• Thu, 20 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانچہ: ماں کی دعا

Updated: November 20, 2025, 12:04 PM IST | Ayesha Ansari | Mumbai

’’مائی کھانا کھا لے....‘‘ رحیمن نے ماں کی چارپائی کے قریب آ کر کہا۔ ’’اٹھ جا مائی.... کھانا کھا لے۔‘‘ بابو نے بھی پکارا۔ مائی نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ دونوں بچوں نے مائی کی گردن کے نیچے ایک ایک ہاتھ ڈال کر سہارا دے کر بٹھا دیا اور پشت پر تکیوں کے ذریعہ ٹیک لگا دی۔ مٹی کی پرئی (پلیٹ) میں دال تھی اور ڈلیا میں روٹی تھی۔

Mother.Photo:INN
ماں۔ تصویر:آئی این این
عائشہ انصاری (ممبئی)
’’مائی کھانا کھا لے....‘‘ رحیمن نے ماں کی چارپائی کے قریب آ کر کہا۔ ’’اٹھ جا مائی.... کھانا کھا لے۔‘‘ بابو نے بھی پکارا۔ مائی نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ دونوں بچوں نے مائی کی گردن کے نیچے ایک ایک ہاتھ ڈال کر سہارا دے کر بٹھا دیا اور پشت پر تکیوں کے ذریعہ ٹیک لگا دی۔ مٹی کی پرئی (پلیٹ) میں دال تھی اور ڈلیا میں روٹی تھی۔ پانی کے بدھنے سے مائی نے وہیں کلی کرکے آنگن کی مٹی پر دھیرے سے اگل دیا۔ دونوں بچے ماں کو کھانا کھلانے لگے۔ آٹھ بچوں کی پیدائش نے مائی کی کمر توڑ دی تھی۔ زچگی میں دودھ میوہ مالش سب ملا تھا.... تین بچے مر چکے تھے لیکن ہڈیوں کے بھربھرے پن نے مائی کو چلنے پھرنے سے بھی قاصر کر دیا تھا۔
آٹھ سال کی رحیمن اور گیارہ سال کا بابو جیسے تیسے کھانا بنا کر مائی کو بھی کھلا دیتے اور گھر کے دوسرے لوگوں کے لئے بھی کھانا پورا ہو جاتا۔ سب کو مائی کی حالت کا پتہ تھا جو ملتا کھا لیتے۔ اور ایک رات مائی ایسے سوئی کہ صبح کے سورج نے اندھیری قبر میں پہنچا دیا۔ مائی کے مرنے کے بعد بابو بمبئی بلا ٹکٹ اپنے بڑے بھائی کے پاس چلا آیا۔ بڑا بھائی دنگ رہ گیا۔ ’’کیوں چلے آئے؟‘‘ بابو نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا ’’ابا مارتے ہیں۔‘‘ اپنی کٹی ہوئی انگلی دکھا کر کہا، ’’ہنسیا (گھاس کاٹنے کا آلہ) پھینک کر مارے ہیں۔ ہم ڈر گئے کہیں گلے پر نہ پھینک دیں۔ غلطی کسی کی بھی ہو غصہ میرے پر ہی نکالتے ہیں۔ اب نہیں جاؤں گا گھر بھیا۔‘‘ بڑے بھائی نے گلے لگا لیا۔ ’’اچھا یہیں رہنا میرے ساتھ۔‘‘
بھائی نے دوسری صبح نئے کپڑے دلا دیئے اور ایرانی سیٹھ کی ہوٹل پر لے گیا۔ ’’سیٹھ، یہ میرا چھوٹا بھائی ہے اس کو کچھ کام دے دو۔‘‘ سیٹھ نے بابو کی طرف دیکھ کر کہا ’’ٹیبل پر کپڑا مارے گا۔ چار آنا ملے گا۔‘‘ بڑے بھائی نے خوش ہو کر کہا ’’چلے گا سیٹھ، بہت مہربانی۔‘‘ اور بابو کام پر لگ گیا۔
 
 
کھیتوں میں کام کرچکا تھا، محنتی تھا۔ وقت بیت گیا۔ رحیمن بھی بیاہ کر بمبئی آ گئی تھی۔ اکثر بہن سے ملنے چلا جاتا۔ بابو کا پریوار بھی بمبئی میں ہی تھا۔ دونوں بھائی بہن ایک دوسرے کا سہارا بن گئے۔ ایک دوسرے کے گھر آنے جانے لگے۔ ایک روز رحیمن بچوں کے ساتھ آئی۔ بابو نے سبزی گوشت روٹی سب کچھ پکوایا۔ بھائی بہن کھانا کھانے لگے۔ رحیمن نے کہا بابو ’’آج ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے تمہیں نہہیں لگتا ہے کہ خدا نے ہمیں بہت کچھ دے دیا.... ہماری محنت سے بڑھ کر.... اتنا دوسرے بھائیوں کے پاس نہیں ہے۔‘‘ بابو نے اثبات میں سر ہلایا، ’’جب ہم کھانا بنایا کرتے تھے تب میں نے مائی کی آنکھوں سے آنسوؤں کو بہتے دیکھا تھا۔ شاید وہ ہمیں دعائیں دے رہی تھیں۔ خدا نے ماں کی دعائیں قبول کر لی۔‘‘ اور دونوں مشکور آنکھوں سے کھانا کھانے لگے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK