• Mon, 10 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

معاشرتی اقدار بیش قیمت اثاثہ ہوتی ہیں

Updated: November 10, 2025, 5:10 PM IST | Tehreem Kazi | Mumbai

کسی بھی معاشرے کی بات کی جائے تو اس میں سب سے اہم کردار اقدار کا ہوتا ہے۔ یہ معاشرتی اقدار ہی ہوتی ہیں جو کسی معاشرے کو دوسرے معاشرے سے منفرد بناتی ہیں۔ افراد میں جو انسانی و اخلاقی اقدار پیدا ہوتی ہیں تو ان کی داغ بیل معاشرتی اقدار ہی ڈالتی ہیں۔رویے اور سوچ اپنی اقدار سے جنم لیتے ہیں۔

Family.Picture:INN
خاندان۔تصویر:آئی این این

 دنیا کے ترقی یافتہ معاشرے اپنی اقدار کی بدولت پروان چڑھے ہیں ۔ کہتے ہیں کسی معاشرے کو مفلوج کرناہو تو اس کی اقدار چھین لو۔ یعنی اقدار کی حیثیت کسی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی سی ہوتی ہے۔اور اس کو پہنچنے والی کوئی بھی چوٹ اسے مفلوج کر سکتی ہے۔جسمانی معذوری تو کسی انسان کو ترقی سے نہیں روک سکتی مگر ذہنی و اخلاقی گراوٹ کا شکار معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ گزشتہ دہائیوں میں ہمارے معاشرے نے جہاں بہت سے میدانوں میں ترقی کی ہے وہیں معاشرتی اقدار و روایات  سے انحراف بھی بڑھا ہے۔  احساس، رواداری اورا خلاق و کردار بلند نہ ہو تو نسل انسانی اور حیوانات میں فرق نہیں رہتا۔ انسان کو اشرف المخلوقات اسی لئے کہا گیا ہے کہ وہ شعور رکھتا ہے، خاندان بناتا ہے  اور معاشرے کی تجدید ِ نو میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ آج ہم اپنی بدلتی ہوئی اقدار پر نظر ثانی کرتے ہوئے انھیں بہتر بنانے کی چند تجاویز پر غور کریں گے۔ خاندان کی حیثیت ایک فیول اسٹیشن کی سی ہے۔ جہاں سے ہم زندگی میںآگے بڑھنے کی طاقت کو حاصل کرتے ہیں۔انسانی معاشرے کی اساس خاندان ہی ہے۔ جب ہم خاندان کی تشکیل کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد میاں بیوی اور بچے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہیں اور توازن کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے اور  میاں بیوی  ایک دوسرے سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔  یاد رہے کہ یہ رشتہ وقت اور محبت کا متقاضی  ہوتا ہے لیکن   اکثر زوجین موبائل اور سوشل میڈیا  میں مصروف رہ کر ایک دوسرے کی حق تلفی کرتے ہیں۔ شادی ایک اہم مرحلہ ہے۔لیکن افسوس کہ شادی کو لے کر ہمارے معاشرے کی اقدار بری طرح متاثر ہو چکی ہیں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ شادی کو ایک اہم فریضہ سمجھ کر نہیں بلکہ دکھاوا سمجھ کر کیا جاتاہے۔ نکاح میں سادگی کو ملحوظ رکھا جائے اور فضول رسومات سے بچا جائے ، یہی ہماری دینی تعلیم بھی ہے۔
 والدین اور اولاد کا رشتہ اس دنیا میں بیش قیمت رشتہ ہے جو بے لوث اور بے غرض ہوتا ہے۔ اولاد کی تربیت اور شفقت و محبت سب والدین کی ذمہ داری ہے ۔ جہاں والدین ان ذمہ داریوںمیں غفلت برتتے ہیں وہاںمعاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے۔ گھر کا ماحول اس ضمن میں اہم ہے،تربیت جتنی لڑکیوں کے لئے اہم ہے لڑکوں کی تربیت بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی تربیت اور کردار کو لے کر حد سے زیادہ حساسیت کا شکار رہتے ہیں جبکہ لڑکوں کو اس معاملے میں چھوٹ دے کرمعاشرے میںبگاڑ پیدا کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
آج کل بچے ٹیکنالوجی میں جیتے ہیں لیکن  انھیں ہر وقت ٹیکنالوجی کی آغوش میں دینے سے بہتر ہے کہ شروع سے ان کا رشتہ قلم اور کتاب سے جوڑا جائے۔ کتب بینی کی عادت سے بچوں میں چیزوںکو سمجھنے اور پرکھنے کا شعور پروان چڑھتا ہے۔
کوئی بھی انسان تنہا معاشرہ نہیں بنا سکتا۔ رشتے وہ خوبصورت ڈور ہیں جو زندگی میں خوشیوں کی پتنگ کو اونچا اڑنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ ہماری اقدار ہمیں اپنے رشتوںسے محبت اور اخلاص سے پیش آنے کی تلقین کرتی ہیں۔ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں رشتوں میں منفی رویوں کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ قریبی رشتوں پر لطیفے بنا کر ان کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے۔بلکہ آج کل تو بچوںکو یہ تک نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے انتہائی قریبی رشتے کون سے ہیں۔ انفرادیت بری چیز نہیں مگر انفرادیت کے پیچھے لگ کر اجتماعیت کے فوائد کو کھو دینے والے بے نام و نشان رہ جاتے ہیں۔ رشتہ داری نبھانا ضروری ہے کسی کے سکھ دکھ میں اس کے ساتھ کھڑا ہونا بھی قابل ستائش عمل ہے لیکن جو بات یہاں سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہر خاندان کی اپنی ایک نجی زندگی  ہوتی ہے ۔کسی کے معاملات میں بلاوجہ دخل دینا یا ان کے نجی معاملات پر تبصرے کرنا قطعاً ہماری اقدار نہیں۔تہذیب کسی بھی معاشرے کو سنوارتی ہے۔ اس کے اثرات متاثرکن اور دیرپا ہوتے ہیں۔ تہذیب سے مراد رہن سہن اور انداز و اطور کے آداب ہیںجو کسی بھی گرو کے افراد کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ہماری اقدار ہمیں لوگوں سے میل جول اور دیگر معمولات کے حوالے سے بہترین انداز میں برتاؤ کرنا سکھاتی ہیں۔ وہ چاہے گھر میں دسترخوان پر بیٹھنے کے آداب ہوں یا سڑک پر چلنے  کے ۔  آج کل گھر وں اور سڑکوں پر ہمیں بدتہذیبی کے جو مظاہرے دکھائی دیتے ہیں ان کی بڑی وجہ تربیت اور تہذیب کی کمی ہے۔ والدہ ہو یا والد دونوں پر لازم ہے کہ اپنے بچے کی اچھی سے اچھی تربیت کریں۔   انہیں صرف کھانے کے ہی نہیں، لوگوں سے ملنے جلنے کے اور راستے کے آداب بھی سکھائیں اور صبر و شکر کی بھی تعلیم دیں۔

یہ بھی پڑھئے:چیا سیڈز: جلد کے مسائل میں فائدہ مند

یاد رہے، اقدار کے بدلنے سے معاشرتی تانے بانے بکھرنے لگتے ہیں جس کے اثرات خطرناک ہوتے ہیں جیسے حلال و حرام کی تمیز جس بھی معاشرے میںختم ہوجاتی ہے، لوگوں کے لئے تفریح کے مناسب مواقع نہیں ہوتے ، صحت مند مشاغل کو فروغ نہیں دیا جاتا، ہنر اور پیشہ وارانہ تعلیم نہیں دی جاتی وہاں غربت، جرائم ،مضر صحت عادات پروان چڑھنے لگتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اقدارکو پہچانیں اور ان میں تجدید نو کا امکان ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے معاشرے کو خوشحال بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK