نصیحت کرتے جا رہے تھے
بچپن کی کچھ یادیں تا عمر یاد رہ جاتی ہیں۔ جب میں چار سال کی تھی تب میرا داخلہ گھر کے پاس اسکول میں کروایا گیا۔ داخلہ کے فوراً بعد ہی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ اسکول یونیفارم، کتابیں، جوتے موزے، ٹفن باکس اور واٹر بوتل۔ ان سب کو دیکھ خوشی دگنی ہوگئی اور اگلے ہی دن صبح ۶؍ بجے ہی امی نے جگا دیا۔ میرا اسکول ۹؍ بجے سے شروع ہونا تھا مگر ہمارے یہاں روزانہ فجر کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے اور اس کے بعد ناشتہ۔ ان سب کے بعد میری باجی نے مجھے اسکول کیلئے تیار کرنا شروع کر دیا۔ یونیفارم پہنایا اور دو چوٹیاں بھی باندھیں۔ اس وقت ساری چیزوں سے اچھی خوشبو آرہی تھی اور مجھے عجیب سی خوشی ہو رہی تھی۔ اِدھر امی میرے لئے ٹفن میں انڈا پراٹھا تیار کر رہی تھی۔ پھر سبھی گھر والوں کو سلام کرکے اسکول کی طرف ابو کے ساتھ روانہ ہوئی۔ راستے میں والد صاحب نصیحت کرتے جا رہے تھے۔ اسکول داخل ہوتے ہی سبھی اساتذہ کو سلام کیا۔ پھر میری کلاس ٹیچر مجھے کلاس کے اندر لے گئی اور اُنہوں نے سب سے تعارف کروایا۔ پہلے ہی دن سب سے اچھی دوستی ہوگئی اور مَیں نے محنت سے پڑھائی کی اور امتحان میں اول آئی۔ آج بھی سارے اساتذہ مجھے یاد کرتے ہیں۔
بی بشریٰ خاتون (جامعہ نگر، نئی دہلی)
بارش کی وجہ سے بستر چھوڑنے کا جی نہیں کرتا
جون میں اسکول کھل جاتے ہیں۔ ساتھ ہی بارش بھی شروع ہوجاتی ہے۔ بارش کی وجہ سے بستر چھوڑنے کا جی نہیں کرتا۔ بڑے بھائی کے ساتھ اسکول کے لئے نکلتے اور چھتری اور بیگ سنبھالتے سنبھالتے پورے بھیگ گئے۔ اسکول کے پہلے دن امی نے گرما گرم پکوڑے بنا کر دی تھیں، جس کا ذائقہ بھی ہمیشہ یاد رہے گا۔ آج میں خود ٹیچر ہوں، پہلے دن بچے کو چھتری یا رین میں اسکول آتے دیکھتی ہوں تو میرے بچپن کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔
شاہدہ وارثیہ (وسئی، پال گھر)
نیا کمپاس بیگ میں ندارد تھا، ایکدم سے رونا آگیا
ساتویں جماعت تک وکھرولی پارک سائٹ میونسپل اسکول میں پڑھنے کے بعد ہائی اسکول کیلئے کرلا کے تبلیغ الاسلام اسکول میں ہم ۷؍ سے ۸؍ لڑکیوں کا داخلہ ہوا، اب تک گھر کے قریب اسکول تھا۔ اب بس سے جانا تھا۔ روزانہ ہم میں سے کسی ایک کے گھر سے کوئی سرپرست آتا اور ہم سب کو بس میں چڑھا دیتا۔ ڈیڈی نے پارکر پین اور دوات، جیومیٹری بکس لے کر دیا، بیگ اور یونیفارم تو نیا تھا ہی، ہری قمیص، سفید شلوار اور دوپٹہ، بڑے اشتیاق اور بظاہر خوداعتمادی کے ساتھ جا رہے تھے۔ اسکول پہنچے تو آٹھویں بی کلاس کے رجسٹر میں میں ہم سب کا نام درج تھا۔ بڑا برا لگا یہ جان کر کہ تمام میونسپل کارپوریشن کے بچوں کو ایک ہی کلاس میں رکھا گیا تھا لیکن اپنی پرانی سہیلیوں سے مل کر خوشی بھی ہوئی تھی۔ پہلا پیریڈ تو تعارف میں نکل گیا، پھر انگلش کے اسلم سر نے باری باری سب کو اے بی سی ڈی سنانے کو کہا۔ سَر کو لگا میونسپل اسکول کی بچیوں کو اے بی سی ڈی بھی کہاں آتی ہوگی۔ خیر، وقفہ کے دوران کلاس سے باہر نکلے، انجان ماحول، اتنے سارے بچوں کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ چھٹی ہوتے ہی بس اسٹاپ کی طرف دوڑ لگائی۔ بس کا کرایہ جو نئے کمپاس میں سنبھال کر رکھا تھا، نکالنے کیلئے کمپاس ڈھونڈا تو ہوش اڑ گئے۔ نیا کمپاس بیگ میں ندارد تھا، ایکدم سے رونا آگیا۔ کسی نے کہا چلو واپس اسکول جا کر دیکھتے ہیں۔ ہمارا قافلہ واپس لوٹا۔ گیٹ پر پہنچے تو واچ مین نےروک لیا کہ کہاں چلے؟ روتے روتے روداد سنائی، جواب ملا اب نہیں ملنے والا، لڑکوں کی اسکول شروع ہو گئی ہے، اندر نہیں جاسکتے تم لوگ۔ اپنی پارکر پین اور نئے جیومیٹری کمپاس بکس کو روتے اور گھر والوں کو کیا جواب دیں گے، انہی خیالوں میں گم ہم بس اسٹاپ کی طرف بڑھے۔
رضوانہ رشید انصاری (بلجیم)
اسکول کے گیٹ پر ڈری سہمی سی کھڑی تھی
آج ماضی کے جھروکے میں جھانکا تو اسکول کے پہلے دن کی کچھ دھندلی یادیں ذہن سے ٹکرائیں۔ کیا سہانے دن تھے وہ جب مَیں اسکول پہلی بار گئی تھی۔ اسکول جانے کی خوشی بھی تھی لیکن دل ڈرا سہما بھی تھا پتہ نہیں اسکول میں ٹیچر کیسے ہوں گے، ماریں گے تو نہیں؟ غالباً وہ میرے اسکول کے شروع کے دن تھے۔ جب مَیں اسکول کے گیٹ پر ڈری سہمی سی کھڑی تھی۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ تبھی ایک ٹیچر مسکراتی ہوئی آئیں اور مجھے بڑے پیار سے میرا ہاتھ پکڑ کر کلاس روم میں لے گئی۔ کلاس میں کیا کیا ہوا یہ تو یاد نہیں ہاں مگر اتنا یاد ہے کہ چھٹی کے وقت ٹیچر نے ہم بچوں میں ٹافی تقسیم کی۔ ٹافی ملنے کی مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ روزانہ مَیں نے دل ہی دل میں اسکول جانے کا عہد کرلیا۔
تسنیم کوثر نوید (ارریہ، بہار)
میں اسکول جانے کیلئے بہت ہی پُر جوش تھی
مجھے اسکول کا وہ دن آج بھی یاد ہے۔ میں اسکول جانے کیلئے بہت ہی خوش تھی اور نئی کتابیں، یونیفارم اور بیگ کے ملنے پر بہت پُرجوش تھی۔ اگلے دن صبح اٹھی اور امی نے تیار کر دیا پھر وقت پر پاپا کے ساتھ اسکول کیلئے روانہ ہوگئی۔ گھر سے اسکول کچھ ہی فاصلے پر تھا۔ تقریباً ۲۰؍ منٹ میں ہم اسکول پہنچ گئے۔ پاپا میرے ساتھ اسکول کے اندر گئے اور مجھے کلاس تک چھوڑ کر آئے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں سب کچھ بدل گیا جب میں نے پاپا کو واپس جاتے دیکھا۔ ان کو جاتے دیکھ کر دل اداس ہوگیا اور میں خوب رونے لگی۔ اور ان کے پیچھے جانے لگی۔ میڈم نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ کلاس میں لے گئی۔ انہوں نے پیار کیا اور سمجھا کر بٹھا دیا۔ لیکن یہ میرا معمول بن گیا۔ پاپا مجھے روزانہ اسکول چھوڑنے جاتے اور میں روزانہ انہیں جاتا دیکھ کر رونے لگتی۔ پھر کچھ دنوں بعد میں رکشا میں دوسرے بچوں کے ساتھ آنے لگی اور تب بالکل نہیں روتی۔ سب سمجھ گئے تھے کہ اسکول آنے کی وجہ سے نہیں بلکہ پاپا کو جاتا دیکھ کر ہی میں اداس ہو جاتی ہوں۔
جویریہ طارق (سنبھل، یوپی)
اسکول کے سنہرے دور کبھی بھولے ہی نہیں
وہ خوبصورت ماضی ہمیں آج بھی یاد ہے۔ جب میں اسکول میں پہلے دن داخل ہوئی تو مکتب پڑھ کر گئی تھی۔ ساتویں میں ایڈمیشن ہوا تھا۔ اسکول کے سنہرے دور کبھی بھولے ہی نہیں۔ ہماری سہیلیوں میں کچھ نٹ کھٹ فطرت کی تھیں جو ہر نئی آنے والی طالبہ کو پریشان کرتیں، پریشان ہوکر وہ رونے بھی لگتیں۔ ہم سادہ فطرت بچپن سے ہیں۔ انہیں شرارتوں سے باز رکھنے کی کوشش کرتے مگر مجال ہے مان جاتیں۔ ان کے خوبصورت جملے آج بھی کانوں میں باز گشت کرتے ہیں کہ ’’اجی کل تم رہنے دو۔ ہمیں اٹکھیلیاں کرنے دو یہی تو زندگی کا سب سے حسین پل ہے۔ ہمارے اسکول میں ایک درخت تھا جس کے پاس ہم فارغ وقت گزارتے۔ ہماری دوستی بےمثال تھی۔ اپنے اسکول سے ہمیں آج بھی محبت اور عقیدت ہے۔ ہمارے اسکول میں گزارے ہر پل خوبصورت تھے۔ اسکول ہی سے ہمیں عقل و شعور ملا ورنہ ہم تو بہت ہی بھولے تھے۔ اسکول کا پہلا دن ذہن پر آج بھی نقش ہے۔ ڈرتے ہوئے داخل ہوئے تھے مگر تعلیم نے ہمیں پُراعتماد بنایا، زمانے کے ساتھ چلنا سکھایا۔
ایمن سمیر (اعظم گڑھ، یوپی)
چوہے بلّی کی کہانی کا مجھ پر گہرا اثر پڑا
یادوں کی برات جب نکلتی ہے تو اس میں اسکول کی یادیں سب سے زیادہ حسین، دلکش اور انمٹ ہوتی ہیں۔ مجھے قدرتی طور پر پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ اسکول جانے سے پہلے ہی موٹی موٹی کتابوں کے اوراق پلٹتی رہتی تھی۔ جب اسکول میں داخلہ ہوگیا تو اپنی کتاب، اپنا قلم اور اپنی تختی مل گئی۔ کتاب کو اس قدر پڑھتی تھی کہ ایک سال میں ۲؍ کتاب لینا پڑتی تھی۔ اپنے ہم عمر ساتھی، اساتذہ کا محبت بھرا برتاؤ، دودھ اور بسکٹ کی کشش گھر سے زیادہ اسکول میں اچھا لگتا تھا۔ ہمارے ایک استاد نے جب پہلی بار چوہے بلّی کی کہانی سنائی اور کہا کہ اگر کوئی بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھ دے تو سارے چوہوں کی جان بچ جائے۔ بیچارے چوہے تو گھنٹی باندھ نہ سکے اور بلّی کا نوالہ بن گئے۔ اس دن جب مَیں گھر لوٹی تو خوب رو رہی تھی۔ گھر والوں نے وجہ پوچھی تو کہا مجھے گھنٹی چاہئے۔ مَیں بلّی کے گلے میں گھنٹی باندھوں گی تاکہ چوہوں کو بلّی کی آمد کا پتہ لگ جائے اور ان کی جان بچ جائے۔ گھر والے میری بات سن کر ہنسنے لگے اور کسی نے مجھے گھنٹی نہ دلائی۔ لیکن اس کہانی کا اتنا اثر ہوا کہ مَیں زندگی بھر طرح طرح کی بلیوں کیلئے گھنٹی ڈھونڈتی رہی تاکہ مظلوموں کو ان کے ظلم سے بچایا جاسکے۔ دیکھئے مجھے اپنے مقصد میں نمایاں کامیابی کب ملتی ہے!
رابعہ عبدالغفور (ممبئی)
اسکول کا پہلا دن بہن کو سمجھانے، چپ کروانے اور..
مجھے اسکول کے پہلی اور دوسری جماعت کے دنوں کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں ہے۔ شاید تب اتنی سمجھ نہیں تھی۔ لیکن جب مَیں تیسری جماعت میں گئی تو میرے اسکول کے پہلے دن کی بہت ہی میٹھی اور خوبصورت یاد ہے جو کہ میری سب سے چھوٹی بہن سے جڑی ہوئی ہے۔ میرا تیسری جماعت میں پہلا دن اور میری چھوٹی بہن کا پہلی جماعت میں پہلا دن تھا۔ مَیں تیسری جماعت میں تھوڑی سمجھدار ہوگئی تھی۔ ۲؍ سال سے اسکول آنے کی عادت ہوگئی تھی اس لئے رونا نہیں آتا تھا۔ لیکن میری چھوٹی بہن پہلی جماعت میں تھی اور وہ اپنی کلاس میں بیٹھنے کو تیار ہی نہیں تھی۔ اُس دن امی ہم دونوں کو اپنی اپنی کلاس میں چھوڑ کر چلی گئی۔ میری بہن گھر جانا چاہ رہی تھی۔ جب اس کی ٹیچر کسی کام سے کلاس کے باہر جائے تو وہ ایک ہاتھ میں سلیٹ اور ایک ہاتھ میں بستہ اٹھائے روتے روتے میری کلاس کے سامنے آکر کھڑی ہوجائے۔ اور مجھ سے کہے آپا مجھے امی کے پاس جانا ہے۔ میری ٹیچر کے کہنے پر مَیں اسے چپ کروا کر دوبارہ کلاس میں بٹھا کر آئی۔ وہ پھر یہی کرتی رہی۔ دن میں ۳؍ سے ۴؍ بار یہی سلسلہ چلتا رہا۔ مَیں بہت پریشان ہوگئی کیونکہ میرا اسکول کا پہلا دن بہن کو سمجھانے، چپ کروانے اور کلاس میں بٹھانے میں گزر گیا۔ آج ہم دونوں بہنیں اُس دن کو یاد کرکے بہت ہنستی ہیں۔ آج ہم ٹیچر بن گئے ہیں۔ آج جب اسکول کے پہلے دن بچے روتے ہیں تو اُن بچوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم بھی اس دور سے گزر چکے ہیں۔
سیّد شمشاد بی احمد علی (کرلا، ممبئی)
اسکول کا پہلا منظر: سبھی بچے رو رہے تھے
اسکول کا پہلا دن تھا اور بارش ہو رہی تھی۔ ذہن میں اسکول کے پہلے دن کی یادیں دھندلی ہے کیونکہ اُس وقت مَیں ۵؍ سال کی تھی۔ مَیں نے آسمانی رنگ کا یونیفارم پہنا تھا اور بال بے بی کٹ تھے اس لئے ہیئر بینڈ لگائی تھی۔ مجھے کم عمری ہی سے اسکول جانے کا شوق تھا۔ میرا اسکول گھر سے بے حد قریب تھا۔ اسکول کے پہلے دن کا منظر کچھ اس طرح تھا کہ سبھی بچے رو رہے تھے اور کچھ بچے گھر جانے کی ضد بھی کر رہے تھے۔ اُس دن استاد نے بچوں کو باری باری کھڑا کرکے اپنا نام بتانے کے لئے کہا تھا۔ انہوں نے ہر بچے سے یہ بھی پوچھا تھا کہ وہ مستقبل میں کیا بننا چاہتے ہیں۔ اسکول میں آکر کیسا لگ رہا ہے؟ یہ بھی معلوم کیا تھا۔ کلاس میں کھیلنے کے لئے کھلونے بھی موجود تھے۔ ہمیں مٹھائی بھی کھانے کیلئے دی گئی تھی۔ لنچ بریک میں ہم سب نے اپنا اپنا ٹفن نکال کر کھانے پینے کی چیزیں کھائی تھیں۔ اس کے بعد ہم سبھی اپنے اپنے گھر لوٹ گئے تھے۔
آفرین عبدالمنان شیخ (شولا پور، مہاراشٹر)
نئی کتابیں ملنے کی خوشی
گرمی کی چھٹیوں کے بعد جب اسکول شروع ہوتا ہے تو ہمیں اسکول جاتے وقت بے حد خوشی ہوتی تھی۔ نئی کتابیں ملنے کی خوشی ہوتی تھی۔ نئی جماعت کی نئی کتابیں ملتے ہی ہم انہیں گھر لے آتے، ہماری امی اور بھائی جان مل کر ان کتابوں پر خوبصورتی سے کور پیپر چڑھاتے تھے۔ نئے بیگ، نئے یونیفارم، نئے جوتے، نئی کتابیں یہ سب کچھ ہمارے اسکول کے پہلے دن ہی سے ہم سے جڑ جاتے ہیں۔ ہم اسکول کے ان طلبہ میں سے تھے جو اسکول کے پہلے ہی دن حاضر رہتے ہیں۔ ہر سال ۱۵؍ اگست اور ۲۶؍ جنوری پر ہمیں اسکول کے صدر مدرس کے ہاتھوں انعامات سے نوازا جاتا تھا۔ یہ بے حد خوشگوار لمحے تھے۔ اسکول کے پہلے دن نئی کتابوں کے ساتھ نیا جوش نئی خوشی ملتی تھی کہ اب روزانہ اسکول جانا ہے۔ نئی کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنا، صفحے پلٹتے ہوتے تصویروں کا جائزہ لینا ہمیں بے حد پسند تھا۔ آج بھی اسکول کے پہلے دن کی یاد آجائے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور چہرے پر ایک مسکراہٹ آجاتی ہے۔
گل افشاں شیخ (عثمان آباد، مہاراشٹر)
بآسانی اسکول میں داخل ہوگئی....
اسکول کے پہلے دن اکثر لوگ اپنے والدین کے ساتھ اسکول جاتے ہیں۔ مگر میں اپنے پھوپھا کے ساتھ پہلی مرتبہ اسکول گئی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور انہوں نے مجھ سے اولاد جیسی ہی محبت کی تھی۔ پہلے دن پھوپھا نے ٹفن کے لئے مختلف چیزیں دلوائیں۔ میں اتنی ساری چیزیں لے کر بہت خوش تھی۔ بآسانی اسکول میں داخل ہوگئی۔ آنسو کا ایک قطرہ بھی آنکھ سے نہ نکلا مگر جماعت کے کچھ بچوں کو بے تحاشہ دہاڑے مار مار کر روتے ہوئے دیکھ کچھ مایوسی ہوگئی تھی۔ استانی جی بچوں کو سنبھالنے اور بہلانے کی مکمل کوشش کر رہیں تھیں۔ جب اسکول کی چھٹی ہوئی تو پھوپھا گیٹ پر پہلے ہی سے موجود تھے۔ میں خوشی سے دوڑتی ہوئی گئی اور ان سے لپٹ گئی۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے گود میں اٹھایا اور اپنے کندھے پر بٹھا کر اسکول میں کیا کیا ہوا؟ اور کیا کِیا؟ جیسے مختلف سوالات پوچھنے لگے۔ اور میں خوشی خوشی ان کا جواب دیا تھا۔
مومن رضوانہ محمد شاہد (ممبرا، تھانہ)
درمیان میں گھر کی یاد بھی ستاتی تھی
بچپن ہماری زندگی کا سب سے زیادہ سنہرا دور ہوتا ہے۔ اس کی حسین یادیں تاعمر ہمارے دل ودماغ میں گھر کئے رہتی ہیں۔ ان یادوں میں ایک حصہ اسکول کے پہلے دن کے نام ہے۔ ہمارا گھر اسکول کے بہت قریب تھا۔ اسکول جانے کا شوق بہت پہلے سے خوشی و تجسس کے ملے جلے جذبات کے ساتھ تھا۔ خیر اسکول میں داخلہ ۶؍ سال کی عمر میں کیا گیا۔ اپنے دل میں نئے ارمان سجائے ننھے ننھے قدموں سے اپنے بابا کی انگلی پکڑ کر نکل پڑے نئے سفر پر۔ اسکول پہنچ کر سب سے پہلے اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے ملے۔ انہوں نے مجھ سے کچھ بنیادی سوالات پوچھے اور پھر جماعت اول کی طرف روانہ کیا گیا۔ جماعت میں پہلے سے کچھ بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹیچر نے تمام بچوں سے متعارف کروایا۔ اس کے بعد ہمیں نظمیں پڑھائی گئیں۔ درمیان میں گھر کی یاد بھی ستاتی تھی مگر اپنے ہم جماعت سے کھیل کود میں وقت کا پتہ نہیں چلا۔ اپنے اساتذہ کے ساتھ تصویر بھی کھینچوائی۔ اسی درمیان گھنٹی کی آواز سنائی دی اور ہم سب نے اپنا بستہ لے کر گھر کی طرف ایسے دوڑ لگائی مانو کسی نے پنجرے سے آزاد کیا ہو۔ اس طرح اپنا اسکول کا پہلا دن گزارہ۔
تسنیم کوثر انصار پٹھان (کلیان، تھانے)
آہ.... اسکول کی وہ یادیں
اسکول کا زمانہ کس کو یاد نہیں آتا۔ وہ کلاسیز، کلاس فیلوز، ٹیچرز اور کلاس ٹیچرز اور بہت سی یادیں، اپنے استادوں سے مار کھانا، دوستوں کے ساتھ شرارتیں کرنا اور کبھی کبھی لڑائی کرکے مارنا پیٹنا۔ ہمارے اسکول کا نام جامعۃ المحصنات تھا۔ سب سے زیادہ یادیں اسی اسکول سے وابستہ ہیں۔ جس دن ہمارا ایڈمیشن ہوا تھا جامعہ میں تو وہ دن میرے لئے بڑا دلچسپ تھا۔ بالکل نیا تجربہ تھا۔ کلاس روم میں جانے سے ہچکچاتی تھی۔ پہلے دن مَیں پرجوش ہو کر اٹھی تھی اور پہلی بار اپنا یونیفارم پہن کر جو محسوس ہوا تھا، وہ یادگار بن گیا۔ میں اسے کبھی نہیں بھول سکتی۔ ہمارے اسکول کے تمام اساتذہ بڑی دلچسپی اور محنت سے طلبہ کو تعلیم دیتے تھے۔ آج جب ہم اپنی سہیلیوں اور استادوں کو یاد کرتے ہیں تو دل بے ساختہ رو پڑتا ہے۔
ہاجرہ نورمحمد (چکیا، حسین آباد، اعظم گڑھ، یوپی)
میرا یادگار دن
اسکول میں آپ کا پہلا دن نہ معلوم تجربات اور مواقع کا دروازہ کھولتا ہے۔ کسی دوسرے بچے کی طرح مَیں نے بھی اسکول جانے کی تیاری پُرجوش انداز میں کی تھی۔ نیا نیا اسکول یونیفارم پہن کر بے حد خوشی ہوئی تھی۔ لنچ باکس میں امی کے ہاتھوں کا میٹھا پراٹھا لے کر گئی تھی جو مجھے بے حد پسند تھا۔ اُس دن ابّا بس اسٹینڈ تک مجھے چھوڑنے آئے تھے۔ کلاس میں پہنچنے کے بعد وہاں کا ماحول اجنبی سا لگا تھا پھر دھیرے دھیرے نئے نئے دوست بن گئے تھے۔
کلثوم سراج اشرف (یوپی)
کچھ دھندلی سی یادیں باقی ہیں
ہلکا نیلا فراک، سفید پائجامہ، پالش کئے کالے جوتے اور سلیقے سے ربن سے بندھے بال، کاندھے پر اسکول بیگ میں رکھی کتابیں اور سلیٹ، پنسل اور چاک.... کچھ دھندلی سی یادیں باقی ہیں۔ گھر سے کچھ ہی فاصلے پر سرکاری پرائمری اسکول تھا۔ مرحوم والدین اول جماعت میں داخلہ کرانے کیلئے ساتھ لے کر آئے تھے۔ رجسٹر میں ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے کچھ ضروری اندراج کرنے کے بعد کلاس ٹیچر صاحبہ کو بلا کر ان کے سپرد کر دیا۔ کلاس ٹیچر نہایت سادہ مزاج اور خوش اخلاق خاتون تھیں۔ کلاس میں چٹائیوں پر ہم عمر لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ کچھ سرگوشیوں میں مصروف تھیں اور کچھ چڑیوں کی طرح چہک رہی تھیں۔ کلاس ٹیچر نے سبھی طالبات کو خاموش کرتے ہوئے اپنی جانب متوجہ کیا اور میرا مختصر تعارف کرایا۔ اس روز پڑھنے لکھنے سے متعلق زیادہ کوئی کام نہیں ہوا کیونکہ اسکول میں داخلوں کا عمل جاری تھا۔ اسکول کے میدان میں بچوں کے ساتھ خوب کھیلنا اور اچھل کود جاری رہی۔ بہت مزے کئے کیونکہ بہت سی لڑکیاں پڑوس کی ہی تھیں۔ اس روز بارش کی پھوار گر رہی تھی۔ گرمیوں کی تعطیل کے بعد اسکول کھلا تھا۔ اسکول کے پہلے دن کی دھندلی یادیں آج بھی خوشگوار یادوں کا احساس کراتی ہیں۔
سلطانہ صدیقی (جامعہ نگر، نئی دہلی)
اس دن پڑھائی نہیں ہوئی تھی
میرا داخلہ نرسری میں ہوا تھا۔ اس دن نیا ڈریس پہن کر امی کی انگلی تھام کر اسکول گئی تھی۔ اسکول میں داخل ہوتے ہی ایک بڑا سا ہال تھا۔ وہاں چٹائی بچھی ہوئی تھی اور بہت سارے بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے ٹیچر نے ایک جگہ بٹھا دیا۔ اس دن پڑھائی نہیں ہوئی تھی۔ ہم سبھی کھیل کود رہے تھے اور لنچ باکس میں سے چیزیں نکال کر کھا رہے تھے۔ اسکول ختم ہونے پر باہر آئی تو امی میرا انتظار کر رہی تھی جو بے حد جذباتی لمحہ تھا۔
مومن روزمین (کوٹر گیٹ، بھیونڈی)
کہ میرا دایاں ہاتھ بائیں کان تک پہنچ گیا تھا
اسکول کے پہلے دن کی یادوں پر وقت کی تھوڑی دھند تو پڑ گئی ہے کیونکہ اس وقت میں صرف ساڑھے ۵؍ سال کی تھی۔ میراداخلہ پہلی جماعت میں اس بنیاد پر ہوگیا کہ میرا دایاں ہاتھ بائیں کان تک پہنچ گیا تھا۔ اس وقت داخلہ کیلئے بچے کی عمر کا اندازہ اسی پیمانے سے لگایا جاتا تھا۔ امی کہتی ہیں مجھے کم عمر ہی سے اسکول جانے کا شوق تھا۔ اسکول گھر سے قریب تھا اس لئے امی ابو کوئی اسکول چھوڑنے نہیں آیا تھا۔ دادی جی نے صحن کے دروازے تک چھوڑ دیا۔ میں انہیں خدا حافظ کہتی ہوئی اسکول چلی گئی۔ اسکول پہنچنے کے بعد تمام اساتذہ نے بچوں کو اسکول کے میدان میں اکٹھا کیا۔ دعا اور قومی ترانہ کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب نے کچھ کہا، بعد میں کلاس ٹیچر ہمیں کلاس میں لے گئی۔ پوری کلاس میں چٹائی بچھی ہوئی تھی۔ ہم اپنی اپنی جگہ دیکھ کر بیٹھ گئے۔ مشترکہ تعلیمی نظام ہونے کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیوں کو الگ الگ بٹھایا گیا۔ کچھ بچے بہت رو رہے تھے تو کچھ شرارت کر رہے تھے۔ میری ربن سے دو چوٹیاں بندھی ہوئی تھی۔ اس لئے کچھ لڑکے مجھے دو چوٹی والی چڑھانے لگے۔ یہ بات مجھے بہت ناگوار گزری۔ اسکول کا پہلا دن تھا اس لئے بچوں کو جلدی چھوڑ دیا گیا۔ اور میں خوشی خوشی گھرآ گئی۔ لکھتے ہوئے دھند بھی چھٹنے لگی اور ساری یادیں ذہن میں تازہ ہوگئی۔
فردوس انجم ( بلڈانہ مہاراشٹر)
اتنی کشادہ اسکول تھی میری مجھے تو بڑا مزہ آیا
بچپن اور اسکول کا بڑا ہی گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کہیں ڈر سمایا ہوتا ہے کہیں خوشی اور مجھے تو بچپن سے ہی اسکول اور پڑھائی کا بہت شوق رہا ہے۔ یہاں تک کہ مدرسے کے پہلے دن صبح کو وقت پر پہنچنے کے لئے میں جلد ہی اٹھ کر تیار ہوگئی۔ پھر امی نے میری چوٹی بنائی اور میں ناشتہ کا ڈبہ لے اسکول چلی گئی۔ اس وقت تو ہمیں وقفے میں دودھ بھی کانچ کی بوتل میں ملا کرتا تھا۔ اتنی کشادہ اسکول تھی میری مجھے تو بڑا مزہ آیا۔ اسکول کی دیواروں پر خوبصورت تصاویر بنی ہوئی تھی اور خوشخط تحریر میں کئی الفاظ، پہاڑ ے، چھوٹے جملے، لکھے ہوئے تھے۔ پھر ہمارے ماسٹر جی فیضی سر آٗے انہوں نے بہت ہی مشفقانہ انداز میں ہمیں پڑھایا اور سلیٹ پر لکھوایا۔ شاہین مس نے زور زور سے گنتی پڑھائی۔ اس کے بعد ہمیں گھر کام دیا گیا۔ اس طرح میرا پہلا اسکول کا دن بہت ہی خوبصورتی سے تمام ہوا۔ پھر میں خوشی خوشی اپنے گھر آگئی۔
نسیم رضوان شیخ (کرلا، ممبئی)
پہلے دن خوب رونے کے بعد اسکول پہنچے تو....
یادوں کے حسین دریچے میں اسکول کے خوبصورت، کبھی نہ بھولنے والے مناظر کے تر و تازہ پھول آج بھی اپنی جاذبیت کیساتھ معطر ہیں۔ پہلے دن خوب رونے کے بعد اسکول پہنچے تو فوراً واپس آگئے۔ پھر امی جان نے ایسی طبیعت صاف کی کہ اسی اسکول سے فارغ ہو کر نکلے۔ والدین کی محنت، محترم اساتذۂ کرام کی شفیق ڈانٹ، چھڑی کی مار سے آج اس قابل ہیں کی انقلاب جیسے بڑے اخبار کے عنوان کی تحریر کا حصہ ہیں۔ چونکہ اسکول کا سفر بس سے طے کرتے تھے تو روز اول ہی سے سواری پر چڑھنے اور منزل پر پہنچنے کی دعا آج بھی یاد ہے۔ دوستوں کے ساتھ شرارت، لڑائی، ہنسی مذاق کے لمحے شاید جو اب کبھی نہ میسر ہوں۔ اسکول اور بچپن کے خوشنما لمحات ہر انسان کیلئے قیمتی متاع ہیں۔
ساریہ ابوالقیس (جونپور، یوپی)
جلد ہی اسکول سے انسيت ہوگئی
سچ کہوں تو اسکول کا پہلا دن مجھے یاد ہی نہیں ہے۔ ہاں اسکول کی کچھ یادیں ضرور ہیں۔ دراصل جس اسکول میں میرا داخلہ ہوا تھا اسی اسکول میں میری والدہ معلمہ تھیں، بہت ممکن ہے کہ اس لئے مجھے اسکول میں باقی طالبات کی طرح روئی نہیں کیونکہ میری والدہ کے پاس ہونے کا احساس تھا۔ جلد ہی اسکول سے انسيت ہوگئی۔ ہماری کے جی جماعت کی معلمہ ناظمہ مس بہت ہی شفیق رہیں۔ اسکول کے شروعات میں ہی سہیلیاں بھی بن گئیں۔
ارجینا اشرف علی انصاری (بھیونڈی، تھانے)
مَیں نے رو رو کر سارا اسکول سر پر اٹھا لیا
مَیں اپنے ماں باپ کی سب سے پہلی اولاد ہوں اس لئےمجھے لاڈ پیار بہت زیادہ ملتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے مجھے اسکول میں کافی دیر سے ڈالا گیا تھا۔ مجھے اچھے سے یاد ہے کہ جس دن مجھے پہلی مرتبہ اسکول جانا تھا اس کے ایک دن پہلے ہی سے میں نے اپنی ساری تیاری شروع کر دی تھی۔ مجھے خوشی کی وجہ سے ساری رات نیند ہی نہیں آئی۔ اگلے دن میں بڑی خوشی خوشی اسکول گئی مگر جب میری امی مجھے وہاں چھوڑ کر جانے لگیں تو مجھے بہت رونا آیا۔ میں نے رو رو کر سارا اسکول سر پر اٹھا لیا، تب وہاں ایک ٹیچر تھیں جن کا نام شبنم تھا انہوں نے مجھے بہت محبت سے سمجھایا اور سارے اسکول میں گھمایا۔ بہت ساری نئی نئی چیزیں دکھائیں۔ مجھے خوب مزہ آیا اور میں اگلے دن سے خوشی خوشی اسکول جانے لگی۔
فائقہ خان (ممبرا، تھانے)
....کہ اگلے دن اسکول بالکل نہیں آؤں گی
اپنی اسکول کا پہلا دن میں کبھی نہیں بھول سکتی ہوں۔ میں اسکول جاتے ہوئے بہت خوفزدہ تھی۔ نہ کوئی دوست، نہ کوئی جان پہچان والے بچے۔ ابو مجھے اسکول چھوڑ کر واپس لوٹ گئے۔ اسکول میں نئے نئے چہرے دیکھ کر رونے لگی۔ اسکول جاکر بچوں سے میل جول بڑھانے یا پڑھنے کے بجائے میں نے اپنا زیادہ تر وقت رونے میں گزارا۔ میری ایک بے حد مشفق استانی نے مجھے بہلانے اور سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن میں کسی طور سمجھنے کو تیار نہیں تھی۔ میں نے اس دن ارادہ باندھ لیا تھا کہ اگلے دن اسکول بالکل نہیں آؤں گی۔ اور میں نے وہی کیا۔ میرے رونے دھونے پر گھر والے بھی بے بس ہوگئے۔ کچھ دن یہی سب چلتا رہا لیکن بعد میں حالات معمول پر آگئے۔ میرے ایک کزن کا میری ہی جماعت میں ایڈمیشن ہوگیا۔ ہم دونوں ساتھ آنے جانے لگے۔ دیگر بچوں سے بھی دوستی ہوگئی۔ آج بھی جب اپنی اسکول میں اسکول کے پہلے دن کسی ننھے بچے کو روتے دیکھتی ہوں تو مجھے اپنا بچپن یاد آجاتا ہے۔
نکہت انجم ناظم الدین (مانا، مہاراشٹر)
اسکول اور میرے ٹیچر
بات اس زمانے کی ہے جب میری عمر لگ بھگ ۸؍ برس کی رہی ہوگی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے ۸؍ سال کے ہونے کے بعد سب سے پہلے جس نے میرے اسکول جانے کی بات کہی وہ میرے دادا بابو بھیں تھے جو بہت ماہر تھے اور مجھے خود اپنے ساتھ لے گئے اور میرا داخلہ اس وقت کے سب سے اچھے اسکول میں کرایا جو آج تک باقی ہے۔ دنیا اس کو اوپر کوٹ کالج کے نام سے جانتی ہے۔ سب سے پہلے جس نے مجھے سماجی علوم کی تحصیل دی وہ میرے ٹیچر مولوی حسن خان صاحب تھے۔ آج بھی وہ مجھے یاد آتے ہیں۔ وہ اکثر کلاس میں مجھ سے کہا کرتے تھے: ’’بیٹی اور بچوں کو بھی سبق سمجھا دینا۔ ‘‘ اج میں جو بھی ہوں انہیں کی کاوشوں کی بدولت ہوں۔
شریفہ بیگم عرف مرو (بلگرام، یوپی)
اسکول کا ڈر
ایک لمبا عرصہ گزر گیا اسکول سے نکلے ہوئے۔ اسکول کی یادیں بھی دھندلا سی گئی ہیں۔ اسکول کے پہلے دن کی بس مختصر سی یادیں ہی ذہن میں ہیں .... وہ پہلا دن، جب میرے چچا مجھے گودی میں لے کر اسکول کے لئے نکلے، میں دہاڑے مار مار کر رو رہی تھی اور ان کی گود سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ راستے میں گائے کھڑی تھی تو میرے چچا مجھے ڈرانے کے لئے اس پر بٹھانے لگے اور کہنے لگے اگر رونا بند نہیں کیا تو اس پر بٹھا دیں گے۔ ان کی اس بات سے میں ڈر کر چپ ہوگئی اور سہمی سہمی سی اسکول پہنچی۔ چچا مجھے وہاں چھوڑ کر چلے گئے۔ میں گھبرائی گھبرائی سی باقی بچوں کو دیکھتی رہی۔ وہ سبھی چپ تھے تو ان کو دیکھ کر مجھے تھوڑی سی تسلی ہوئی۔ ٹیچر نے پیار دلار کیا۔ اسکول میں بہت سارے کھلونے دیکھ کر میں ان سے کھیلنے لگی اور میرا ڈر کم ہوا۔
ہما انصاری (مولوی گنج، لکھنؤ)
یونیفارم ملا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی
میری ابتدائی تعلیم (قرآن، اردو، انگریزی، ریاضی اور دینیات) میری امی جان کے ذریعے گھر پر ہوئی۔ جب میں ۸؍ سال کی ہوئی تو میرا داخلہ جامعةالصالحات (یوپی) میں ہوگیا۔ میں نے عالمه اول کیلئے داخلہ ٹیسٹ دیا تھا لیکن میں نے گھر پر ہی قرآن، اردو، انگریزی، ریاضی، دینیات اور عام معلومات میں اچھی خاصی مہارت حاصل کرلی تھی اس لئے ٹیسٹ رپورٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا داخلہ عالمه دوم میں ہوا۔ میں اپنی جماعت میں شاید سب سے کم عمر تھی۔ جب میرا داخلہ ہوگیا اور پہلی بار مجھے اسکول یونیفارم ملا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ جب میں نے یونیفارم زیب تن کیا تو عجیب سی کیفیت اور سرور سے سرشار تھی۔ میرا ادارہ بورڈنگ اسکول تھا۔ میں صبح کلاس روم میں داخل ہوئی تو مارے خوف کے کلیجہ دھک دھک کررہا تھا۔ میرے ساتھ میری ہم جماعت لڑکیاں وطن عزیز کے مختلف گوشوں سے آئی ہوئی تھیں۔ چند ہم سے سینئر تھیں جو عالمه اول پاس کرکے آئی تھیں۔ ان کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا۔ انہیں دیکھ کر میں تو بہت ڈری ڈری خوف زدہ پیچھے کے بینچ پر سہمی سہمی سی تھی۔ یونیفارم کی بیوٹی اور اس کو پہن کر کلاس روم جاتے وقت کی ساری خوشیاں سینئر کے انداز تخاطب سے کب کی کافور ہوچکی تھیں لیکن دھیرے دھیرے میں جامعةالصالحات کے ماحول میں کچھ ایسی رچ بس گئی اور پھر اللہ کی طرف سے عنایت کی ہوئی تھوڑی بہت صلاحیت کے ذریعے سب کی عزیز اور چہیتی بن گئی۔ بعد ازآں میں نے مجلس منتظمه کے ذریعے دی گئیں بہت ساری ذمه داریوں کو پوری کرنے کی ہر ممکن کوششیں بھی کیں اور الحمدللہ سب کی منظور نظر بنی رہی۔
ناز یاسمین سمن (پٹنه، بہار)
اگلے ہفتے کا عنوان: میری زندگی کے پانچ اصول
اظہار خیال کی خواہشمند خواتین اس موضوع پر دو پیراگراف پر مشتمل اپنی تحریر مع تصویر ارسال کریں۔ وہاٹس ایپ نمبر: 8850489134
’’اسکول کے پہلے دن کی میری یادیں‘‘ اس موضوع پر ہمیں کئی تحریریں موصول ہوئی ہیں۔ جن خواتین کی تحریریں شائع نہیں ہوئی ہیں وہ پیر (یکم جولائی ۲۰۲۴ء) کا شمارہ ملاحظہ فرمائیں۔